میں ٹریفک سگنل پر رکا تو وہ بچہ گتے کا ڈبہ اٹھائے آیا
اور کہنے لگا ’’ربیع الاول کا چندہ دے دیں‘‘ ۔ میں نے پوچھا وہ کون سا چندہ
ہوتا ہے۔ کہا 12 ربیع الاول کا…… میں نے استفسار کیا ، 12 ربیع الاول کو
کیا ہوا تھا؟ کہنے لگا نبی ﷺ کی پیدائش ہوئی تھی۔ میں نے کہا تو چندے کا
کیا کرنا ہے ۔ کہتا ، پہاڑیاں بنانی ہیں، پوچھا وہ کیوں؟ ۔ اس نے جواب دیا
’’کیونکہ سب بناتے ہیں‘‘ ۔ میں نے کہا، کیوں بناتے ہیں بھئی ۔ پہاڑیاں
بنانے سے کیا ہوتا ہے ۔ بچے کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ پھر میں
نے پوچھا ، 12 ربیع الاول کو جس ہستی کی پیدائش کا تم ذکر کر رہے ہو، وہ
کون تھے ۔ بچہ لاجواب تھا ۔ وہ بس یہی جانتا تھا کہ اس نے دوسروں کی دیکھا
دیکھی چندہ جمع کرنا ہے اور پہاڑیاں بنانی ہیں ۔
یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ صحیح ، غلط کی تمیز کئے بغیر ہم ہر وہ کام
کرتے ہیں جو باقی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہماری اکثریت اپنے بچوں کو بھی درست
طریقے سے آشکار نہیں کر پاتی کہ تعلیماتِ نبیؐ کیا ہیں ، اسوہ حسنہ کو
اپنانے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے، سیرت سے تعلق کو کیسے مضبوط کرنا ہے ۔
سنت پر کیسے عمل پیرا ہونا ہے ۔ اخلاقی اقدار کو پامال ہونے سے کیسے بچانا
ہے ۔ ان امور میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہونی چاہئیں، ہم اپنے بچوں کو اس
ضمن میں سطحی حد سے زیادہ کچھ خاص نہیں بتا پاتے ۔ ایسے میں اگر کوئی فرد،
تنظیم یا ادارہ یہ سب بتانے کی کوشش کرے تو اس کی تحسین میں کنجوسی نہیں
کرنی چاہئے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کی خصوصی ہدایت
پر چلڈرن لائبریری کی 36 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ربیع الاول کی مناسبت
سے تین روزہ سیرت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ یوں تو چلڈرن لائبریری وقتاً
فوقتاً مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کرتی رہتی ہے ۔ لیکن پہلی مرتبہ گرینڈ
سیرت کانفرنس ترتیب دی گئی، جس میں تمام متعلقہ موضوعات کو یکجا کیا گیا ۔
اس کانفرنس میں بچوں کے درمیان مضمون نویسی، سیرت کوئز ، نعت ، اسلامی
خطاطی ، ریسرچ آرٹیکلز سمیت مختلف مقابلہ جات کا اہتمام کیا گیا ۔ ان
مقابلوں میں 100 سے زائد سکولوں کے 14 سال تک کی عمر کے طلبہ نے حصہ لیا ۔
مضمون نویسی میں 100 ، نعت میں 200 ، کوئز میں 100 اور کیلیگرافی میں 200
کے قریب بچوں نے اپنی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ۔ جبکہ ان بچوں کی حوصلہ
افزائی کیلئے انہیں خصوصی انعامات بھی دئیے گئے ۔
دوسری جانب جید سکالرز نے بھی بچوں کی فکری تربیت کرتے ہوئے انہیں سیر حاصل
لیکچرز دئیے اور حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے صحیح معنوں
میں اسلام کا سفیر بننے کیلئے تیار کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ۔ ایسی بہترین
سرگرمی کے انعقاد پر بلاشبہ چلڈرن لائبریری کمپلیکس کے مینیجنگ ڈائریکٹر
احمد خاور شہزاد اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے ۔ چلڈرن لائبریری
بچوں کی تربیت کیلئے ایک کردار ساز اداہ ہے ۔ ایسی سرگرمیوں کا انعقاد
یقینا صدقہ جاریہ کے زمرے میں بھی آتا ہے ۔
اس گرینڈ سیرت کانفرنس کے انعقاد کا مقصد طلبہ کو اسلامی شعائر سے روشناس
کرنا تھا تاکہ اوائل عمری میں ہی بچے حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ ہو
سکیں ۔ مجھے امید ہے کہ یہ سیرت کانفرنس بچوں کو اسوہ حسنہ سے وسیع پیمانے
پر آگاہی دینے کا سبب بنے گی ۔ حکومت پنجاب بچوں کی ذہنی ، فکری اور اخلاقی
تربیت کیلئے موثر حکمت عملی بنا رہی ہے۔ یقینا ان کاوشوں سے بچوں میں حیات
طیبہ پر تحقیق کی عادت بھی پیدا ہوگی ۔ ایسی سرگرمیاں بچوں میں نبی کی عظمت
کے نئے سے نئے پہلو تلاش کرنے کا تجسس بھی پیدا کریں گی ۔اس طرح کی کاوشیں
بحیثیت انفرادی ہماری تذکیر کا بھی باعث ہیں ۔
نئی نسل کو اپنے اصل سے منسلک رکھنے اور اصلاح معاشرہ کیلئے ناگزیر اقدامات
کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز اور وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے نہ
صرف اس ذمہ داری کو سمجھا اور محسوس کیا، بلکہ مینیجنگ ڈائریکٹر چلڈرن
لائبریری خاور احمد شہزاد جیسے افراد کے ذریعے اس ضمن میں عملی اقدامات بھی
اٹھائے، جس پر یقینا وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ ’’کہاں میں کہاں مدحِ ذاتِ
گرامی‘‘ شاید ایسے ہی لوگوں کیلئے کہاگیا تھا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ماہ ربیع الاول ہمیں کیا پیغام دیتا ہے ،
اور ہم اس پیغام پر کتنا عمل پیرا ہیں ۔ ہمارے مذہبی اجتماعات کا المیہ تو
یہ ہے کہ ہمیں آج بھی ایسی محافل میں اکٹھا کرنے کیلئے عمرہ کے ٹکٹ کا لالچ
دیا جاتا ہے ۔ ہمارے لوگوں کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ لالچ نہ ہو تو افراتفری
اور نفسا نفسی کے اس دور میں ایسی محافل کیلئے وقت ہی نہیں نکال پاتے ۔
شاید ایسا لالچ دینا ہماری ایمانی حرارت کو جانچنے کا پیمانہ بھی ہے ۔ ہمیں
خود بھی اپنی ’’اداؤں‘‘ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ وگرنہ بے خبری میں تو
زندگی بسر ہو ہی رہی ہے۔
|