سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ، حمام میں سب ننگے
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر پشاور نے سال 2023 میں صرف دو ایونٹس منعقد کروائے جس پر صوبائی حکومت کے پینتالیس لاکھ روپے سے زائد کے اخراجات آئے. ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور کی جانب سے سال 2023 میں کئے جانیوالے ایونٹس کی تفصیلات جوکہ چار دسمبر 2023 میں طلب کی گئی تھی آٹھ ماہ بعد یعنی 26 اگست 2024 کو یہ معلومات فراہم کی گئی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاورکی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سپیشل چلڈرن ایونٹس سال 2023میں کروایا گیا جس پر 3.0ملین روپے کے اخراجات آئے اسی طرح چودہ اگست 2023 کے دن کھیلوں کے مقابلے سمیت آتش بازی کروائی گئی جس پر 1.55ملین روپے کے اخراجات آئے.۔سال کے 365 دنوں میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پر آنیوالے اخراجات میں ڈی ایس او پشاور نے ستر لیٹرپٹرول کے اخراجات ظاہر کئے ہیں جبکہ سال 2023میں پشاور کے کسی بھی ایریا میں کوئی کلب رجسٹریشن کا عمل نہیںہوا ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور نے اپنی رپورٹ میں ظاہرکیاہے کہ سال 2023 میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ نے ڈی ایس او پشاور کو کوئی فنڈز کھیلوں کے فروغ کی مد میں جاری نہیں کیا.کم و بیس آٹھ ماہ بعد موصول ہونیوالی صوبائی دارالحکومت پشاور کے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کی کارکردگی کا حال اس رپورٹ سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے جس میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور کی انتظامیہ نے اقرار کیا ہے کہ انہوں نے سال 2023 میں صرف دو ایونٹس منعقد کروائے ، یہ الگ بات کہ یہ معلومات بھی مکمل نہیں ، صرف خانہ پری کی حد تک کام چلانے کی کوشش کی گئی ہیں -
سال 2018 میں خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے بنائے گئے سپورٹس پالیسی کے تحت یہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کی ذمہ داری ہے کہ کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد سمیت کلبوں کی رجسٹریشن کا عمل بھی کرے گا اور کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے ، لیکن پورا ایک سال گزرنے کے بعد نہ تو کسی بھی کھیل میں نیا کوئی کھلاڑی دیکھنے کو نہیں ملانہ ہی کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کا سلسلہ کسی بھی کھیل میں دیکھنے کو ملا ، یہ عجیب اتفاق ہے کہ پشاور جہاں پر کھیلوں کی سرگرمیاںکسی زمانے میں ریکارڈ ہوا کرتی تھی اب کھیلوں کے مقابلے دیکھنے کیلئے کھلاڑی خصوصا نوجوان ترس گئے ہیں -
ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر پشاور کو ماہانہ تنخواہ کا اگر ذکر کیا جائے تو کم و بیش ایک لاکھ روپے تنخواہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کو ڈائریکٹریٹ آف سپورٹس تنخواہیں ادا کرتی ہیں یعنی کم و بیش بارہ لاکھ روپے تنخواہ کی مد میں سال 2023 میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کو جاری کئے گئے ، ستر لیٹر پٹرول کے حساب سے سال کے بارہ مہینے میں پٹرول کی قیمتیں سال 2023 میں مختلف رہی تاہم اگر اوسطا 272 روپے کے حساب سے فی لیٹر لگایا جائے تو یہ ماہانہ انیس ہزار روپے پٹرول کی مد میں جاری کئے گئے جوکہ بارہ مہینے کا دو لاکھ اٹھائیس ہزار سے اوپر آرہا ہے -اسی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور میں کم و بیش بیس سے پچیس ملازمین کام کررہے ہیں جس میں مالی ، چوکیدار ، سپروائزر ، کیئرٹیکر ، جونئیر و سینئر کلرک شامل ہیں جن تمام کی تنخواہ ان کے گریڈ کے حوالے سے بنتی ہیں لیکن اگر اوسطا سب کی تنخواہ چالیس ہزار لگائی جائے تو پچیس ملازمین کی تنخواہ دس لاکھ روپے ماہانہ بنتی ہیں اوربارہ مہینے کی تنخواہ ان ملازمین کی ایک کروڑ بیس لاکھ روپے بن رہی ہیں - اسی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور میں بجلی کے بل اگر اوسطا ایک لاکھ روپے لگایا جائے تو بارہ لاکھ روپے سال 2023کے بجلی کے اخراجات آئے اسی طرح چائے ، منرل واٹر اور دیگر متفرقات کی مد میں اگر ماہانہ صرف پانچ ہزار روپے اخراجات لگائے جائے تو سالانہ ساٹھ ہزار روپے اس مد میں لگائے گئے -مینٹیننس اور مختلف جگہوں پر آنے جانے کیلئے اخراجات اس کے علاوہ ہوتے ہیں جس کی یہاں پر تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں .اب ان تمام اخراجات بشمول ڈی ایس او کی تنخواہ ، پٹرول کے اخراجات ، ان کے ملازمین کے اخراجا ت ، بجلی بل ، و دیگر متفرقات کو جمع کیا جائے تو سال کے تقریباایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے کم و بیش آرہے ہیں یعنی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور سالانہ ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے میں پشاور کے عوام کو پڑ رہا ہے.یہ صوبائی دارالحکومت پشاورکا صرف حال ہے جبکہ سال 2023 میں یہاں پر صرف دوایونٹ منعقد کروائے گئے جس پرپینتالیس لاکھ روپے کی مالیت آئی.اوراس سے حاصل وصول کچھ نہیں. اب ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاورکو ماڈل کے طورپر لیتے ہوئے صوبے کے پینتیس اضلاع کے ڈی ایس اوز، اہلکاروں،اخراجات کو وسیع نظر میں دیکھنے کی کوشش کریں تواندازہ کریں کہ اگر پشاورمیں ایک کروڑ پینتیس لاکھ کے اخراجات آرہے تودیگر اضلاع میں کم و بیش یہی حال ہوگا.ان تمام حالات میں اب پشاور سمیت کسی بھی ضلع سے نکلنے والے نئے کھلاڑی کی نشاندہی کریں تو جواب میں "بڑا زیرو"ہی ملے گا.
اب سوال یہ ہے کہ افسر شاہی کا یہ کونسا قانون ہے جس میں کروڑوں روپے کے اخراجات ہوں اور کھلاڑ ی پورے ایک سال میں سامنے نہ آئیں ، گاڑیوں میں افسران پھریں ، بنگلے افسران بنائیں اور ٹیکس صوبے کے عوام دیں تاکہ افسران شاہی کا پیٹ بھرے ، یہ کونسا قانون ہے جس میں فائدہ صرف مخصوص لوگوں کوہورہاہے اور برباد پورے صوبے کی عوام ہورہی ہیں.سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ، کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آخر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس میں بیٹھے ڈی ایس اوز کی کارکردگی کیا ہے ، کتنے کھلاڑی پیدا کئے ، کتنے مقابلوں کا انعقاد کروایا ، کتنے ملکی اور بین الاقوامی سطح کے کھلاڑیوں کیلئے سہولیات فراہم کی ، کتنے کلب کی رجسٹریشن کی ، کتنی ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن کی عمل کی نگرانی کی ، اور ان سے حاصل ہونیوالی ریونیوکتنی رہی اسی طرح مختلف مدات میں حاصل ہونیوالی آمدنی کہاں پر استعمال ہوئی ، جو پوچھنے ہیں وہ ان سے پوچھ کر آڈٹ پیرے لگا دیتے ہیں اوریہی قآڈٹ پیرے مخصوص رقم کی ادائیگی پر ختم بھی ہو جاتے ہیں. ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس میں بیٹھے افسران کی تنخواہیں تو ہر جگہ بڑھتی ہیں ، مراعات میں اضافہ بھی ہوتاہے لیکن ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ان کی ڈیموشن کا کوئی سلسلہ نہیں ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی ، وجہ کیا ہے ، بنیادی وجہ جو سب کو سمجھ میں آرہی ہیں کہ اس "حمام میں سب ننگے ہیں"اورننگے ایک دوسرے کو ننگے نہیں کہہ سکتے -کیونکہ ایک کو پتہ ہے کہ اگر میں کسی کو ننگا کہہ دیا تو پھر اس نے مجھے بھی ننگا کہ دینا ہے اس لئے "چلا چلاﺅ"والا سلسلہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ میں چل رہا ہے.
#SportsMismanagement #KPKSports #PublicFunds #Accountability #PeshawarSports #EmptyPromises
|