زراعت میں نمایاں پیش رفت اور تکنیکی جدت طرازی کی بدولت
چین میں غذائی سلامتی کو نمایاں تقویت ملی ہے ۔حالیہ برسوں میں مسلسل
کوششوں کی بدولت ملک میں اناج کی جامع پیداواری صلاحیت کو یقینی بناتے ہوئے
اس میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے ابتدائی
برسوں میں، ملک کی اناج کی پیداوار صرف 100 بلین کلوگرام سے زیادہ تھی.
1978 میں اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسیوں کے بعد ، گھریلو ذمہ داری کے
نظام کے نفاذ نے اناج کی پیداوار میں ایک زبردست پیش رفت کا مشاہدہ
کیا۔2012 کے بعد سے ، زرعی اراضی اور تکنیکی بہتری کے ذریعے اناج کی حفاظت
کو یقینی بنانے پر چین کی اسٹریٹجک توجہ، ملک کی جامع اناج کی پیداواری
صلاحیت میں مسلسل اضافے کا باعث بنی ہے۔
ان کوششوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے کہ2015 میں ، قومی اناج کی پیداوار 650
بلین کلوگرام سے تجاوز کر گئی ، اور یہ مسلسل نو سالوں سے اس سطح سے اوپر
چلی آ رہی ہے۔ 2023 میں یہ پیمانہ تقریباً 700 بلین کلوگرام تک پہنچ چکا
ہے، جو 1949 کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ اضافہ ہے۔ اسی طرح فی کس اناج کی
پیداوار 493 کلوگرام رہی ، جو سالوں سے عالمی اوسط سے متجاوز چلی آ رہی ہے
اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اناج کی حفاظت کی حد 400 کلوگرام سے بھی
متجاوز ہے۔
دریں اثنا، چین کی اناج کی پیداوار مقدار پر مبنی، وسیع نقطہ نظر سے ایک
ایسے نقطہ نظر میں تبدیل ہوئی ہے جو معیار اور کارکردگی دونوں کی قدر کرتا
ہے۔ 2023میں ، قومی سطح پر مجموعی زرعی مصنوعات کے معیار کا تحفظ اور
نگرانی کی صلاحیت کی شرح 97.8 فیصد تک پہنچ گئی ، اور اعلیٰ معیار کی فصلوں
کی اقسام کی کوریج کی شرح 96 فیصد سے تجاوز کر گئی۔اسی طرح2023 تک ملک میں
سبز، نامیاتی اور جغرافیائی طور پر نامزد زرعی مصنوعات کی کل تعداد 75 ہزار
تک پہنچ گئی ہے۔ ایک جامع ترقی، پیداوار اور گردش کا نظام بتدریج قائم کیا
گیا ہے، جو خام اناج سے تیار مصنوعات تک، پیداوار سے فروخت تک، اور کھیتوں
سے کھانے کی میزوں تک پھیلا ہوا ہے.
اسی دوران زراعت کی بنیاد کو بھی مسلسل مضبوط کیا گیا ہے اور متعلقہ سائنس
اور ٹیکنالوجی کی جدت طرازی میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔چین نے ابتدائی طور
پر قدرتی آفات کی روک تھام اور تخفیف کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے زرعی
بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ترجیح دی ، خاص طور پر پانی کے تحفظ کو نمایاں
اہمیت دی گئی ہے۔ زرعی سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی کی صلاحیتوں میں نمایاں
اضافے سے پیداواری کارکردگی میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔2012 کے
بعد سے ، ملک نے آبپاشی کے پانی کے ذرائع اور آبپاشی کے علاقوں کی ترقی اور
تبدیلی کو مربوط کرتے ہوئے اعلیٰ معیار کے کھیتوں کی تعمیر کو مسلسل آگے
بڑھایا ہے۔2023 کے اختتام تک، ملک بھر میں 66 ملین ہیکٹر سے زیادہ اعلیٰ
معیار کے کھیت تیار کیے جا چکے تھے. سال 2023 میں ملک میں قابل کاشت اراضی
کی آبپاشی کا رقبہ تقریباً 72 ملین ہیکٹر تک پہنچ گیا، جو 1952 کے مقابلے
میں 2.6 گنا زیادہ ہے، جس میں 7300 سے زیادہ بڑے اور درمیانے سائز کے
آبپاشی علاقے تعمیر کیے گئے، جو قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم
کردار ادا کر رہے ہیں۔
چین کے لیے یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ ملک کے قیام کے بعد سے زرعی آلات
اور میکانائزیشن کی سطح میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔1952 میں، زرعی مشینری کی
کل طاقت صرف ایک لاکھ چوراسی ہزار کلوواٹ تھی، جس میں 2000 سے بھی کم
ٹریکٹر اور صرف 284 کمبائن ہارویسٹر تھے۔ 2022 تک ، زرعی مشینری کی کل طاقت
1.11 بلین کلو واٹ تک پہنچ گئی تھی ، جس میں ٹریکٹروں کی تعداد 21 ملین سے
زیادہ اور کمبائن ہارویسٹرز کی تعداد 1.7 ملین سے زیادہ تھی۔
تاحال، فصل کی کاشت، پودے لگانے اور کٹائی کے لئے جامع میکانائزیشن کی شرح
73 فیصد سے زیادہ ہے، گندم کی پیداوار بڑے پیمانے پر مکمل مشینی ہو چکی ہے،
اور مکئی اور چاول کی کاشت، پودے لگانے اور کٹائی کے لئے میکانائزیشن کی
شرح 80 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے.یوں ، زرعی پیداوار اپنے ہاتھوں اور
جانوروں پر انحصار کے بجائے میکانی قوت میں منتقل ہوگئی ہے۔
جدید زرعی تکنیکوں کا مزید ذکر کیا جائے تو ملک میں زرعی سائنسی اور تکنیکی
جدت طرازی کا نظام 2012 کے بعد سے تیزی سے مضبوط ہوا ہے۔ 2023 میں ، قومی
زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیاتی شراکت کی شرح 63.2 فیصد تھی ، جو 2012
کے مقابلے میں 8.7 فیصد پوائنٹ کا اضافہ ہے ، جس نے چین کی زرعی سائنس اور
ٹیکنالوجی کی مجموعی سطح کو دنیا کے صف اول کے زرعی ممالک میں لاکھڑا کیا
ہے۔
|