میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا اداب
میری اج کی تحریر کچھ مختلف ہے میں اکثر کسی نہ کسی موضوع پر کچھ نہ کچھ
لکھ کر اپ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں ابھی پچھلے دنوں ایک تحریر بعنوان "
سچی حکایات " آپ تک پہنچائی جس میں ہمارے بزرگوں کی کچھ سچی حکایات تحریر
کی تھی لیکن اج کچھ بزرگان دین کے مختصر واقعات اور زندگی سے جڑی کچھ اہم
باتوں کا میں اپنے تحریر میں ذکر کروں گا اور اس کے بعد ان واقعات اور
زندگی سے جڑی ان کام کی باتوں کا ہماری زندگی پر کیا اثر ہے ہمیں کیا
سیکھنے کو ملتا ہے اس کا ذکر کروں گا اج کی اس تحریر میں شامل ہونے والے
مختصر واقعات ہمارے علماء کرام اور ہمارے فقہاء نے اپنی کئی کتابوں میں
تیری کیے ہوئے ہیں لیکن عام لوگوں تک ان کی رسائی کم رہی لہذا میری کوشش ہے
کہ میں ان کو اپنے اسان الفاظ میں اب تک پہنچانے کی کوشش کروں تاکہ آپ کو
سمجھ بھی آئے اور ہمیں زندگی میں کچھ سیکھنے کو بھی ملے ۔اللہ رب العزت سے
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی مجھے سچ کہنے سچ لکھنے اور اپ تک سچ پہنچانے
کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب ہم بزرگان دین کے واقعات کا مطالعہ کرتے
ہیں تو ہمیں ان واقعات میں اکثر بزرگان دین کا کسی عام انسان ،جانور ، پہاڑ
، یا اللہ کی کسی بھی مخلوق سے باقاعدہ بات چیت اور اس بات چیت میں زندگی
سے قریب کئی باتوں کا علم ہوتا ہے جس میں یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کی حکمت
اور مصلحت صاف نظر آتی ہے سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ کے نام سے کون
واقف نہیں وہ اکثر رات کو گشت پر نکل جاتے اور اپنی رعایا کا حال احوال
دیکھتے کہ کہیں کوئی پریشان تو نہیں یا مشکل میں تو نہیں تاکہ اس کی اس
پریشانی کو ختم کیا جا سکے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ سردی کے دن تھے اور سردی کی راتیں
جب وہ گشت پر تھے تو انہوں نے ایک شخص کو ایک تندور کے پاس سوتے ہوئے دیکھا
تو حیران ہوگئے اور اسے اٹھا کر پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیوں سورہے ہو
؟ تو اس نے عرض کیا کہ میں ایک مزدور ہوں دن بھر مزدوری کرتا ہوں اور رات
کو یہاں سو جاتا ہوں سلطان نے پوچھا کہ اتنی سخت سردی میں رات کیسے گزرتی
ہے ؟ تو اس نے عرض کیا کہ " آدھی رات آپ کی طرح گزرتی ہے اور آدھی آپ سے
بہتر"
سلطان یہ جواب سن کر حیران ہوگیا اور کہا کہ اپنی بات کی وضاحت کرو تو اس
نے عرض کیا کہ یہ تندور جب تک گرم رہتا ہے میں سکون کے ساتھ آپ کی طرح سوتا
ہے اور جب یہ ٹھنڈہ ہوجاتا ہے تو میں اٹھ کر اپنے رب کی عبادت میں مصروف
ہوجاتا ہوں اور یہ وقت میرا آپ کے وقت سے بہتر گزرتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مختصر واقعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ
انسان اگر اپنے رب تعالیٰ کے قریب ہو اور اس کے ذہن میں صرف اللہ تعالیٰ کے
احکامات پر عمل کرنا ہی زندگی ہو تو وہ ہر کام ہر عمل اس رب کی مرضی سے
کرتا ہے اور یہ زندگی اس کو بادشاہ کی بادشاہت سے بھی بہتر لگتی ہے سردی
گرمی اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی نیند کے آنے نہ آنے سے اس کا کوئی
تعلق نہیں وہ ہر جگہ ہر مقام پر اپنا سکون ڈھونڈلیا کرتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بعض اوقات زندگی میں ایسا وقت یا ایسا موقع
اجاتا ہے کہ وقت اور حالات کے تحت جھوٹ سے کام لینا پڑتا ہے اور کسی کے
ساتھ بھلائی ہوجاتی ہے جبکہ اگر کہیں جھگڑے یا فتنے کے پھیلنے کا اندیشہ ہو
تو وہاں سچ بولنا بھی مناسب نہیں ہوتا جیسے ایک بادشاہ نے ایک بیگناہ قیدی
کے پھانسی کا حکم جاری کیا تو قیدی بادشاہ کی ناانصافی پر بڑبڑانے لگا اور
دل ہی دل میں برا بھلا کہنے لگا بادشاہ کو اندازہ ہوا تو اس نے وزیر سے
پوچھا کہ یہ قیدی کیا کہ رہا ہے تو وزیر نے موقع کی مناسبت سے بڑی ذہانت
اور دانشمندی سے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ کہ رہا ہے کہ " معاف کرنے والے کو
اللہ تعالیٰ بھی پسند کرتا ہے " بادشاہ وزیر کی بات سن کر قیدی سے بہت
متاثر ہوا اور اس کی رہائی کا حکم صادر فرمادیا ابھی بادشاہ باہر نکلا ہی
تھا کہ ایک شخص آگے بڑھا اور عرض کیا کہ بادشاہ سلامت وزیر نے آپ سے جھوٹ
بولا تھا اور اصل میں قیدی آپ کو برا بھلا کہ رہا تھا تو بادشاہ مسکرایا
اور اس سے کہا کہ وزیر کا نیکی پھیلانے والا جھوٹ تمہارے فتنہ انگیز سچ سے
بہتر ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دیکھا آپ نے اس واقعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے
کہ اگر کہیں معاملہ خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو وہاں جھوٹ بول کر اس معاملہ
کو نیکی سمجھ کر حل کرددینے سے جھوٹ جھوٹ نہیں رہتا جیسے جامع ترمذی کی
حدیث 1939 جس میں اسماء بنت یزید ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’صرف تین جگہ پر جھوٹ جائزاورحلال ہے ، ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے بات
کرے تاکہ اس کو راضی کرلے، دوسرا جنگ میں جھوٹ بولنا اورتیسرا لوگوں کے
درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا‘‘۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث میں موجود تیسری وجہ یعنی لوگوں کے
درمیان صلح کرانے میں جھوٹ کا استعمال اصل میں جھوٹ نہیں رہتا بالکل یہاں
بھی وزیر نے اپنی دانشمندی سے یہ جھوٹ بول کر اس بیگناہ کو پھانسی سے بچا
کر بادشاہ اور اس قیدی کے درمیان صلح کروائی اور نیک کام کیا ویسے جھوٹ ایک
بہت بڑی لعنت ہے اس سے ہمیں ہر حال میں بچنا چاہئے اور اس سے دور رہنا
چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے آج کے معاشرے میں ہماری بدقسمتی ہے
کہ دنیا میں چاروں طرف مسلمان حالت جنگ میں ہیں اب وہ کشمیر ہو یا فلسطین
یا کوئی اور مسلم آبادی والا ملک ، شہر یا علاقہ بی بی سی کے مطابق
برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں غزہ میں جاری جنگ کے دوران
مسلمانوں سے نفرت (اسلاموفوبیا) اور یہود مخالف واقعات میں کئی گنا اضافہ
ہوا ہے۔
مگر مغربی دنیا میں یہ نفرت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک مثال غزہ
میں جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد امریکہ میں ایک مسلمان خاندان پر انتہائی
وحشیانہ حملہ ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ تو
آئیے میں آپ کو ایک مختصر مگر اس معاملے سے جڑا ایک خاص واقعہ بتاتا ہوں
ہوا یوں کہ ایک دفعہ ایک شکاری جنگل سے تیتر کا ایک بچہ پکڑ کر لاتا ہے اور
اسے ایک الگ تھلگ اور انتہائی شاندار پنجرے میں رکھتا ہے اسے اس کی مطلوبہ
خوراک اس کی ضرورت سے زیادہ اس کو دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ تیتر کا بچہ بہت
جلدی اس شکاری سے مانوس ہوجاتا ہے اور یہاں سے اڑکر واپس جنگل میں جانے کا
تصور بھی دل سے نکال دیتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شکاری کے اس تیتر
کے بچے پر Investment کی ہوئی رقم سے ملنے والے profit کو حاصل کرنے کا وقت
اجاتا ہے جب تیتر کا وہ بچہ اب بڑا ہوجاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ اپنے پلے ہوئے تیتر کو لیکر جنگل جاتا
ہے اور وہاں ایک جال بچھاتا ہے اپنے تیتر کو پنجرے میں رکھ کر بچھائے ہوئے
جال کے عین بیچ میں رکھ کر خود چھپ جاتا ہے اور تیتر سے کہتا ہے کہ وہ
چیخنا شروع کردے جب تیتر چیختا ہے تو دوسرے تیتر اس کی آواز سن کر آجاتے
ہیں اور اس کو پنجرے میں بند دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ پریشانی میں ہے
مصیبت میں ہے ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے لہذہ کئی تیتر وہاں اکٹھے ہو جاتے
ہیں اور یوں شکاری کے جال میں پھنس کر اس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں پھر وہ
شکاری واپس اپنے گھر آکر اپنے پالتو تیتر کو اس کی خوراک دیکر پنجرے میں
بند کردیتا ہے جبکہ اس کے سامنے پکڑے ہوئے تیتروں کو ایک ایک کرکے کاٹنا
شروع کردیتا ہے لیکن اس کے پالتو تیتر کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا
کہ وہ دوسرے تیتروں کا کیا حال کررہا ہے کیونکہ اسے اس کی خوراک مل رہی ہے
اور وہ بھی اس کی ضرورت سے زیادہ لہذہ وہ اس شکاری سے خوش تھا اور شکاری اس
سے خوش تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے آج کے اس معاشرے میں ہمارے مسلمانوں
کا بھی یہ ہی حال ہے ہمارے درمیان بسنے والے یہودی ، نصاریٰ ، کفار اور
مشرکین دراصل اس شکاری کی مانند ہیں اور ان لوگوں نے ہمارے مسلمانوں میں سے
کئی مسلمانوں کو اپنا غلام بناکر انہیں ان کی خوراک ان کی ضرورت سے زیادہ
دے کر ان سے اپنا کام لیتے ہیں اور جب ان کے سامنے ان کے ہی لوگوں کا خون
بہایا جاتا ہے تو وہ خاموش تماشائی بن کر سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں جیسے آج
کل فلسطین ، کشمیر اور پریشان مسلمانوں کے قتل عام پر اہل مسلمان خاموش ہیں
اور اپنے سامنے اپنے بچوں کو یتیم ہوتے ہوئے اور عورتوں کو بیوا ہوتے ہوئے
دیکھتے ہیں لیکن ان کی مسلامانیت اور ان کا ایمان کہیں نظر نہیں آتا اللہ
سب پر اپنا کرم کرے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم جب بھی کسی مشکل یا پریشانی میں مبتلہ
ہوتے ہیں تو ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں اور گلے شکوے کرکے
آپس میں دوریاں پیدا کردیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ مشکل
میں مجھے پکارو میں سنتا ہوں اور پریشانیوں کو دور بھی میں ہی کرتا ہوں اب
دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص اور مقرب بندوں کی کس طرح مدد کرتا ہے شیخ
سعدی علیہ الرحمہ ایک دفعہ ایک سفر پر نکلے ان کا گدھا بھی ان کے ساتھ تھا
چلتے چلتے رات ہوگئی قریب ہی ایک گائوں تھا جب وہاں پہنچے تو آپ علیہ
الرحمہ نے رات گزارنے کے لئے ٹھکانہ تلاش کیا لیکن کوئی بھی انہیں اپنی جگہ
دینے کے لئے رضامند نہ ہوا آپ علیہ الرحمہ نے لوگوں کی کافی منت سماجت کی
لیکن بات نہیں بنی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر یکایک ایک گھر سے ایک شخص باہر آیا اور
کہا کہ آپ علیہ الرحمہ مجھے اللہ تعالیٰ کے ولی معلوم ہوتے ہیں میں آپ علیہ
الرحمہ کو اپنی جگہ دینے کے لئے تیار ہوں لیکن ایک شرط پر آپ علیہ الرحمہ
نے فرمایا کہ وہ کیا ؟ تو وہ کہنے لگا کہ میری بیوی زچگی کے درد سے تڑپ رہی
ہے لیکن بچہ نہیں ہوتا آپ علیہ الرحمہ دعا کردیں تو میں جگہ مہیا کردیتا
ہوں آپ علیہ الرحمہ اس کی بات مان گئے اور آپ علیہ الرحمہ کو کمرہ مل گیا
پھر آپ علیہ الرحمہ نے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر اس شخص کو دیا اور فرمایا کہ
یہ تعویذ مریضہ کی ناف پر باندھ دے اس شخص نے وہ تعویذ اپنی بیوی کی ناف پر
جیسے ہی باندھا تو تھوڑی دیر میں ہی بچہ کی ولادت ہوگئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صبح ہوتے ہی شیخ سعدی علیہ الرحمہ تو اپنے
گدھے کے ساتھ روانہ ہوگئے لیکن گائوں والوں نے اس تعویذ کو سنبھال کر رکھ
لیا جب بھی ایسی نوبت آتی وہ یہ تعویذ استعمال کرتے اور ان کی تکلیف دور
ہوجاتی لیکن اس گائوں میں موجود مولوی کو بڑا غصہ آیا کہ لوگوں نے اب اس کے
پاس جانا چھوڑ دیا تھا وہ اس چکر میں تھا کہ کسی طرح یہ تعویذ اس کے ہاتھ
لگ جائے تو وہ یہ دیکھے کہ اس پر کیا لکھا ہوا ہے ایک دن اس نے جھوٹ موٹ کا
بہانا بناکر وہ تعویذ حاصل کرلیا اور جب اس نے دیکھا کہ کیا لکھا ہوا ہے تو
اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ اس پر لکھا ہوا تھا کہ
" اے مالک و مولا مجھے ٹھکانہ مل گیا ہے اب میں اور میرا گدھا آرام سے ہیں
آگے تو جانے تیرا کام "
حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے اس واقعہ سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ
مشکل کتنی بڑی ہی کیوں نہ ہو بس اللہ تعالیٰ کو یاد کرو مشکل آسان ہو جائے
گی کیونکہ وہ ہی ذات مشکلوں کو ٹالنے اور پریشانیوں کو ختم کرنے والی ذات
ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے روزمرہ معمولات زندگی میں انصاف کا
رول بڑا اہم ہے دنیا کے کئی ممالک صرف انصاف پسندی کی وجہ سے آج ترقی کی
جانب رواں دواں ہیں ہماری بدقسمتی ہے کہ پچھلے 77 سالوں میں ہمارے ملک کے
ایک عام انسان کو یہ " انصاف " جیسا لفظ میسر نہ ہوسکا دنیا کا کوئی بھی
ماہر قانون دان ہو عالم ہو یا معروف سیاسی شخصیت جب بھی انصاف کی بات ہوتی
ہے تو خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کا ذکر
ضرور ہوتا ہے یہاں تک کہ دنیا کے بڑے بڑے غیر مسلم ماہرین بھی حضرت عمر
فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کی مثال دینے پر مجبور نظر آتے ہیں
ہمارے درمیان آج بھی کئی ممالک یا کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی
دیانتداری اور ایمانداری کی وجہ سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں آئیے اس تحریر
کے آخر میں ایسے ہی ایک شخص کے متعلق آپ کو بتاتا ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کہتے ہیں کہ افغانستان کے ایک سابق صدر
جناب سردار دائود کو یہ اطلاع ملی کہ یہاں تانگے والوں نے اپنی من مانی سے
کرایوں میں ناجائز اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں بیچینی پھیل گئی
ہے گویا سردار داؤد بھیس بدل کر فوری طور پر ایک کوچوان یعنی تانگے والے کے
پاس پہنچ گئے اور پوچھا کہ " پل چرخی" کا کرایہ کتنا ہوگا ؟ یہ افغانستان
کے ایک مشہور علاقے کا نام ہے تانگے والے نے سردار داؤد کو پہچانا نہیں اور
بولا کہ جناب میں سرکاری قیمت پر تانگہ نہیں چلاتا اس کی بات سن کر سردار
داؤد کہنے لگے کہ 20 ؟ تو کوچوان کہنے لگا اور اوپر جائو تو سردار نے کہا
25 ؟ تو کوچوان نے کہا تھوڑا اور اوپر سردار نے کہا 30؟ تو کوچوان نے کہا
اور اوپر سردار داؤد نے کہا کہ 35؟ تو کوچوان نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے
کہا مارو تالی اور یوں سردار داؤد تانبے پر سوار ہوگئے اور تانگہ چلنے لگا
۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تھوڑی دیر بعد کوچوان نے کہا مجھے لگتا ہے
آپ فوجی ہو ؟ تو سردار نے کہا کہ تھوڑا اور اوپر جائو تو کوچوان نے کہا کہ
پھر اشتہاری ہو ؟ تو دائود نے کہا اور اوپر جائو تو کوچوان بولا جنرل ہو ؟
تو دائود نے کہا کہ اور اوپر جائو تو وہ بولا کہ ائیر مارشل ہو ؟ تو دائود
نے کہا کہ اور اوپر جائو تو وہ بولا کہیں تم سردار داؤد تو نہیں ہو ؟ تو
دائود نے کہا کہ مارو تالی یہ سن کر تانگے والے کا رنگ اڑ گیا اور وہ گھبرا
کر بولا کہ کیا اب تم مجھے جیل بھیجو گے ؟ تو سردار نے کہا کہ نہیں اوپر
جائو تو وہ بولا کہ مجھے جلا وطن کردو گے ؟ نہیں اور اوپر جائو تو وہ بولا
کہ پھر کیا تم مجھے پھانسی پر چڑھائو گے ؟ تو سردار داؤد خان نے کہا کہ "
مارو تالی"
یہ واقعہ پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ اگر دو چار تالیاں مارنے والے اس ملک
میں بھی پیدا ہو جاتے تو ہمارا ملک آج کہاں ہوتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے کوشش کی ہے کہ آج کی اس تحریر میں
ایسے واقعات اور ایسی کام کی باتیں شامل کروں جنہیں پڑھ کر ہم کچھ نہ کچھ
سوچنے پر مجبور ہو جائیں اور جب سوچیں گے تو اس سے کچھ سیکھنے کی ہمت ہوگی
اور اگر کچھ سیکھ لیا تو عمل کرنے کی جستجو ہوگی اور جب عمل کریں گے تو
زندگی میں تبدیلی بھی محسوس ہوگی اور یہ ہی مثبت تبدیلی ہمیں زندگی میں بہت
کچھ فراہم کرے گی کیونکہ ہم جو کر سکتے ہیں وہ ہمیں کرنا چاہئے جس کا جو
کردار ہے اگر وہ اسے مثبت انداز میں ادا کرے تو ان شاءاللہ ہمارا ملک بھی
ترقی کرے گا اور ہمیں زندگی میں وہ سب کچھ حاصل ہوگا جس کی ہر ذی شعور اہل
ایمان مسلمان تمنا کرتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میری آگے بھی یہ ہی کوشش ہوگی کہ میں ایسے
مختصر ، سچے اور زندگی سے قریب واقعات کو اپنی تحریر میں شامل کرکے آپ تک
پہنچائوں تاکہ ہمیں اپنی اس عارضی زندگی کو گزارنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے
احکامات پر عمل کرنے اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی
احادیث پر عمل کرنے کا نہ صرف شوق پیدا ہو بلکہ ہم اپنا ہر کام ہر عمل اس
طرح گزاریں جیسے ہمارے انبیاء کرام علیہم السلام ،صحابہ کرام علیہم الرضوان
، اولیاء کرام اور بزرگان دین نے گزاری تاکہ ہماری آخرت بھی سنور جائے اور
ہمارا آخری مقام بھی جنت کا مقام ہو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے
احکامات کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ
علیہ وآلیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے
آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|