دریائے زرد، چینی قوم کا "مدر ریور" کہلاتا ہے۔یہ چین کا
دوسرا طویل ترین دریا ہے ، جو 5464 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ دریائے زرد
چین کے 50 سے زائد شہروں میں 12 فیصد آبادی کو پانی فراہم کرتا ہے اور ملک
کی 17 فیصد قابل کاشت زمین کو سیراب کرتا ہے۔دریائے زرد کا طاس چینی تہذیب
کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں تین ہزار سال تک ملک کے سیاسی، اقتصادی اور
ثقافتی مراکز کا گہوارہ رہا ہے۔
اس دریا نے اگست 1999 سے لگاتار 25 سالوں تک مسلسل بہاؤ کو برقرار رکھا ہے
، جس کی بدولت مساوی پانی کی تقسیم پر عمل درآمد ہوتا ہے۔گزشتہ پانچ سالوں
میں دریائے زرد کے مرکزی دھارے نے 130 ارب مکعب میٹر سے زیادہ پانی فراہم
کیا ہے۔گزشتہ 25 سالوں میں، دریائے زرد کے مرکزی دھارے نے طاس اور آس پاس
کے علاقوں کو 540 ارب مکعب میٹر سے زیادہ پانی فراہم کیا ہے، جس سے خطے کی
مسلسل سماجی و اقتصادی ترقی میں مؤثر مدد مل رہی ہے۔
قدیم زمانے سے چینی عوام دریائے زرد کے سیلاب کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں
اور دریا کا تحفظ ہمیشہ ملک کے ایجنڈے میں سرفہرست رہا ہے۔اب تک، دریائے
زرد کے نشیبی حصے میں 1371 کلومیٹر پر محیط معیاری پشتے مکمل ہو چکے ہیں،
جو سیلاب پر قابو پانے کی رکاوٹ، ہنگامی ردعمل کے راستے اور ماحولیاتی منظر
نامے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان اقدامات کے باعث ڈیم ٹوٹنے اور اوور ٹاپنگ
کو مؤثر طریقے سے روکا جا سکتا ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دریائے زرد کے طاس نے مسلسل تحفظ کی کوششوں کے
بعد ماحولیات میں نمایاں بہتری دیکھی ہے۔دریائے زرد ڈیلٹا کے نیشنل نیچر
ریزرو میں پرندوں کی اقسام اور آبادی دونوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا
ہے، جو 1992 میں 187 انواع سے بڑھ کر آج 373 اقسام تک پہنچ چکی ہیں۔ اس
توسیع نے خطے کے حیاتیاتی تنوع کو بھی بھرپور انداز سے مالا مال کیا ہے۔
دریائے زرد کے ساتھ ساتھ حالیہ برسوں میں چین میں آبی وسائل کے بقاء اور
تحفظ کے سلسلے میں تاریخی کامیابیوں کے نمایاں ثمرات برآمد ہوئے ہیں۔چین نے
اس دوران، پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے، پانی کی تقسیم کے نظام کو بہتر
بنانے، سیلاب اور خشک سالی سے بچاؤ کے موئثر اقدامات اپنانے اور آبی
ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک ہمہ جہت نظام تشکیل دیا ہے۔آبی
وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے درپیش مشکلات پر قابو پاتے ہوئے ملک نے
عالمی سطح پر میٹھے پانی کے مجموعی وسائل کے صرف 6 فیصد میں سے دنیا کی
تقریباً 20 فیصد آبادی کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کیا ہے۔اس نظام کا
ایک بڑا فائدہ اس صورت میں بھی سامنے آیا ہے کہ چین نے گزشتہ دہائی میں طاس
پر مبنی روک تھام کے نظام میں مسلسل بہتری، قبل از وقت انتباہی اقدامات،
مشقوں اور پیشگی منصوبہ بندی کی مضبوطی اور پانی کے تحفظ کے بنیادی ڈھانچے
کو سائنسی اور درست طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے بڑے سیلابوں پر قابو
پایا ہے۔اس کے علاوہ ، دیہی علاقوں میں پینے کے محفوظ پانی کا دیرینہ حل
طلب مسئلہ حل ہو چکا ہے، صاف پینے کے پانی کا مسئلہ جو کروڑوں دیہی باشندوں
کو نسلوں سے درپیش تھا، تاریخی طور پر حل ہو چکا ہے۔ دریائے زرد کے طاس میں
پانی کی حفاظت کے لئے چین کی صلاحیت کو نمایاں طور پر مضبوط کیا گیا ہے اور
ماحولیاتی تحفظ اور اعلیٰ معیار کی ترقیاتی حکمت عملی کے تعارف کے بعد سے
حالیہ برسوں میں خطے کے فطری ماحول میں مسلسل بہتری کا عمل بدستور جاری ہے۔
محدود آبی وسائل کے ساتھ، پانی کا تحفظ چین کے ایجنڈے میں ہمیشہ سرفہرست
رہا ہے۔اس ضمن میں 2019 میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایکشن پلان جاری کیا گیا
اور کئی محاذوں پر کوششیں کی گئی ہیں، جن میں زراعت، صنعت، شہری علاقوں اور
دیگر اہم شعبوں میں پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سائنسی ٹیکنالوجی کی
اختراعات شامل ہیں۔ان اختراعات کی بدولت ملک میں آبی سائل کا تحفظ مسلسل
مثبت سمت میں گامزن ہے اور چینی عوام کے سماجی معاشی امور میں نمایاں
سہولیات لائی گئی ہیں۔
|