چینی حکام کی جانب سے حال ہی میں جاری ایک وائٹ پیپر کے
مطابق ملک کی گرین انرجی کی ترقی توانائی کی عالمی منتقلی کا انجن بن گئی
ہے، جس نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے دوران عالمی افراط زر کے دباؤ کو
کافی حد تک کم کیا ہے۔چین کا 2013 کے بعد سے عالمی قابل تجدید توانائی کی
صلاحیت میں سالانہ اضافے کا شیئر 40 فیصد سے زیادہ رہا ہے۔گزشتہ سال چین
میں قابل تجدید توانائی کی نئی نصب کردہ صلاحیت دنیا کی مجموعی صلاحیت کا
نصف سے زیادہ رہی ہے۔
اسی طرح ملک میں 2014سے 2023 تک عالمی توانائی کی کھپت میں نان فوسل ایندھن
کا حصہ 13.6 فیصد سے بڑھ کر 18.5 فیصد ہو گیا، جس میں چین کا حصہ 45.2 فیصد
رہا ہے۔آج چین سبز توانائی کے منصوبوں پر 100 سے زائد ممالک اور خطوں کے
ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ چین کی فوٹو وولٹک اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی
مصنوعات کی برآمدات سے دوسرے ممالک کو 2023 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے
اخراج کو تقریبا 810 ملین میٹرک ٹن تک کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
توانائی کی عالمی منتقلی کے ایک مضبوط حامی کی حیثیت سے، چین بین الاقوامی
برادری کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر توانائی تعاون کی منصوبہ بندی کرنے،
عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور سب کے لئے ایک صاف ستھری دنیا کی تعمیر
کے لئے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے چین کو عالمی قابل تجدید توانائی کے شعبے
میں سب سے آگے اور قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں دنیا کی تیزی سے توسیع
کے پیچھے ایک اہم محرک قوت کے طور پر تسلیم کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے
کہ چین اپنی توانائی کی فراہمی کی صلاحیت کو اپ گریڈ کرتے ہوئے اپنی
توانائی کی پیداوار اور کھپت کے طریقوں میں اصلاحات کو فروغ دینے کی کوششوں
کو تیز کر رہا ہے۔معاون پالیسیوں، گھریلو سپلائی چین میں مسابقتی پیش رفت
اور قابل اعتماد گرڈ سسٹم کی وجہ سے چین مسلسل قابل تجدید توانائی کے
منصوبوں کے ساتھ توانائی کی منتقلی کو تیز کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جولائی کے آخر تک چین 1206 گیگا واٹ ہوا اور شمسی
توانائی کی صلاحیت نصب کر چکا تھا ، جو 2030 کے لئے مقرر کردہ 1200 گیگاواٹ
کے قومی ہدف سے زیادہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ چین نے مقررہ وقت سے چھ سال
پہلے ہدف حاصل کر لیا ہے.بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی کی ایک
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں
میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران فی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کی اوسط پیداواری لاگت
میں 60 فیصد سے زائد کی کمی دیکھی گئی ہے جبکہ شمسی توانائی کے منصوبوں کی
لاگت میں 80 فیصد سے زائد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ
کمی بڑی حد تک چین کی گرین انرجی شفٹ کی وجہ سے ہوئی ہے۔
دوسری جانب چین کے مزید کھلے پن سے صاف توانائی سے متعلق گہرے بین الاقوامی
تعاون کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اس ضمن میں جنرل الیکٹرک، بی پی اور
سیمنز سمیت ملٹی نیشنل کمپنیاں چین کے توانائی کے شعبے میں اپنی سرمایہ
کاری میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں اور ملک بھر میں بہت سے غیر ملکی منصوبے
جاری ہیں۔چینی حکومت کی جانب سے یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ ماحول
دوست اور کم کاربن ترقی کے میکانزم کی موئثر تشکیل اور اسے مزید بہتر بنا
کر توانائی کی اصلاحات کو گہرا کرنے کی کوششوں کو مسلسل تیز کرے گی۔
|