✒از قلم: آصف جلیل احمد۔ مالیگاؤں 9225747141
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اللہ اور اللہ کے رسول ﷺسے محبّت ہے، اور ہم اللہ کے رسول ﷺ کی محبّت میں ڈوب جانا چاہتے ہیں تا کہ ہمیں کچھ اور نظر نہ آئے۔ مگر کیا اللہ تعالیٰ یا اللہ کے رسولﷺ کو ہماری اس محبّت کی ضرورت ہے جس میں ہمارے دلوں میں انسان کیا بلکہ مسلمانوں کے لئے بغض عداوت ،کدورت ، نفرت، بھری ہو۔۔؟جس دل میں دوسروں کے لئے کسی قسم کا کوئی احساس ،کوئی جذبہ، کوئی وفا ، کوئی مروّت، کوئی عقیدت، کوئی فلاح ،کوئی نیکی، حسن ظن، صلہ رحمی نہ ہو بلکہ انسان کو انسان ہی نہ سمجھیں، انسان کو انسان ہونے کا حق نہ دیں، یہاں تک کہ اگرجہاں ہمارا بس چلے اپنا مفاد حاصل کرنے کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچانا درست سمجھیں، کیا ایسے دل میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی بسی ہوئی محبّت کوئی اہمیت رکھتی ہوگی۔؟
افسوس ، ہم آقاﷺ کی محبّت میں باہر چراغاں کرکے دِل میں اندھیرا رکھتے ہیں، گفتگو میں غیبت چغلی بہتان تراشی رکھتے ہیں، ہم زبان اور دعویٰ کے اعتبار سے محبّت کی بات کرتے ہیں جبکہ ظاہر اور باطن میں ساری زندگی ہم خلافِ محبّت اعمال و احوال کے مرتکب ہوتے ہیں۔
لہٰذا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی ایک ایک مبارک سنّت کو اپنایا جائے، دوسروں کے حقوق کو جان جان کر ادا کیا جائے، ہر کسی کو معاف درگزر کا جذبہ پیدا کیا جائے، آپ کے دِین کی مدد کی جائے، آپ کے اَقوال و اَفعال کی اِتِّباع کی جائے، جن باتوں کا حکم دیا ان کو بَصَد شوق بجالایا جائے اور جن باتوں سے منع فرمایا ان سے باز رہا جائے۔تب ہی ہم حقیقی محبّت کے دعویدار کہلائینگے۔ |