کیا ہم میں جذبات نہیں ہیں

میں نوکری پر تھا اور مُجھے گیارہ ماہ ہو چکے تھے میں کوئی لمبی چھٹی نہیں گیا بس جب بھی جاتا تھا تو ایک دو دن گھر کا چکر لگاتا اور واپس آ جاتا۔کیو کہ،ایک تو کام بہت زیادہ تھا باقی کچھ نہی ایپ پر کام کرنا تھا شاید جو اس وقت ضروری تھا۔ اسی کشمکش میں تھا اور اس ماہ بارشوں نے بھی،پوری زندگی کا ریکارڈ تور دیا۔ بارشوں کی وجہ ایک میرے گھر کا کیا بلکہ آدھا پاکستان اس کی لپیٹ میں تھا۔اس میں ایک میں بھی ہو۔بس اسی وجہ سے مجھے گھر سے کال آئی اور بتایا گیا کہ بارشوں کی وجہ سے گھر کی حالت کافی خراب ہو چکی ہے ۔ اور آ پ اور آ پ گھر آ جائے گھر کی چھتں بہت لیک ہو چکی ہیں اور پانی نیچے ٹپک رہا ہے۔ اس وجہ سے بہت سا سامان خراب ہو رہا ہے خراب ہونے والے سامان میں پہلے نمبر گندم، بیڈ، ٹرنک اور باقی گوریلوں سامان مطلب جن جگہ کا میں ذکر کررہا ہو ان جگہوں پر پںی کو روکنے کے لیے مختلف برتنوں کی مدد حاصل کی گی۔ مگر پانی کافی مقدار میں نیچے آ رہا تھا۔ خیر یہ ساری بات جب مجھے بتائی گی تو ہمارے پروسیجر کے مطابق میں اپنی چھٹی کی بات²

28 اگست 2024 کو کی 29 اگست کو میں شام کو روانہ ہہوگیا جب میں گھر،پہنچا تو مشتری اور مزدوروں سے بات ہو چکی تھی گھر کے مکانوں کی چھتیں خراب ہو چکی تھی اب تک تو بارشیں شروع ہی تھی میرا دل تھا کہ میں جلدی سے اس کام پر لگنے والا سامان اکھٹا کر لو اس میں مجھے مٹی، بوسا، سیمنٹ، ریت اور ٹاہل اینٹی سخت ضرورت تھی۔ میں خود ہی ہر طرف بھاگ رہا تھا کہ اللہ کرے گھر بچ جائے ۔ بس اسی جستجو میں نہ تو مجھے دن کا احساس ہوا اور نہ ہی رات کا احساس۔ پتا نہیں کیو ایسے ہوتا ہے کہ ہمیں جو کام بھی کروانا ہوتا ہے اس میں اتنا زیادہ مسئلہ کس بات کا ہوتا۔ مجھے یہ سمجھ تک نہیں آئی اک اک پیسہ جو میں نے قرض لیا ہے وہ ایسے لگ رہا تھا جیسے پیسہ نام کی چیز ہی نہیں۔ باقی بات آ تی ہے پبلک دیلنگ اس میں ہم لوگ کبھی بھی سبقت حاصل نہیں کر پائے گے کیو کہ ہماری نوکری ایسی ہے جس میں ہمارا ان لوگوں کے ساتھ کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ ہم تو اپنے فرائض کی ادائیگی کے واسطے اپنا دن رات ایک کرتے ہیں۔ چلے یہ تو ایک مسئلہ ہے مگر سول لوگ ہماری کیا عزت کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑی مشق ہے جس پر ابھی کام کرنا باقی ہے۔ میں نے ایک کاریگر سے بات کی سب چیزیں اس نے بتا دی کہ یہ یہ آ پ نے سامان لے آ نا ہے۔ میں نے جب اس سامان کی غرض سے مختلف لوگوں کے پاس گیا تو لو چیز گیارہ ہزار کی تھی وہ مجھے تارہ ہزار پانچ سو کی ملی اور جہاں مجھے ریت آدھی ریڑی چاہیئے تھی وہاں مجھے آ دھی ریڑی ہی پوری کر کے بھیج دی گی سوچ رہا تھا یہ سب کیسے ہورہا ہے۔جب میں سب سامان لے کر گھر پہنچا تو مستری صاحب فرمانے لگے فلا فلا سامان کیسے ملا، کتنا لیا جب میں نے ریٹ بتائے تو وہ حیران ہوئے کہ بھائی آ پ تو بہت مہنگا لے کر آ ئے ہیں اسی وقت انہوں نے موبائل فون نکالا اور مختلف ٹھیکیداروں کو فون کیا وہاں سے ریٹ لیا اور بتایا کہ یہ یہ سامان مجھے چاہیئے یقین مانے اس وقت میرے پاوں میں سے زمین نکل گی کہ ہم تو کسی کام نہ رہیں۔ پھر اسی بات پر مجھے شعر کا ایک فقرہ یاد آ یا۔ خیر حبیب جالب صاحب کی غزل میں شعر کا ایک فقرہ ہے جس میں بیان نہیں کر پاو نگا سمجھنے والے سمجھ جائیں گے۔ اب ساری بات کرنے کا مقصد کیا تھا وہ سن مطلب ہم اپنی کے اعظم ترین دن اپنے سب رشتوں سے دور عمر کاٹ لیتے ہیں۔ مگر یہاں پر رہنے والے لوگ دن رات ترقی کے مناظر طے کرتے ہوئے ہم جیسے بیچاروں کو لوٹ کر اپنا سب کچھ پورا کر لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے پیچھے دنیا اتنی باتیں بھی کرتی ہے۔ کہ ہم نے یہ کر دیا دہ کر دیا مگر اصل بات تو یہ ہے کہ کسی کو ہماری کوئی فکر نہ بس ہمارے سامنے ہمیں عزت تو سیتےہوگے مگر پیچھے وہ سلسلہ شروع رکھتے۔ میں اصل مقصد یہاں یہ ہے کہ میرے جیسے بندہ کبھی کسی مشکل میں پھنس جائے تو اس کی پوری کھال کو نوچنے کے بجائے کچھ چھودیں تاکہ اگلی دفعہ وہ،اپنا گھر پھر سے بچا پائے۔ اللہ کریم ہم سب کو ایک ساتھ مل جھل کر رہنے کی کے قابل بنائے۔

Muhammad afzal Jhanwala
About the Author: Muhammad afzal Jhanwala Read More Articles by Muhammad afzal Jhanwala : 10 Articles with 6302 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.