ہمارے مجسمہ ساز

ہمارے یہاں ایک خواتین کا پارک ہے جہاں اکثر شام میں چہل قدمی کی خاطر جانا ہوتا ہے۔تھوڑی چہل قدمی کے بعد میں وہاں ایک پرسکون گوشے میں بیٹھ جاتی ہوں۔وہ گوشہ دراصل ایک کنارہ ہے جس کے نیچے ایک معمولی سی کھائی ہے جو بہت سے خوبصورت پودوں کا گھر ہے۔میں اکثر دل بہلانے کو ان کی مہمان بن جاتی ہوں۔

ایک مرتبہ وہیں پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی کہ ایک بچہ آیا غالبا دس گیارہ سال کا ہوگا۔جو لوگ شبہ تدریس سے وابستہ ہیں اور خصوصا وہ لوگ جو کسی مقصد کے تحت وابستہ ہیں،یہ نہیں کہ کہ جیسے پاکستان میں تو المیہ یہ ہے کہ جسے کوئی نوکری نہ ملی وہ کسی سکول میں نوکری کرلے ،بحیثیت استاد۔یہ تو ایک باقاعدہ المیہ ہے جس پر بہت زیادہ بات کرنے کی ضرورت ہے مگر فی الحال میرا مدعا کچھ اور ہے۔تو میں عرض کر رہی تھی کہ جو لوگ شعبہ تدریس سے سنجیدگی سے وابستہ ہیں وہ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ ایک استاد کا صرف پیشہ ہی تدریس نہیں ہوتا بلکہ وہ تو ہم وقت تربیت کرنے پر معمور ہے۔خود کی خصوصا اور اپنے ارد گرد کی عموما۔بہرحال میں چونکہ زیادہ وقت بچوں کے درمیان رہتی ہوں اس لیے بچوں سے گفتگو کرنے سے خود کو روک نہیں پاتی۔جس بچے کا میں ذکر کر رہی ہوں وہ دراصل وہاں ایک بڑے خوبصورت پودے کے پتے توڑنے آیا تھا۔مجھے ویسے بھی پودے اچھے لگتے ہیں مگر اس جگہ کے بیل بوٹوں سے مجھے عجیب سا انس ہے۔یہ دیکھ کر کہ وہ بے دردی سے پتے نوچ رہا ہے میرا دل دکھا۔خیر میں اپنی استادی سے مجبور ہو کر اسے روکنے کی کوشش کرنے لگی اور یہ نہیں کہ ڈانٹ ڈپٹ کر مگر بڑے پیار سے کہا کہ بچے یہ پتے نہ توڑیں۔وہ بچہ اس بات پر مجھے خونخوار نظروں سے گھورنے لگا اور پوچھا ،"کیوں نہ توڑوں کیا یہ پودا آپ کا ہے؟" میں نے اسے کہا نہیں بچے مگر پودے توڑنا غلط ہے۔اپ کو سکول میں سکھاتے ہیں نا ں،کیا آپ سکول نہیں جاتے؟معلوم نہیں کیا تھا اس جملے میں کہ وہ بچہ مشتعل ہو گیا اور اس کے بعد پتے تو چھوڑیئے پودے کی ایک ایک ٹہنی توڑ ڈالی۔وہ ٹہنی توڑتا جاتا اور کہتا جاتا کہ کیا کر لو گی؟اب بتاؤ کیا کر لو گی؟اور میں بس اسے دیکھے گئی۔کچھ لمحے میں اس کا مشاہدہ کرتی رہی پھر اس قدر زچ ہو گئی کہ وہاں سے اٹھنا پڑا۔

کئی دن تک میں اس واقعے کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پائی۔میں نے اس چھوٹے بچے کی رویے میں اپنے معاشرے کا وہ بھیانک چہرہ دیکھا جس نے ہمیں بحیثیت قوم پستی کی آخری حدوں میں دھکیل دیا ہے۔وہ بھیانک چہرہ جسے دیکھ کر کوئی بھی باشعور ڈر جائے۔اس بچے کا رویہ محض ایک بچے کی شرارت نہیں تھی بلکہ اس کے اندر سلگنے والی وہ چنگاری تھی جو اگر وقت رہتے نہ بجھائی جائے تو اگ نہیں لاوے میں بدل جائے گی۔یہ بچہ ہمارے معاشرے کی عدم برداشت کی بڑی زبردست مثال ہے۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان اور جانور میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ جانور کا بچہ بہت کم عرصے میں اپنے تمام ممکنہ حواس حاصل کر لیتا ہے۔وہ محدود حواس جو اسے وہ خاص جانور بناتے ہیں۔مگر انسان ایسا نہیں ہے انسان کے سیکھنے کا وقت بہت لمبا ہے۔اپ دیکھیں کہ عمر کی پختگی کی حد بھی 40 سال ہے اس سے پہلے انسان نادان تصور کیا جاتا ہے۔اگر انسان کو تربیت کی بھٹی میں نہ سلگایا گیا پھر وہ انسان کا بچہ نہیں رہتا۔

تربیت کے موضوع پر تو اگر سارے درخت قلم بھی بن جائیں تب بھی بات ختم نہ ہو۔ہمارے ہاں تربیت کے نام پر بچوں کو غصے کا وہ سست زہر پلایا جاتا ہے جو میں نے اس بچے کی آنکھوں میں دیکھا۔سختی کا مفہوم تو کچھ اور تھا اس معاشرے کے والدین تو مار پیٹ اور جذبات ستی استحصال میں پھنس گئے۔محبت سے سمجھانے کا مفہوم تو کچھ اور ہے یہ لوگ تو بے جا لاڈ پیار کے تصور سے نہیں نکل پا رہے۔میں اس معاشرے کی ماؤں کو کیسے سمجھاؤں کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔اس درسگاہ میں جب بچے کو جھوٹ ،غیبت غصہ ،مار پیٹ، حسد،، نفرت اور ناگواریت جیسے جذبوں کی خوراک ملتی ہے تو وہ بچہ بڑا ہو کر انسان کا بچہ نہیں رہتا۔

آئے دن اس معاشرے میں نور مقدم اور ثانیہ زہرہ جیسے واقعات خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ثانیہ زہرا نو دن تشدد کا نشانہ بنی۔کوئی بھی باشعور شخص کیسے مان سکتا ہے کہ علی رضا کا یہ عمل محض وقتی غصہ تھا۔معاملہ جو بھی ہو مجھے اس سے سروکار نہیں،کسی جیتی جاگتی انسان کی زبان کاٹ دینا بہرحال انسانی رویہ نہیں ہو سکتا۔یہ غصہ ایک دن کا غصہ نہیں۔یہ غصہ ایک شخص کا غصہ نہیں تھا۔یہ وہ جنریشنل ٹراما ہے جو ہماری نسلوں کو وراثت میں مل رہا ہے۔یہ وہ غصہ ہے جو ہمارے بچوں کی رگوں میں داخل کیا جاتا ہے۔علی رضا کا یہ وحشیانہ عمل اس معاشرے کی برہنہ تصویر ہے جس معاشرے میں والدین اپنی ذاتی زندگی کی ساری فرسٹریشن اپنے بچوں پر نکال کر انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ بیٹا تم نے بڑے ہو کر یہی کرنا ہے۔میں والدین کو کیسے سمجھاؤں کہ اپ مجسمہ ساز ہیں مگر افسوس کہ اپ کی تعمیر کردہ مجسموں میں روحیں اپنا سر ٹکراتی ہوئی مر رہی ہیں اور اپ کا یہ معاشرہ تباہی کے پاتال میں گر چکا ہے۔

پارک میں اس پودے کو تباہ کرنے والا وہ بچہ نہ جانے کس غصے کا شکار تھا اور اس غصے کی زد میں کتنی زندگیاں آئیں گی اس کا پتا پودے کی ہر ٹوٹی ہوئی ٹہنی دے رہی تھی۔

خدارا اپنے پودوں کی حفاظت کریں ورنہ ان ٹوٹے ہوئے پودوں سے نکلنے والی زہریلی اکسیجن کئی معصوم زندگیوں کے دم گھونٹ دے گی۔


 

Qurat ul Ain Zulfiqar
About the Author: Qurat ul Ain Zulfiqar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.