پاک بھارت جنگ کا ذکر جب بھی آتا ہے تو ہر پاکستانی کا
سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ،یہ وہ جنگ ہے جس نے پاکستان کے وجود کو نہ صرف
دنیا سے منوایا بلکہ یہ ثابت کردیا کہ جنگ بدر کی طرح تعداد میں کم اور بے
وسائلی کے باوجود اپنے سے دس گنا ہ بڑی فوج کو بھی شکست دی جا سکتی ہے ۔کہا
تو یہ جاتا ہے کہ پاکستان ، بھارت کی ایک ریاست کے برابر بھی نہیں ہے لیکن
77سالوں سے پاکستان ،بھارت کے لیے ہر جگہ اور ہر مقام پر لوہے کا چنا ثابت
ہوا ہے۔میری نظر میں اس کی وجہ شاید رب کریم کا وہ فضل وکرم اور نبی کریمﷺ
کی نظر عنایت ہے جو لیلۃ القدر کی رات اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے
ملک پر سایہ فگاں ہے ۔آج سے 77سال پہلے برصغیر پاک و ہند کے گلی کوچوں میں
ایک ہی نعرہ گونجتا تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ ۔اس
بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا بلکہ
وادی کشمیر اور ریاست جونا گڑھ کو اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے منحوس
پنجوں میں سمیٹ لیا ۔ اس کے باوجود کہ چھب جوڑیا ں کے محاذ پر پاک فوج پیش
قدمی کرتے اس مقام سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی جہاں سے کشمیرکا راستہ
نکلتاتھا، تو بھارت نے پاکستان کے دل "لاہور"پر ایک بریگیڈ فوج سے ( ٹینکوں
اور توپوں سے مسلح ) اچانک 6ستمبر 1965ء کی صبح حملہ کردیا ۔ یہ حملہ اس
قدر اچانک تھا کہ پاک فوج کو سرحد پر مورچے کھودنے اور دفاعی سازوسامان
پہنچنے کا بھی وقت نہ ملا ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے اس جنگ کے حوالے سے
روحانیت کے چند اہم واقعات کا یہاں تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ایک واقعہ
کا ذکر حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری المعروف کرماں والوں کی کتاب میں کچھ اس
طرح درج ہے ۔کہ آپؒ کا اگست 1965کے آخری ایام میں میوہسپتال لاہور میں
پروسٹیٹ کا آپریشن ہوا تھا، اس وقت پروسٹیٹ کا آپریشن اوپن سرجری کی شکل
میں ہی ہوتا تھا۔ اس لیے آپریشن کی وجہ سے زخموں سے خون بہہ رہا تھا، زخم
تازہ ہونے کی بنا پر ڈاکٹروں نے آپ کو سفر سے منع کر رکھا تھا اس لیے آپ
لاہور ہی میں اپنے مرید کے گھر قیام پذیر تھے۔یہ 3ستمبر 1965ء کی بات ہے کہ
حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ گاڑی کا انتظام
کرو میں واہگہ سرحد پر جانا چاہتا ہوں ۔ مریدوں نے کہا حضرت صاحب آپریشن کے
زخموں سے خون ابھی رس رہاہے اور آپ ؒ تکلیف کی شدت بھی کافی محسوس کررہے
ہیں پھر ایسا کونسا کام آن پڑا ہے جو آپ واہگہ سرحد پر کرنے جارہے ہیں ۔ آپ
ؒ نے فرمایا جس بات کا علم نہ ہو، اس کے بارے میں تکرار نہیں کرتے۔ بہرکیف
آپ ؒ کار پر سوار ہوکر واہگہ سرحد جا پہنچے اور وہاں ایک چارپائی پر لیٹ کر
کچھ قرآنی آیات کا وردکرکے بھارت کی جانب پھونکیں مارتے رہے ۔واپس آنے سے
پہلے ایک مٹھ مٹی اٹھائی اس پر کچھ پڑھا اور بھارت کی جانب پھینک دی ۔شام
ڈھلے ہی آپ قیام گاہ پر واپس پہنچ گئے۔سفر کی وجہ سے تکلیف میں اضافہ ہوچکا
تھا، رات سخت تکلیف میں گزری۔اگلی صبح پھر آپ ؒ برکی ہڈریارہ سرحد پر جا
پہنچے اور وہاں بھی وہی عمل دوہرایا جو ایک دن پہلے واہگہ سرحد پر کیا تھا
۔تیسرے دن یعنی 5ستمبر 1965ء کو آپؒ گنڈاسنگھ بارڈر پرپہنچ گئے اور ایک مٹھ
مٹی کی بھر کر بھارت کی جانب پھینک آئے ۔یاد رہے کہ جب کفارنے آپﷺ کو جان
سے مارنے کا ارادہ کرکے آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا تھا تو آپ ﷺ نے بھی پہرہ
دینے والے دشمنوں کے چہروں پر کچھ کلمات پڑھ کر مٹی پھینکی تھی جس کی وجہ
سے آپﷺ کے دشمن اندھے ہو گئے تھا اور آپ ﷺبحفاظت وہاں سے نکل آئے تھے کہ
کفارمکہ کو خبر بھی نہ ہوئی ۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران یہاں بھی حق
و باطل کا معرکہ شروع ہونے جارہا تھا اور کلمہ طیبہ کے نام سے بننے والے
ملک کو بت پرست بھارت صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم لے کر سرحد پر حملہ آور
ہونے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا کہ حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ تین
مقامات پر سرحدوں کو محفوظ بنا کر جب 5ستمبر کی شام واپس اپنی قیام گاہ
پہنچے تو آپؒ کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اے اﷲ تیرے حبیب حضرت محمد ﷺ نے
سرحدیں محفوظ کرنے کی میری ڈیوٹی لگائی تھی وہ کام میں نے سرانجام دے دیا
ہے ۔ الحمد ﷲ اب پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں ۔محافظ لاہور میجر شفقت بلوچ
جنہوں نے 110جوانوں کے ساتھ بھارتی فوج کے ایک بریگیڈ کے حملے کو نہ صرف
روکا بلکہ ٹینک اور توپوں سمیت پورے بریگیڈ کو تباہ کردیا اور دس گھنٹے تک
بھارتی فوج کو لاہور کی جانب پیش قدمی نہ کرنے دی ۔ ایک ملاقات میں انہوں
نے مجھے ایک خط دکھایا جو ایک پاکستانی کا تھا جو 5اور 6ستمبر 1965ء کی رات
مسجد نبوی میں نوافل کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ عباد ت کے دوران ہی ان پر
غنودگی طاری ہوگئی ۔ خواب کی حالت میں انہوں نے دیکھا کہ نبی کریمﷺ صحابہ
کرام کے ہمراہ گھوڑوں پر سوار نہایت تیزی سے کہیں تشریف لے جا رہے ہیں ۔اس
شخص نے پوچھا یا رسول اﷲ ﷺ آپ اس قدر عجلت میں کہاں تشریف لے جارہے ہیں
۔آپﷺ نے فرمایا پاکستان پر حملہ ہونے والا ہے ،اس کے دفاع کے لیے جارہے ہیں
۔اگلی صبح جب وہ شخص نیند سے بیدار ہوا تو اسے یہ خبر سننے کو ملی کہ بھارت
نے پاکستان حملہ کردیا ہے ۔اس لمحے اسے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی
گھوڑوں پر سوار روانگی یاد آئی تو ساری بات سمجھ میں آگئی کہ حقیقت میں
پاکستان پر اﷲ تعالی اور اس کے پیارے رسول محمد ﷺ کی خاص نظر عنایت ہے ۔جن
لوگوں نے 65کی پاک بھارت جنگ اپنے ہوش میں دیکھی ہے وہ میری اس بات کی
گواہی دینگے کہ دوران جنگ آسمان پر ایک تلوار نمودار ہوئی تھی جس کی نوک
بھارت کی جانب اور ہتھی پاکستان کی جانب تھی ۔قدرت کی طرف سے یہ واضح اشارہ
تھا کہ اس جنگ کا فاتح پاکستان ہوگا ۔ان شاء اﷲ ۔یہ بات تو تمام مسلمانوں
کے علم میں یقینی طورپر ہوگی کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے ہند کی
جانب سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے ۔یہ ٹھنڈی ہوا وہ درود وسلام کی شکل میں ہے جو
نیک سیرت اور تہجد گزار لوگ صبح و شام پڑھ کے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں
ہدیہ اور تحفہ پیش کرتے ہیں۔قصہ مختصر میجر شفقت بلوچ نے ایک اور ملاقات
میں بتایا کہ جب بھارتی فوج پیش قدمی کرتی ہوئی ہڈریارہ ڈرین کے مشرقی
کنارے پر پہنچ گئی تھی تو میں اسی نالے کے اونچے مغربی کنارے کے اوپر کھڑا
ہوکر بھارتی فوج پر فائرنگ کروا رہاتھا ۔ دس گھنٹے تک نہ مجھے بھارتی
ٹینکوں توپوں اور مشین گنوں کی گولی لگی اور گولہ نے مجھے نقصان پہنچا جبکہ
ہماری ہر گولی اور توپ کا گولہ بالکل ٹھیک نشانے پر لگتا رہا جس سے بھارتی
کا مکمل بریگیڈ تباہ ہوگیا نیا حملہ آور ہونے کے لیے بھارتی فوج کو نیا
بریگیڈ لانچ کرناپڑا ۔ جب میجر عزیز بھٹی اور اس کی کمپنی نے پوزیشنیں
سنبھال لیں تو مجھے واپسی کا حکم ملاجب میں بریگیڈ ہیڈکوارٹر پہنچا تو کرنل
قریشی نے مجھ سے پوچھا کتنے جوان شہید ہوئے ہیں میں جواب دیتے ہوئے کہا سر
108 جوان آپ کے سامنے حاضر ہیں دو جوان اپنی ہی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں
سے شہید ہوئے ہیں بھارتی فوج ہمارا ایک جوان بھی شہید نہیں کرسکی ۔ کیا اب
بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان اﷲ اور اس کے رسول محمد ﷺ کی پناہ میں ہے ۔
|