علامہ اقبال کی "شاہین" کی اصطلاح حقیقی مسلمانوں پر اطلاق

علامہ محمد اقبال، برصغیر کے عظیم فلسفی شاعر اور مفکر، نے اپنی شاعری میں "شاہین" کی اصطلاح کو نہایت گہرائی اور فکری بصیرت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اقبال کا شاہین، نہ صرف ایک پرندہ ہے بلکہ وہ ایک علامت اور استعارہ ہے جس کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک خاص طرزِ زندگی اور کردار کی طرف رہنمائی کی ہے۔ شاہین کی یہ علامت ان کی شاعری میں بار بار ابھرتی ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے خیالات، فلسفے اور اصلاحی پیغامات کو پیش کرتے ہیں۔

شاہین کو اقبال نے ایک مثالی کردار کے طور پر پیش کیا ہے، جو مسلمانوں کے لیے ایک مثالی اور فعال زندگی کا نمونہ ہے۔ اس میں کئی اہم خصوصیات شامل ہیں:
شاہین کی پہلی اور سب سے اہم خصوصیت اس کی بلندی پرواز ہے۔ اقبال نے اس علامت کو مسلمانوں کی فکری اور روحانی بلندی کی نمائندگی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان بلند حوصلہ اور عظیم مقاصد کو اپنائیں، اور چھوٹے، دنیاوی مفادات سے بچ کر زندگی گزاریں۔ شاہین کی طرح انہیں اونچی سوچ، اعلیٰ اقدار اور عظیم مقاصد کے حصول کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے، کرگس کا جہاں اور

اس شعر میں اقبال نے شاہین اور کرگس (گدھ) کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ حقیقی مسلمان کا مقام بلندیوں پر ہے، جہاں وہ دنیاوی مفادات کے بجائے روحانی و فکری کامیابیوں کی طرف گامزن ہوتا ہے۔

اقبال کا شاہین خوددار اور آزاد ہے، اسے کسی کا محتاج نہیں۔ اس کے پرواز کرنے کا مقصد اپنے راستے کا خود تعین کرنا ہے۔ وہ دوسروں پر انحصار نہیں کرتا بلکہ اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر آگے بڑھتا ہے۔ اقبال چاہتے تھے کہ مسلمان بھی اپنی خودی کی تعمیر کریں اور اپنی شناخت کو مضبوط کریں، تاکہ وہ کسی بھی قوم یا نظام کے زیر اثر نہ آئیں۔
وہ فرماتے ہیں: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

اقبال کی اس فکر کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنی شناخت، خود مختاری، اور خوداعتمادی کو فروغ دیں تاکہ وہ اپنی تقدیر کو خود سنوار سکیں۔

شاہین تنہائی پسند ہوتا ہے اور اونچی چٹانوں پر بسیرا کرتا ہے۔ اقبال اس سے یہ درس دیتے ہیں کہ ایک حقیقی مسلمان کو اپنی فکر اور عمل میں مضبوط ہونا چاہیے اور بسا اوقات دنیا کی بھیڑ سے الگ ہو کر خود کو تیار کرنا چاہیے۔ یہ تنہائی انسان کو روحانی اور فکری استحکام عطا کرتی ہے۔
اقبال نے کہا: یہ پُرانے بُرج ہیں، سُن، اے طیورِ آسماں!
کیا نئی بساط ہے، شہرِ خموشاں کے لئے؟

یہاں پر اقبال نے شاہین کو ان لوگوں کی نمائندگی کے طور پر پیش کیا ہے جو دنیا کی بھیڑ سے الگ ہو کر اپنی روحانی اور فکری قوتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔

شاہین ایک شکار کرنے والا پرندہ ہے، جو کبھی آسان شکار پر قناعت نہیں کرتا۔ وہ پہاڑوں اور وادیوں میں خود شکار تلاش کرتا ہے، اپنی قوت کو آزماتا ہے، اور کبھی دوسروں کی محنت پر انحصار نہیں کرتا۔ یہ اقبال کا مسلمانوں کو یہ پیغام ہے کہ وہ محنت، جدو جہد اور عمل پر یقین رکھیں، اور دوسروں کی مدد کے بغیر خود اپنی تقدیر کو سنواریں۔
اقبال فرماتے ہیں: شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو، تو نہیں خطرۂ اُفتاد

یہ اقبال کا مسلمانوں کے لیے درس ہے کہ وہ ہمیشہ جدو جہد کرتے رہیں اور تھکنے یا ہار ماننے سے بچیں، کیونکہ زندگی کا مقصد عمل اور جدو جہد میں پوشیدہ ہے۔

حقیقی مسلمانوں پر شاہین کے فلسفے کا اطلاق
اقبال کا شاہین ایک ایسی علامت ہے جو مسلمانوں کو ان کی فکری، روحانی، اور اخلاقی طاقتوں کا شعور دلانے کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ اقبال مسلمانوں کو بتانا چاہتے تھے کہ وہ اپنی خودی کو پہچانیں اور اپنی حقیقی طاقت کا ادراک کریں۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں بلندی اور عظیم مقاصد کا تعین کریں۔ چھوٹے مقاصد اور دنیاوی مفادات کے بجائے انہیں اپنی توانائیاں ان چیزوں پر مرکوز کرنی چاہیے جو روحانی اور فکری طور پر انہیں بلند کریں۔

اقبال کا پیغام واضح ہے کہ مسلمان قوم کو کسی بھی بیرونی طاقت پر انحصار کرنے کے بجائے خود کو خود مختار بنانا چاہیے۔ انہیں اپنی محنت، علم، اور عمل کے ذریعے ترقی کی منازل طے کرنی چاہیے۔

اقبال کے نزدیک مسلمان کبھی بھی سستی اور کاہلی کا شکار نہ ہوں۔ انہیں شاہین کی طرح ہمیشہ جدو جہد کرتے رہنا چاہیے اور کسی بھی چیلنج سے گھبرانا نہیں چاہیے۔

اقبال کا شاہین محض ایک پرندہ نہیں، بلکہ ایک فکری علامت ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو خودداری، بلندی پرواز، اور مسلسل جدو جہد کا درس دیتے ہیں۔ یہ علامت مسلمانوں کو یاد دلاتی ہے کہ وہ اپنی روحانی اور فکری طاقتوں کا ادراک کریں اور ان اصولوں کے تحت اپنی زندگی گزاریں جو انہیں عظمت کی بلندیوں تک پہنچا سکیں۔ اقبال کا شاہین ایک مکمل فلسفہ ہے جو آج بھی مسلمانوں کے لیے رہنمائی اور اصلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
 

Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 56 Articles with 13629 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.