میں دھوپ میں گنجا نہیں ہؤا
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
(یہ تصویر ذاتی البم سے لی گئی ہے) |
|
یہ تو اکثر کہتے ہیں کہ "میں نے کوئی دھوپ میں بال سفید نہیں کئے"۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ "میں نے یوں ہی عمر ضائع نہیں کی، بہت تجربہ ہے میرا" لیکن وقت نے ہمیں بتایا ہے کہ بال سفید کرنا ایک فیشن بن چکا ہےجس کے لئے تجربہ کوئی شرط نہیں اورمزید تحقیق کے ذریعے پوری دنیا کا ڈیٹا بتا رہا ہے کہ انسان کے گنجا ہونے کی وجہ بھی کثرتِ تجربات ہے۔ تجربات اچھے بھی ہوتے ہیں اور تکلیف دہ بھی، دونوں ہی انسان کے دماغ کی کیمسٹری پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ سر کے بال دماغ کے نزدیک ترین پڑوسیوں میں سے ایک ہوتے ہیں لہٰذا زندگی کے حوادث کے حملے بھی بالوں کو ہی سب سے پہلے برداشت کرنے ہوتے ہیں جس کے باعث ان کا رنگ و روپ سب سے پہلے تبدیل ہوتا ہے۔زندگی کی زیر و بم اور حالات کے تھپیڑوں نے ان گنت سبق سکھانے کے ساتھ ساتھ مٹھی بھر بھر کر بال اکھاڑ کر پھینک دئیے لیکن نہ کبھی نہانے کا صابن بدلا اور نہ ہی کسی قسم کا شیمپو استعمال کرنے کی تمنا کی۔ جب سے ہوش سنبھالا ایک ہی صابن لائف بوائے استعمال کیا اور آج بھی کر رہے ہیں موصوف جن کی تصویر ہے اس بلاگ میں کیونکہ انہیں اپنے بال اتنے عزیز نہیں جتنے عزیز زندگی کے تجربات ہیں۔ ایک نہایت ہی بھرپور زندگی گزاری ہے انھوں نے جس میں بچپن، لڑکپن، جوانی ، کنوار پن اور شادی شدہ تمام مراحل شامل ہیں۔اللہ تعالی کی مہربانیاں اس قدر شاملِ حال رہیں کہ پی آئی اے میں ملازمت کے باعث پوری دنیا باآسانی گھوم لی ، گویا گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کا تجربہ حاصل ہونے سے یہ کہنا نامناسب نہ ہو گا کہ اپنے بچوں سمیت نئی نسل کی راہ نمائی ایک بہتر انداز سے کر سکتے ہیں ۔یہ بات بھی درست ہے کہ فطری طور پر ہر بچہ اپنا ہاتھ جلا کر ہی سیکھتا ہے کہ آگ سے ہاتھ جل جاتا ہے لیکن زندگی میں بیشتر تجربات مشاہدے اور راہ نمائی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ اور یہ کہتے ہیں کہ زندگی کی لمبائی نہ دیکھیں بلکہ گہرائی پر غور کریں تو سمجھ میں آئے گا کہ تجربہ کی کثرت سے بال سفید ہونا ضروری نہیں بلکہ بال ضرورت سے زیادہ گر بھی سکتے ہیں جس کو عرفِ عام میں بالوں کا اُڑ جانا کہتے ہیں۔ آپ سے التجا ہے کہ اللہ سے دعا کریں کہ وہ گنجے کو ناخن نہ دے ورنہ وہ کھجا کھجا کر ہی مَر جائے گا، یعنی نا اہل کو اختیار نہ دے ورنہ متعلقین کی زندگیاں برباد ہو جائیں گی۔
|