حمد ہے مالکِ کائنات کی جس نے ہمیں مکر و فریب اور دھوکہ
دہی سے لبریز عارضی دنیا میں بھیج تو دیا لیکن ابلیس لعین کی مانگی گئی
مہلت بھی قبول فرماتے ہوئے سورۃ الحجر کی آیات میں ارشاد فرمایا!
ابلیس نے کہا پروردگار مجھے اس دن تک مہلت دے جب لوگ (مرنے کے بعد) زندہ
کیے جائیں گے تو رب تعالیٰ نے فرمایا تجھے مہلت دی جاتی ہے وقت مقرر (یعنی
قیامت) کے دن تک
چنانچہ مالک کائنات نے اپنی شانِ عظیم کے مطابق ابلیس کی مطلوبہ مہلت پر جب
حکم صادر فرمایا تو شیطان مردود نے کہا پروردگار جیسا کہ آپ نے مجھے راستے
سے الگ فرمایا تو میں بھی زمین پر لوگوں میں گناہوں کو اس طرح آراستہ کر
دکھاؤں گا کہ سب کو بہکا دوں گا البتہ آپ کے مخلص بندوں پر یقینا قابو پانا
مشکل ہو گا
رب تعالیٰ نے فرمایا میری بارگاہِ عظیم میں پہنچنے کا تو یہی سیدھا راستہ
ہے کہ میرے مخلص بھٹکتے نہیں اور میرے فرماں برداروں پر تجھے ذرہ برابر بھی
قدرت حاصل نہیں کہ تو ان کو گناہوں کی دلدل میں پھنسا سکے البتہ جو تیرے
پیچھے چل پڑے ان کا ٹھکانہ جہنم کی دہکتی آگ ہی ہے
ابھی حضرتِ انساں نے ازجانبِ زمیں قدم بڑھانے کا سوچا بھی نہ تھا کہ مردود
نہ صرف طبلِ جنگ بجا چکا بلکہ چہار سو گھیراؤ کو عملی جامہ بھی پہنا چکا
تھا تو مالکِ کائنات نے اپنے وعدۂ عظیم کے مطابق ابن آدم کی رہنمائی کے لیے
انبیاء کرام کی بعثت کے ساتھ آسمانی کتابوں اور صحائف کا نزول بھی بتدریج
فرمادیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انسان نے انبیاء کرام علیہم السلام کی
تعلیمات کو بھلا ڈالابلکہ ذاتی مفاد اور دنیاوی لالچ کی لعنت کے بدبودار
سمندر میں ڈوب کر صرف چند سکوں کے عوض آسمانی کتب و صحائف کو بھی بدل ڈالا
بالآخر ربِ کائنات نے رحمت اللعالمین، سردارِ انبیاء، محبوبِ خدا اور اپنے
آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو نہ صرف انسانی ہدایت کے لیے نازل فرمایا بلکہ اک
ایسی آسمانی کتاب بھی عنائت فرمائی جس کا حرف حرف سچ اور ہدایت پر مبنی
ہونے کے ساتھ ساتھ شک کی گنجائش کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ
یہی تو ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ تا قیامت اس کی حفاظت کا ذمہ دار بھی خود
خدائے برحق ہی ہے
بلاشک و شبہ وہی تو خالقِ حقیقی ہے جو ہر ذرے میں موجود اور ہر دل کو اپنے
نور سے بھر دیتا ہے شانِ ربی کے سامنے ہم سب حقیر و عاجز ہیں اور اس میں
کوئی شک بھی نہیں کہ اللہ ہی کی رحمت تلے ہمارا وجود پروان چڑھ سکتا ہے
میرا لکھا ہوا اک ایک لفظ، حرف یا جملہ احساسات سے خالی نہیں اور تدبر کی
دنیا میں غوروفکر کے بعد میرے لفظ ہی میرا تعارف ہیں چونکہ میں روحانی
مسافر ہوں جو کائنات کی بے کراں وسعتوں میں اپنے وجود کے معنی تلاش کرنے کی
غرض سے محو سفر ہوں میرا دل روحانیت، عشق الٰہی اور حقیقی روشنی کی طلب میں
دھڑک رہا ہے اور میری روح قربِ الٰہی کی تلاش میں غوطہ ذن ہے میرا یہی
ماننا ہے کہ بیشک جس دن ہم میں سے کسی ایک نے بھی اپنے وجود کے معنی تلاش
کر لیے اسی دن حقیقی کامیابی بھی ان کا مقدر بن جائے گی
جہانِ فانی میں بسر کردہ زندگی کے ہر ہر لمحے میں میں نے مالک کو محسوس
کرنے کی ہر ہر ممکن کوشش کی بیشک ہمارا رب ہماری اندرونی گہرائیوں میں
پنہاں ہے جیسا کہ سورۃ ق میں ارشادِ ربانی ہے
ہم نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس کے دل میں جو بھی خیالات اٹھتے ہیں ان
سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی بہت زیادہ اس کے
قریب ہیں
میرا ایمانِ کامل ہے کہ ہر انسان میں پوشیدہ اک چراغِ روشن ضرور موجود ہے
جو انہیں بدگمانیوں اور بے رہرویوں سے بچا کر خالقِ حقیقی سے ملاقات کے
قابل بنا دیتا ہے البتہ ضرورت اس چراغ کے شعلوں کو بھڑکائے رکھنے کی ہے
کیونکہ میرے رب نے فرمایا جو مجھ سے ہدایت طلب کرے تو یقینا میں اسے ہدایت
سے مالا مال کر دیتا ہوں
یہاں یہ نقطہ بھی موضوعِ بحث لانا چاہوں گی کہ ہر انسان کی جہانِ فانی میں
کٹنے والی زندگی کا مقصد فقط دنیاوی کامیابیاں سمیٹنا نہیں بلکہ ایک ایسا
امر ہے جس میں وہ خودی کو تلاش کر سکے، خود سے ہم کلام ہو سکے، اس کائنات
کے حسیں مناظر میں اپنے خالق کی کاریگری کے ساتھ ساتھ مقصدِ حیاتِ حقیقی کو
بھی پہچان سکے
خدا وند متعال کی لامحدود خدائی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں بزرگِ
برحق نے نہ صرف فرقان سمجھایا بلکہ ان پر انعام بھی فرمایااور ہمیں دعاؤں
میں ان کا ذکر کرنے کا سلیقہ بھی سکھلایا ”ہمیں سیدھا راستہ دکھائیں ان
لوگوں کا راستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر
غضب کیا گیا اور نہ ہی ان لوگوں کا راستہ جو راہِ حق سے بھٹک گیے“
یہی ہیں وہ عظیم ہستیاں جو نہ صرف مقصدِ تخلیقِ انسان سے واقف ہیں بلکہ
انہی کے دلوں میں حق پانے کی جستجو اور روحیں پاکیزہ ہیں بیشک یہ جانتے ہیں
کہ اللہ تعالیٰ نے کس مقصدِ عظیم کے لیے حضرتِ انسان کو خلق فرمایا یقینا
وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ دنیا تو اک عارضی ٹھکانہ اور آزمائشوں
سے بھری پڑی ہے اور اسی لیے تو وہ لوگ ہر ہر آزمائش پر شکر بجا لاتے ہیں رب
تعالیٰ کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کیے دیتے ہیں یہاں یہ کہنا بھی بے
جا نہ ہو گا کہ جن لوگوں کو مقصدِ حیاتِ انسانی کا ادراک ہوتا ہے وہ دنیا
وی چمک دمک کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ روحانی حصول اور قربِ الٰہی پانے کے
لیے کوشاں رہتے ہیں اور ان کی کامیابی پر دنیا بھی ان کو مقصدِ حیات جان
لینے پر ہمیشہ یاد رکھتی ہے بیشک یہی تو وہ افراد ہیں جو اپنی محنت، لگن،
نیک اعمال اور قربانیوں کے ذریعے معاشرے میں گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں اسی
لیے تو ان کی یادیں زندہ و جاوید رہتی ہیں
البتہ اس دارِ فانی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مقصد حیات سے مکمل
طور پر آشنا تو نہیں لیکن اپنی سادہ روی میں انجام دیے گیے اعمال اور خلوصِ
نیت کے باعث پل صراط اس طرح پار کر جاتے ہیں کہ جنت میں بلند و بالا درجات
پا لیتے ہیں جیسا کہ اک شخص گود سے گور تلک کا سفر اپنی ہی دھن میں گزار
دیتا ہے اسے نہ تو اس دنیا اور نہ ہی دنیا والوں سے کوئی سروکار حتیٰ کہ
قرآن و سنت سے بھی گراں قدر شغف نہیں رکھتا لیکن اپنی عقل و بوجھ کے مطابق
ہر ہر کام کو انتہائی ایمانداری اور کسی کی بھی دل آزاری سے بالا تر ہو کر
انجام دینے کے ساتھ ساتھ اذدواجی زندگی یا اولاد کی تربیت میں نہایت نیک
نیتی سے کام لیتا ہے اور اپنی دختران کی اس انداز میں پرورش فرماتا ہے کہ
انہیں معاشرے میں صحیح یا غلط کے مابین تمیز سکھا جاتا ہے تو ایسے شخص کے
بارے میں حضرتِ محمدِ مصطفی ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے جس نے اپنی دو لڑکیوں
کی طریق احسن سے پرورش فرمائی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں اور گناہوں کو
قریب بھی بھٹکنے نہ دیا تو یقینا وہ روزِ جزا اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ
وہ اور میں ان دو انگلیوں کی طرح قریب تر(جڑے ہوئے) ہوں گے ایسے لوگ اپنی
ہی دھن میں مگن تو رہتے ہیں یہاں تک کہ لوگ انہیں پہچان بھی نہیں پاتے لیکن
وہ گمنام ولی جہانِ فانی میں اپنی ذمہ داریاں انتہائی کامیابیوں کے ساتھ
انجام دینے کے بعد خالقِ حقیقی کے حضور لوٹ جاتے ہیں
کیا ہم بھی گمنام ولی ہیں۔ کیا ہم بھی اپنا شمار ان گمنام ہستیوں میں کر
سکتے ہیں جو دنیا کے سامنے تو ظاہر نہ ہوئے لیکن ان کی پاکیزہ روحوں کا
مقام اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عظیم میں بہت بلند ہے
زندگی کی اس مختصر مسافت میں ہمارا مقصد روحانی منازل طے کرنے اور اردگرد
بسنے والوں کے لئے روشن کرنوں سا ہونا چاہئے میرے لفظ میرے احساسات کی
عکاسی ہیں میں نے بیتی گھڑیوں سے یہی سیکھا کہ روحانیت کا مطلب روح کا سکون
ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہو سکتا ہے جب دل اور کانٹوں بھری راہ کو محبت،
شفقت اور احترام کے ساتھ صاف کر دیا جائے میری دعا ہے کہ میرے لفظ آپ کی
روح کو چھو جائیں، آپ کے قلب کو سکون پہنچائیں اور آپ کو اسی راستے پر لے
جائیں جو روشنی اور سچائی سے گزرتا ہوا خالق حقیقی کی بارگاہ ِ عظیم میں
کھلتا ہے (آمین)
|