خواتین کا عالمی دن دنیا بھر حقوق نسواں کی تحریک میں
مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ بعض ملکوں میں اس دن سرکاری تعطیل بھی ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اور
ادارے اس دن کی مناسبت سے خصوصی تقاریب اور سرگرمیوں کا اہتمام کرتے
ہیں۔ ہمارے اس دور میں خواتین کو جنسی تشدد، ریپ، اور لاتعداد دیگر
مسائل کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ بعض گھرانوں میں انہیں وہ احترام اور
مقام بھی نہیں دیا جاتا جس کی وہ حقدار ہیں۔ گھر کی اکلوتی اولاد اگر
بیٹی ہو تو جوان ہونے پر اپنے خاندان کی خوراک، صحت وغیرہ سمیت سب ذمہ
داریاں اس کے حصے میں آ جاتی ہیں۔ اپنے والدین کی صحت مند اور خوش وخرم
زندگی یقینی بنانے کے لئے اسے ضرورت ہوتی ہے ایک اچھی ملازمت کی، تاکہ
وہ اپنے والدین کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں مناسب طریقے سے انجام دے
سکے۔
کئی قبائل ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عورت ہمارے لئے ایک بوجھ ہے
اور اسی بناء پر وہ بچیوں کی تعلیم پر پیسے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
یہ بچیاں ان پڑھ رہ جاتی ہیں، جوان ہونے پر ان کی شادی کر دی جاتی ہے
اور ساری عمر ملازموں جیسا سلوک ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ اس طرح کی سوچ
رکھنے والوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ عورت بھی ایک انسان ہے،
اس کی بھی ایک زندگی ہے، کچھ بنیادی ضرورتیں ہیں اور سب سے بڑھ کر، اس
کے بھی حقوق ہیں۔ والدین کی اکثریت چاہتی ہے ان کے ہاں بیٹا ہو۔ لیکن
جب پتہ چلتا ہے کہ بیٹی ہے تو اس کے ساتھ کسی ان چاہی چیز جیسا سلوک
کیا جاتا ہے۔ اسے روکنا ہو گا۔
عورت ہمت، قوت، عزم، محبت، اور ایثار کا نام ہے۔ آج کی دنیا میں عورت
کا کردار تیزی سے بدل رہا ہے۔ خواتین اب تعلیم یافتہ ہیں، خود کفیل ہیں،
اور سیاست، کھیل، تعلیم، ٹیکنالوجی، تفریح، ہر میدان میں کامیابیوں کے
جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ آج کی تیزی سے ترقی دنیا میں ایک نئی امید پیدا ہو
رہی ہے جس میں خواتین کو مثبت سوچ کے ساتھ بااختیار بنایا جا رہا ہے۔
ایک دور تھا جب عورت پہلے اپنے والد پر انحصار کرتی تھی اور پھر اپنے
شوہر کی محتاج ہوتی تھی۔ لیکن اب وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہی
ہیں اور اپنی روزی خود کما رہی ہیں۔
آج کے معاشرے میں عورت کا ہر کردار اہم ہے۔ گھریلو خواتین سے لے کر
دفتر کے انتظامی عہدوں تک، حتیٰ کہ سی ای او جیسے عہدوں پر بھی، عورتیں
ہر شعبے میں اپنا کردار بخوبی نبھا رہی ہیں اور ہر میدان میں اپنا لوہا
منوا رہی ہیں۔ دفتر ہو یا گھر، آج کی عورت ہر فن مولا ہے۔ لاتعداد
خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنے ساتھ کام کرنے والے مردوں سے بھی زیادہ
کامیاب ہیں۔ مختلف اداروں میں وہ سینئر قیادت کے عہدوں پر اپنے فرائض
انتہائی عمدگی سے انجام دے رہی ہیں اور معاشرے میں انہیں برابر مقام
اور مرتبہ حاصل ہے۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا
کرنے میں بھی آج کی خواتین کسی طرح پیچھے نہیں۔
جب کہ اسلامی معاشرے میں مرد و زن کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا
ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ
اسلامی احکامات ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی
ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ
من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم ( جو شخص شب و روز گزارے
اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ صرف
مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے
امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری
دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں
اور اس کے لئے اقدام کریں، کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا
سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی، جو بچپن میں اور مدینہ منورہ کی جانب
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے بعد مدینے میں اپنے
والد کو پیش آنے والے تمام معاملات میں، اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر
آتی ہے، ایک نمونہ ہے جو اسلامی نظام میں عورت کے کردار اور فرائض کو
ظاہر کرتا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک آيت کہتی ہے کہ اسلام ہو، ایمان ہو،
قنوت ہو، خشوع و خضوع ہو، صدقہ دینا ہو، روزہ رکھنا ہو، صبر و استقامت
ہو، عزت و ناموس کی حفاظت ہو یا ذکر خدا ہو، ان چیزوں میں مردوں اور
عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی وہ سرگرمیاں
بالکل جائز، پسندیدہ اور مباح و بلا اشکال ہیں جو اسلامی حدود کی
پابندی کرتے ہوئے انجام دی جائيں۔ جب معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں
ہی تعلیم حاصل کریں گے تو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اس دور کے مقابلے
میں دگنی ہوگی جس میں تعلیمی سرگرمیاں صرف مردوں سے مخصوص ہوکر رہ
جائیں۔ اگر معاشرے میں عورتیں تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گی تو
معاشرے میں اساتذہ کی تعداد اس دور کی بنسبت دگنی ہوگی جس میں یہ فریضہ
صرف مردوں تک محدود ہو۔ تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی سرگرمیوں، منصوبہ
بندی، فکری عمل، ملکی امور، شہر، گاؤں، گروہی امور اور ذاتی مسائل اور
خاندانی معاملات میں عورت و مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے
فرائض ہیں جن سے ہر ایک کو عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔
قصہ مختصر، اصل ضرورت یہ ہے کہ خواتین کاحوصلہ بڑھایا جائے، انہیں نئے
نئے کام کرنے پر مائل کیا جائے اور انہیں احساس دلایا جائے کہ وہ خود
کو صرف گھر کے کاموں تک ہی محدود نہ رکھیں۔ انہیں ہر شعبے میں برابر
مواقع دئیے جائیں، انہیں آزادی دی جائے کہ وہ اپنی زندگی اور اپنے
کیریئر کے فیصلے خود کریں۔ ہمارے سامنے لا تعداد مثالیں موجود ہیں،
فاطمہ جناح، بیگم شائستہ اکرام اللہ، بے نظیر بھٹو، فہمیدہ مرزا، عائشہ
فاروق، ثمینہ خیال بیگ، رافعہ بیگ اور بہت سی دوسری خواتین جو اپنے
اپنے شعبوں میں ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں اور دوسروں کے لئے مشعل
راہ ہیں۔
خواتین کی خودمختاری ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں
تک دیہی علاقوں کا تعلق ہے تو وہاں خاص طور پر خواتین کو بااختیار
بنانا لازم ہے۔ ایک طرف ایسی بچیاں ہیں جنہیں تعلیم، غذائیت اور صحت
جیسے بنیادی حقوق میسر ہیں اور دوسری جانب دیہی علاقوں کی بے شمار
بچیاں ہیں جنہیں وقت سے پہلے سکول بھی چھوڑنا پڑ جاتا ہے اور کہیں
چھوٹی موٹی نوکری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں یا ہانڈی چولہا ہی ان کا
مقدر بنتا ہے۔ صنفی امتیاز، گھریلو تشدد، کم عمری کی شادی، کام کی جگہ
پر برتا جانے والا امتیاز، ایسی لاتعداد مشکلات ہیں جو بیشتر عورتوں کا
مقدر ٹھہرتی ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہر لڑکی کو
معیاری تعلیم، مناسب غذا اور اچھی صحت کی تمام سہولتیں اور حقوق میسر
ہوں۔ خواتین کے تحفظ کے مناسب قوانین اور ان کے نفاذ کے مکمل انتظامات
ہونے چاہئیں۔ ایک پڑھی لکھی اور بااختیارلڑکی پورے خاندان کو خوش وخرم
بنا سکتی ہے۔ خواتین جب تعلیم یافتہ اور برسرروزگار ہوں گی وہ خاندان
کے مالی مسائل حل کرنے میں بھی مددگار ہوں گی۔ دنیا کو خوشحال اور صحت
مند بنانے کا ایک بہترین طریقہ ہے کہ خواتین کو بااختیار بنا دیا جائے۔
|