آئے دن کسی تباہ حال پاکستانی پردیسی کی وڈیو نظر سے
گزرتی ہے اور ہر ایک کی ایک ہی کہانی ۔ ابھی پھر دیکھا کہ ایک ڈاکٹر صاحب
اپنے کلینک میں ایک ایسا ہی اپنے حالات اور قسمت کا مارا ہوا پردیس پلٹ
ساتھ لیے بیٹھے ہیں ۔ انتہائی نڈھال پژمردہ غمزدہ چالیس سالہ شخص، چہرہ غم
و اندوہ میں ڈوبا ہوا بھاری جسم پر گردن بائیں جانب ڈھلکی ہوئی ۔ سترہ سال
کوریا میں محنت مزدوری کی پھر کہیں جا کے چھتیس برس کی عمر میں شادی ہوئی
مگر امتحان ختم نہیں ہوا ۔ حسب دستور حسب روایت یہ غریب بھی نئی نویلی دلہن
کو روتا تڑپتا چھوڑ کر واپس پردیس پدھار گیا وہاں تین برس بعد فالج کا اٹیک
ہوا تو وطن لوٹنا نصیب ہوا پیر میں لگی ہوئی چوٹ کے ساتھ ۔ اب چونکہ واپس
جانے اور کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہے تو منکوحہ کے ساتھ رہنا بسنا نصیب
ہوا ۔ مگر دوران گفتگو وہ پورا وقت بار بار اپنے ہونٹ بھینچ کر اپنا درد
ضبط کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر آنسو اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے اور اس کے
موجودہ حالات کی چغلی کھا رہے تھے جن سے وہ گزر رہا ہو گا ۔ سونے کا انڈا
دینے والی مرغی کُڑک ہو جائے تو کسے اچھی لگتی ہے ۔
متوسط و نیم متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اوور سیز کا یہ المیہ ہوتا
ہے کہ ان کی شادی ویسے ہی بہت دیر سے ہوتی ہے ۔ دو چار چھوٹے بہن بھائیوں
کو بھگتانے کے بعد ہی کہیں جا کر ان کی باری آتی ہے مگر پھر بھی انہیں بیوی
کے ساتھ رہنے نہیں دیا جاتا انہیں ان کی زندگی جینے نہیں دیا جاتا ۔ باقی
کے کنوارے نکموں اور بیاہتا بہن بھائیوں کی مالی کفالت بدستور ان کے اوپر
مسلط رکھی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ اپنی شادی کے چند ہی روز بعد واپس
پردیس پدھار جاتے ہیں تو کئی کئی سال تک واپس نہیں آتے ۔ نو بیاہتا جوڑے کا
پورا پرائم ٹائم ایک خود غرض بے رحم بے ضمیر جوائنٹ فیملی سسٹم کی بھینٹ
چڑھ جاتا ہے ۔
لڑکیوں کے والدین کو چاہیے کہ کم آمدنی والے مقامی لڑکوں کو قبول کریں اور
بیٹیوں کو صبر و شکر کے ساتھ گزارہ کرنے کی تعلیم دیں مگر ذمہ داریوں کے
جنجال میں جکڑے کسی پردیسی بکرے کے ساتھ ان کے نصیب نہ پھوڑیں ۔ ایک بیوہ
کو تو پھر بھی صبر آ جاتا ہے مگر ایک نام نہاد سہاگن روز جیتی ہے روز مرتی
ہے ۔ عام طور پر ایسی لڑکی کی سسرال میں حیثیت کسی مفت کی ملازمہ سے زیادہ
نہیں ہوتی ۔ شوہر موجود ہو ساتھ ہو تو اتنے مسائل کا سامنا ہوتا ہے جہاں وہ
چند ہی روز کی رفاقت کے بعد تنہا چھوڑ جائے تو زندگی آسان نہیں ہوتی بِنا
ہمسفر کے نامحرم رشتوں کے درمیان رہنا کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا ۔
اوور سیز کی جوانیوں کو خاک میں ملا دینے والے کوئی غیر نہیں ہوتے اور وہ
اس بچے کو پورے پریوار کا باپ بنا دیتے ہیں جو دیار غیر کے سفر پر روانہ
ہوتے ہوئے خود بمشکل بیس بائیس سال کا ہوتا ہے اور ان ذمہ داریوں کو پورا
کرتے ہوئے بوڑھا ہو جاتا ہے جس کے لئے نہ تو شریعت اسے پابند کرتی ہے اور
نہ ہی کوئی قانون مجبور کرتا ہے ۔ مگر جہاں خدا کا خوف اور آخرت کی پوچھ
پکڑ کی کوئی پروا نہ ہو سب سے زیادہ محنت کرنے والا قربانی کا بکرا بنا دیا
جاتا ہے ۔ خون کے رشتے اس کا خون نچوڑ لینے کے بعد کہتے ہیں تم نے آخر
ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے؟
زندگی کا سب سے قیمتی اور سنہرا دور شروع ہونے سے پہلے ہی نصیب کی کالک میں
گم ہو جائے تو وہ کسک پھر مرتے دم تک دل سے نکلتی نہیں ہے ۔ کسی لڑکی کا،
پوری تسلی و تحقیق کے بعد ایک اوور سیز شخص سے، شادی کے بعد تین مہینے میں
بلا لینے کے وعدے کی بنیاد پر رشتہ طے ہوا اور عین منگنی کی تقریب میں اس
کے گھر والوں نے فرمائش کر دی کہ نکاح کر دیا جائے تاکہ ویزے وغیرہ کی
کارروائی بلا تاخیر شروع کی جا سکے پھر لڑکی کے گھر والوں کو اس کے مستقبل
کے بارے میں سبز نیلے پیلے باغ دکھا کر انہیں فوری رخصتی پر بھی آمادہ کر
لیا ۔ اور اپنی منکوحہ کے ساتھ بمشکل چند گھنٹے گزارنے کے بعد شوہر چوتھے
روز واپس لوٹ گیا پھر بلانا تو رہا درکنار کئی سال تک وہ خود بھی واپس نہیں
آیا تھا اور روایتی مشرقی پردیسیوں کی طرح بیوی کو اپنی زندگی ہی میں بیوہ
کر کے وہ ذمہ داریاں پوری کرتا رہا جو اس کی تھیں ہی نہیں ۔ اسے دم دلاسے
دے دے کر اپنی غیر موجودگی میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے اور ان کی
خدمتیں کرنے پر مجبور کیے رکھا ۔ لڑکی نے اپنا پورا پرائم ٹائم سسرال میں
مشقتیں جدائی اور تنہائی کی اذیتیں جھیلتے ہوئے گزارا تو آج تک وہ کسک اس
کے دل سے نہیں نکلی ۔ اپنی پوری جوانی قربان کر دینے کے بعد آج اس کے پاس
ایک بڑے مغربی ملک کی شہریت کے ساتھ سب کچھ ہے گھر شوہر بچے ۔۔۔ مگر نکاح
کے تین بولوں کے عوض وہ جس ٹراما سے گزری تھی تو آج تک اس کے اثر سے باہر
نہیں نکل پائی ۔ کچھ زخم سدا بہار ہوتے ہیں ہمیشہ ہرے رہتے ہیں کبھی بھرتے
نہیں ۔
پردیس میں اکیلے رہنے والے بلی کے بکرے اچھی طرح سے جان لیں اور سمجھ لیں
کہ وہ جتنا مرضی اپنا خون پسینہ ایک کر لیں جتنی چاہے تاویلیں گھڑ لیں مگر
بیوی بچوں کو وقت نہ دینے اور انہیں اپنی رفاقت سے محروم رکھنے کا خسارہ
زیادہ بھاری ہے جس کا خمیازہ انہیں اپنے بڑھاپے میں بھگتنا پڑے گا ۔ |