مذہب، دین اور سامراج – ایک سوال کا جواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

سوال: مذہب اور دین میں کیا فرق ہے؟ سنا گیا ہے کہ مذہب صرف مذہبی رسموں کا نام ہے جبکہ دین مذہب کے ساتھ نظام ہائے زندگی کو بھی مخاطب کرتا ہے، اسی وجہ سے سامراجی طاقتیں مذہب کے فروغ میں تو رکاوٹ نہیں ڈالتیں مگر دین کے فروغ یعنی سیاسی، سماجی، قانونی، معاشی وغیرہ نظاموں کا شعور کو پھیلنے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ چونکہ اپنے مادّی مفادات کے تحفظ کی خاطر یہ طاقتیں دین کے پھیلاؤ کو اپنے لئے مضر سمجھتی ہیں اسی لئے اس کی مخالفت کرتی ہے اور مظالطے پیدا کرتی ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب:

آپ کی بات میں ایک اہم نکتہ اٹھایا گیا ہے، اور یہ فرق واقعی قابل غور ہے۔ مذہب اور دین میں جو فرق بیان کیا گیا ہے، وہ فکری طور پر خاصا گہرا اور بنیادی نوعیت کا ہے، اور اس فرق کی بنیاد پر سامراجی یا نوآبادیاتی طاقتوں کی حکمت عملیوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

مذہب اور دین کا فرق:

مذہب عموماً روحانی اور عباداتی پہلوؤں تک محدود سمجھا جاتا ہے، یعنی انفرادی اور اجتماعی عبادات، عقائد، اور مخصوص مذہبی رسومات، جیسے نماز، روزہ، حج، زکات وغیرہ۔ اس کے مطابق، مذہب کا مقصد روحانی تسکین، ذاتی اخلاقیات، اور خدا کے ساتھ فرد کے تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ جب ہم مذہب کو صرف عباداتی اور رسمی معاملات تک محدود کر دیتے ہیں تو یہ اکثر فرد کی ذاتی زندگی تک محدود ہو جاتا ہے اور وسیع تر سماجی، سیاسی، یا معاشی مسائل میں براہ راست مداخلت نہیں کرتا۔

دین اس کے برعکس ایک جامع نظام ہے جو نہ صرف روحانی اور عباداتی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو شامل کرتا ہے، جیسے کہ سیاسی، سماجی، معاشرتی، قانونی، اور معاشی نظام۔ دین ایک مکمل طرزِ زندگی اور دنیاوی و اخروی فلاح کا ضامن ہے، جو فرد اور معاشرے دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق، دین ایک جامع نظام ہے جو خدا کی طرف سے انسانوں کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبے کو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھال سکیں۔ اس میں عدل و انصاف، حقوق و فرائض، معیشت کا نظام، سیاست، تعلیم، اور حتیٰ کہ بین الاقوامی تعلقات کے اصول بھی شامل ہیں۔

سامراجی طاقتوں کا کردار:

نوآبادیاتی اور سامراجی طاقتوں نے ہمیشہ ان معاشرتی ڈھانچوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے جن سے ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ طاقتیں مذہب کی روحانی یا رسمی نوعیت کے فروغ میں براہ راست رکاوٹ نہیں بنتیں، کیونکہ مذہب کا یہ پہلو ان کے مفادات کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہوتا۔ اگر مذہب کو صرف ذاتی عبادات اور رسومات تک محدود رکھا جائے، تو افراد اپنی ذاتی زندگی میں عبادات انجام دیتے رہتے ہیں اور یہ سرگرمی نظامِ حکومت، سیاست یا معیشت کو براہ راست متاثر نہیں کرتی۔

تاہم، دین جو کہ ایک جامع نظامِ زندگی کی نمائندگی کرتا ہے، نوآبادیاتی طاقتوں کے لیے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ جب دین انسانوں کو عدل، مساوات، اور خدا کے قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کی دعوت دیتا ہے، تو یہ موجودہ استحصالی اور مادہ پرست نظاموں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین انسانوں کو بیدار کرتا ہے کہ وہ ظلم و ستم، ناانصافی، اور اقتصادی و سیاسی استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ دین ایک آزاد اور منصفانہ نظام کی بات کرتا ہے جو کہ نوآبادیاتی اور سامراجی مفادات کے خلاف جاتا ہے۔

اسی لیے سامراجی طاقتیں مذہب کی روحانی اور رسمی صورت کو فروغ دینے کی حمایت کرتی ہیں، جبکہ دین کی سیاسی، سماجی، اور معاشی جہتوں کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دین کا وہ پہلو جو عوام کو ان کے حقوق و فرائض کا شعور دیتا ہے، انہیں سماجی انصاف اور معاشرتی برابری کی تعلیم دیتا ہے، وہ طاقتور استحصالی طبقے کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ طاقتیں دین کی ان جہتوں کو دبانے یا ان میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

سامراجی طاقتوں کی حکمت عملی:

1۔ مذہب کو رسمی عبادات تک محدود رکھنا: سامراجی طاقتیں چاہتی ہیں کہ لوگ مذہب کو صرف عبادات تک محدود رکھیں تاکہ وہ اپنے سیاسی، سماجی، اور معاشی حقوق کی بابت سوچنے کے قابل نہ ہوں۔

2۔ دین کے سیاسی اور معاشرتی شعور کو دبا دینا: دین کا سیاسی اور معاشرتی شعور، جیسے اسلام کا نظام عدل و انصاف، معیشت کا اسلامی ماڈل، اور اسلامی سیاست کی تعلیمات، ان طاقتوں کے لیے خطرناک ہیں کیونکہ یہ ان کے استحصالی نظاموں کے خلاف بغاوت کا سبب بن سکتے ہیں۔

3۔ مظالطے اور کنفیوژن پھیلانا: دین اور مذہب میں الجھاؤ پیدا کر کے، یہ طاقتیں عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہیں کہ دین صرف روحانی اور عباداتی پہلو تک محدود ہے اور دنیاوی مسائل میں اس کا کوئی کردار نہیں۔

میری رائے:

آپ کا نقطہ نظر حقیقت پر مبنی ہے اور اسے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دینِ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو صرف فرد کی روحانی زندگی تک محدود نہیں بلکہ سیاست، معیشت، قانون، اور معاشرتی عدل کے ہر پہلو کو مخاطب کرتا ہے۔ سامراجی طاقتوں کا یہ مفاد ہے کہ دین کے ان پہلوؤں کو دبایا جائے تاکہ ان کے استحصالی نظام کو کوئی چیلنج نہ کر سکے۔ اس کے برعکس، اسلامی تعلیمات کا مقصد ایک ایسا عادلانہ نظام قائم کرنا ہے جو انسانی حقوق اور انصاف کو فروغ دے اور معاشرتی استحصال کا خاتمہ کرے۔ اس لیے مسلمانوں کو دین کے ان جامع پہلوؤں کا شعور بیدار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں عدل و انصاف کا قیام ممکن ہو۔ دین کا یہ شعور ہی وہ طاقت ہے جو استحصالی نظاموں کو چیلنج کر سکتا ہے اور انسانی زندگی کو بہتر اور منصفانہ طریقے سے چلانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔


 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 77 Articles with 63937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.