جئے جانا مِرا ہر حال میں

یوں تو مرنے کے بعد کوئی انسان کبھی واپس نہیں آیا جو یہ بتا سکے کہ اس کے اوپر کیا بیتی البتیٰ کئی لوگ جو مرنے سے بچ گئے انھوں نےموت کے منہ میں جانے کے واقعات کی منظر کشی ضرور کی ہے ۔ میری بھی خوش قسمتی ہے کہ میں بھی ایک مرتبہ اسی قسم کی کیفیت سے گذر کر زندہ بچ چکا ہوں ۔یہاں واضح کر دوں کہ ایسی کیفیت کا دل کے دورے سے کوئی تعلق نہیں جس کا مزہ میں نے چار مرتبہ چکھا ہے۔دل کے دورے سے پہلے ، اس دوران اور اس کے بعد کی کیفیات بالکل مختلف ہیں۔
یوں تو مرنے کے بعد کوئی انسان کبھی واپس نہیں آیا جو یہ بتا سکے کہ اس کے اوپر کیا بیتی البتیٰ کئی لوگ جو مرنے سے بچ گئے انھوں نےموت کے منہ میں جانے کے واقعات کی منظر کشی ضرور کی ہے ۔ میری بھی خوش قسمتی ہے کہ میں بھی ایک مرتبہ اسی قسم کی کیفیت سے گذر کر زندہ بچ چکا ہوں ۔یہاں واضح کر دوں کہ ایسی کیفیت کا دل کے دورے سے کوئی تعلق نہیں جس کا مزہ میں نے چار مرتبہ چکھا ہے۔دل کے دورے سے پہلے ، اس دوران اور اس کے بعد کی کیفیات بالکل مختلف ہیں۔
2 دسمبر 1990 کو میری اوپن ہارٹ سرجری ہوئی جس میں خون کی چاروں بڑی نالیوں کے بائی پاس لگا دئیے گئے جس کے لئے میری سیدھی ٹانگ سے ایک لمبی نَس نکالی گئی۔ ایسا اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ میرا دل کا درد چار ماہ سے ہو رہا تھا جو کہ بڑھتا جا رہا تھا جس کے نتیجے میں دل کا دورہ پڑنے کا خدشہ تھا۔قسمت کا کرنا کہ آپریشن کے بائیس روز بعد ہی دل کا دورہ پڑا لیکن وقت پر اسپتال پہنچ جانے سے جان تو بچ گئی مگر دل کو 20 فی صد نقصان اٹھانا پڑا۔1993 میں پھر دورہ پڑا ، پھر ایمرجنسی میں اسپتال پہنچ کر جان بچ گئی۔1996 میں ایک مرتبہ پھر اور 1998 میں چوتھی مرتبہ ۔2010 میں انگلینڈ میں مارننگ واک کے دوران دل کا درد ہونے لگا، ڈاکٹر کو دکھایا تو تمام تفتیش کے بعد دوسر اآپریشن کروانے کا کہا گیا جو پاکستان آکر 14 اپریل 2010 میں کروالیا گیا۔2015 میں کسی قسم کا کوئی درد یا جسمانی تکلیف نہ ہونے کے باوجودمیرے ہاتھ، پاؤں، زبان حتّیٰ کہ آنکھوں کی پلکوں میں کسی قسم کی حرکت نہ رہی۔ایمرجنسی میں ڈاکٹر نے ہوش میں لانے اور جواب دینے کے قابل بنانے کے واسطے منہ پر طمانچے مارے، بال پین کی نوک سے پاؤں کے تلووں میں زور زور سے رگڑ لگائی تاکہ گُدگُدی و تکلیف کے باعث پیر ہلاؤں لیکن ناکامی کے بعد دماغی اسکین و دیگر تفتیش کے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے بعد میں نے پلکوں کے اشارے سے اپنی بیٹی کو قریب بلایا اور پانی مانگا۔مکمل ہوش میں آنے اور تمام تفتیش مکمل ہونے کے بعد کارڈیولاجسٹ، نیورولاجسٹ، سایکالوجسٹ، سائیکٹریسٹ اور اسپتال ایڈمنسٹریٹر کا بورڈ میرے کمرے ہی میں بیٹھا اور متفقہ طور پر میرے مرض کی تشخیص میں لکھا " Excessive information Syndrome" یعنی ضرورت سے زیادہ معلومات کا سنڈروم.
جسمانی اعضاء کی بے حسی کی کیفیت کےساڑھے تین گھنٹے کے دوران میں نے ایک ٹرین میں سفر کیا جس کی رفتار اس قدر زیادہ تھی کہ کھڑکی سے باہر درختوں کے پیچھے گذر جانے کی بجائے مشرقِ وسطیٰ و وسطی یورپ کے ممالک دائیں و بائیں جانب سے عین دنیا کے نقشے کے مطابق گزر رہے تھے اور آخر چند منٹ میں بحیرالکاہل آیا تو میری ٹرین ایک اندھیری سُرنگ میں داخل ہوئی جس کے دوسری جانب بہت دور ایک روشنی کی کرن نظر آرہی تھی، فوراً ہی ٹرین نے ایک سمندر کی لہروں پر سرفنگ کرنے والے کی مانند یو ٹرن لیا اور واپس وہیں آ گئی جہاں سے چلی تھی۔ہوش میں آتے ہی اور جسمانی اعضاء کی جنبش شروع ہوتے ہی میں نے ڈاکٹر کو اپنی کیفیت سنائی تو اس نے کہا کہ ایسا بہت لوگوں کو ہوتا ہے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔
اس کے بعد سے آج تک زندہ ہوں، اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین!
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 181 Articles with 149475 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More