جمعہ نامہ: عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

ارشادِ ربانی ہے:’’اے پیغمبرؐ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ‘‘۔ اس آیت کریمہ نبیٔ کریم ﷺ کو بالواسطہ مخاطب کرکے حکم دیا گیا ہے کہ اسلام کی دعوت بلا کم و کاست عوام الناس تک پہنچا دی جائے ۔ اس پر یہ تاکید فرمائی گئی کہ :’’ اگرآپ نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا‘‘۔نبی مکرم ﷺ نے تو اس فرض منصبی کوکما حقہُ حق ادا فرما کر حجۃ الوداع کے موقع پر اس کی تصدیق بھی کروا تے ہوئے وہاں موجود صحابہ کے جم غفیر سے پوچھا ـ' تم میرے بارے میں کیا کہو گے؟‘ تو انہوں نے جواب دیا ’ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اوراس کا حق ادا کر کے خیر خواہی فرما دی‘۔ یہ سن کر آپ ؐ نے آسمان کی طرف تین تین مرتبہ انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اللّھُمّ ھَلْ بَلّغتُ، یا اللّھُم ّفَاشْھَدُ' یعنی اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔ 'نبیٔ پاک ﷺ کے امتی کی حیثیت سے یہ کارِ رسالت اب امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اب یہ سوال امت کے ہر فر سے ہے کہ اس نے تبلیغ و رسالت کا کام کیسے کیا؟

عصرِ جدید میں دین اسلام کی تبلیغ و ترسیل کا کام بظاہر آسان لگتا ہے کیونکہ ایک طرف اظہار رائے کی آزادی کوانسانی حقوق میں شامل سمجھا جاتا ہے اور نہ صرف اپنے دین کے مطابق زندگی گزارنا بلکہ اس کی تبلیغ و اشاعت کا بنیادی حق بھی تسلیم کرلیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود آیت کے آگے والے حصہ میں جو یقین دہانی کرائی گئی ہے اس کی ضرورت آئے دن محسوس ہوتی ہے۔ارشادِ حقانی ہے: ’’ اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام بلند بانگ دعووں کے باوجود اسلام کی دعوت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ اس کے خلاف شر انگیزی ہوگی اور ان سے تحفظ کی ضرورت پیش آئے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کے لیے تو آگ کو گلزاد بنادیا اورموسیٰ ؑ کی خاطر سمندر میں سے راستے نکال دیا ۔ نبی کریم ﷺ کو آپ کے چچا ابو طالب کی کفالت ،محبت اور حفاظت سے نواز دیا ۔ دوران ہجرت اور بعد میں بھی کئی مرتبہ معجزاتی طور پر استعانت فرمائی ۔ یہودیوں کے مکر وفریب اور سازشوں سےمطلع فرما د یا۔ دورانِ جنگ بھی کفار کے انتہائی خطرناک حملوں سے آپ ﷺ کو محفوظ و مامون رکھا۔

سیرت نبویﷺ میں مذکورہ بالا واقعات کے ساتھ سفرِ طائف کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے آپ ﷺ سے سوال کرنے پر: ’’یا رسول اللہ! آپ کی زندگی میں اُحد سے بھی زیادہ سخت ترین دن کوئی گزرا ہے؟‘‘ محمد عربی ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں عائشہ! طائف کا دن سخت ترین تھا جب میں نے اپنے آپ کو وہاں کے سرداروں کے سامنے پیش کیا تھا‘‘۔ یعنی اسلام کی دعوت ان کے سامنے پیش فرمائی تھی۔ طائف کے لوگوں کے انکارِ دعوت کے بعد بدسلوکی اور بدتمیزی سے مغموم اور رنجیدہ ہوکر آپ ﷺ نے دعا کی تھی :’’بارالٰہا! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتاہوں، یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا رب ہے، تو مجھے کس کے حوالہ کررہا ہے؟ کیا کسی بے گانہ کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے؟ ‘‘

اللہ کے محبوب ﷺ کا ان شدید ترین حالات میں بھی عظیم اسوۂ حسنہ دیکھیں کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں:’’ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے، میں تیرے چہرہ کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری رضا مطلوب ہے، یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں‘‘۔ دعا کا یہ حصہ بتاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت سے سرشار داعیٔ اسلام حالات کی سنگینی سے مایوس و مغموم نہیں ہوتا ۔ دعوتِ دین کی راہ و رسمِ منزل میں ابتلا و آزمائش کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ وطن عزیز میں آئین کے حوالے سے مذہبی آزادی کی موجودگی کے باوجود مولانا کلیم صدیقی سمیت مولانا عمر گوتم وغیرہ کو عمر قید کی سزا اس حقیقت کی شاہد ہے۔ دعوت دین کو بلا وجہ لالچ یا زور زبردستی سے جوڑ کر داعیان اسلام اور ان کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو ڈرانے دھمکانے کی خاطر سخت سزائیں اور زیادہ سے زیادہ سزا دے دینا اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

سورۂ مائدہ کے اندر آگے والی آیت میں اہل ایمان کو تلقین فرمائی گئی کہ ہے : صاف کہہ دو کہ "اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توراۃ اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں" بے کم و کاست دعوتِ دین کے ردعمل سے بنرد آزما ہونے کے لیے داعیانِ اسلام کو خبردار کیا گیا :’’ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو ‘‘۔ یہ تلقین اس لیے فرمائی گئی کہ آپ ﷺ کی کیفیت یہ تھی :’شاید اے محمد! آپ تو اہل مکہ کے ایمان نہ لانے کے غم میں اپنی جان کھودیں گے ۔‘‘ تمام تر مخالفت کے باوجود داعیانِ اسلام کی یہی قلبی حالت ہونی چاہیے۔ مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی تعذیب میں یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے اسلام کو بے ضرر بنا کر پیش کیا جائے تب بھی برداشت نہیں کیا جاتا اس لیے دشمنان اسلام کے شر و فساد سے تحفظ کی خاطر دعوت دین کے ساتھ اقامتِ دین لازمی ہے ۔ دعوت دین کی راہ سے مشکلات کو دور کرنے کے لیے غلبۂ دین کی جدوجہد ناگزیرہے کیونکہ بقول اقبال؎
رِشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہَمن کا طِلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2118 Articles with 1379422 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.