دنیا ہے تماشائی تماشہ ہے آدمی

زندگی کیا ہے؟
زندگی بھر سوچنے کے بعد جواب یہی ملا کچھ بھی نہیں پھر کہا نہیں سب کچھ زندگی سے ہی تو ہے اس لئیے سب کچھ زندگی ہی ہے یا پھر جہانوں کا سفر ہے اور یہ سفر کیوں ہے ؟ اور اس سفر کا مطلب کیا ہے اور اس سفر کے بعد ہاتھ کیا آتا ہے آج تک تو یہی دیکھا گیا ہے صرف ایک کفن
گویا ساری زندگی سوچنے کے بعد کسی ایک حتمی رائے کو قائم نہ کر سکا اسکا مطلب ہے زندگی ایک ایسا معمہ ہے؟ جسکی مکمل سمجھ ہر کسی کو اتنی جلدی نہیں آ جایا کرتی
عقلمند عقلمندی کے زعم میں اس گوہر نایاب کی چمک دمک سے محظوظ ہونے کے بجاے بے وقوفوں کی نادانیوں پر کڑھ کڑھ کر اپنی خوشیوں کی جو انکا حق اور حصہ ہے اس طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنی اس ایک انمول نایاب سی توانائی اور قوت کو بالکل ایک فضول چیز پر ضائع کر رہے ہیں
بے وقوف لوگ اپنی حماقتوں سے بے خبر زندگی کی اصل خوشیاں سمیٹتے اور عقلمندوں کی جلن میں اضافہ کرتے اپنی دھن میں چلے جا رہے ہیں
جبکہ وہ اسی قوت کی بدولت اپنے من کے اندر موجود ایک اور امریکہ یا ایک اور نئی دنیا کو تلاش کر سکتا ہے جو اسکے اندر ہی موجود ہے اور بالکل موجود ہے اور دل بگلائی کے موجودہ دور کی اس عظیم ایجاد انٹر نیٹ سے کروڑہا اربا درجے زیادہ معلومات اور دلچسپی کے سامان اس جہاں میں یا اس نئی آپکی دریافت کردہ دنیا میں موجود ہیں
مرنے کے بعد ہر انسان کو جنت تو دنیا میں کئیے گئے اسکے اعمال ہی کی بدولت مل سکے گی لیکن اخرت میں ملنے والی اس اگلے جہان کی جنت سے پہلے دنیا میں بھی ایک جنت انسان کے اندر ہے اور سو فی صد ہے جسے کھوجنے یا تلاشنے کا عمل چیدہ چیدہ لوگوں نے ہی کیا
جو حدود اربعہ اپنی نعمتوں عنائیتوں راحتوں اور خصوصا سکون جیسی دولت سے بعد الموت والی جنت سے کسی طرح کم نہیں ہے جسے حاصل کرنے کی اجازت ہر شخص کو ہے پنڈت مولوی عالم مفتی تبلیغ اسلام کرنے والے اس زعم میں سرمست ہیں کہ اصل خدمت اسلام اور اللہ کے دین کو پھیلا کر اللہ پر احسان تو ہم لوگ کر رہے ہیں
جبکہ قارئین کرام یہ میرے ذاتی خیال تجربے اور کئی مرتبہ کے مشاہدے کے بعد ایک تجزیہ ہے کہ معاشرے میں عمومی طور پر میں نے عام شہریوں کی نسبت مذھبی لوگوں کو زیادہ بُرا اور تعاون نہ کرنے والا پایا ہے
اس ملک خُداداد میں مذھبی مدرسوں سے تقریبا ہر سال بیس لاکھ کے قریب بچے حفاظ قران اور درس نظامی سے فارغ ہوتے ہیں فارغ التحصیل ہونے والے یہ فرشتہ سیرت لوگ کدھر جاتے ہیں؟ کسی کو شاید علم نہیں لیکن وہ جہاں بھی جاتے ہیں وہ علیحدہ ایک موضوع ہے
سوال یہ ہے کہ قران حفط کرنے اور سالہا سال مذھبی تعلیم کے فیوض و برکات کے اثرات ملک و قوم اور اداروں میں نظر کیوں نہیں آتے ؟
پیر صاحبان۔۔ پاکستان میں کم خرچ بالا نشین کے مصادق اگر کوئی سب سے منافع بخش بلکہ منافع ہی منافع کا ، کاروبار ہے تو وہ ہے پیری مریدی کا یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھر کے ہر محلے ہر گلی اور ہر کوچے میں ان لوگوں نے اپنے ڈیرے جمائے ہوئے لینڈ مافیا ڈرگ مافیا بھتہ مافیا اور دیگر مافیاز کی طرح یہ بھی ایک بہت منظم اور طاقتور مافیا ہے اور ہر حکومت ان سے کن مارتی ہے
جی ٹی روڈ پر اللہ کی طرف بلاتے ان فراڈیوں کے جا بجا آویزاں بورڈ جاہلوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا ایک طریقہ ہیں اور یو ٹیوب نے ان کے کاروبار کو فروغ دینے میں سہولت کار کا جوکردار ادا کیا ہے اسکے لئیے ایسے سب اتائی پیر یقینا شکر گُزار ہونگے
اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو،، تاجدار گولڑہ پیر سید مہر علی شاہ ،،عارف کھڑی حضرت میاں محمد بخش پیرا شاہ غازی دمڑیاں والی سرکار ہند الولی خواجہ خواجگان معین الدین چشتی پیر سیال ،، داتا گنج بخش ،،، اور پیران پیر حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی جیسے اولیا کرام اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں انکے ساتھ محبت خوش بختی ہے یہ سب کے سب اللہ رب العزت کے محتاج اور منگتے ہیں
اور ان سب نے محض اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ امید رکھی نہ مانگا نہ چاہا اپنی اس یکسوئی اور یکتائی ہی کی بنیاد پر تو انہیں یہ مقامات حاصل ہوئے
پاکستان میں میری نظر میں تو کسی صاحب مزار کی اولاد ان اعلی روحانی مراتب پر مجھے تو فائز نظر نہیں آتی تاہم روحانیت کے یہ سب سلاسل برحق ہیں اور تا قیامت جاری رہیں گے عصر حاضر کے پیران و خواجگان صاحبان کے محلات انکی گاڑیاں کاروبار اور عیش و عشرت والی زندگی اور حُب دنیا دیکھ کر ممکن نہیں کہ ایسے ماحول میں انسان روحانیت بھی حاصل کر لے
تاہم اللہ تعالی کی ذات بڑی لجپال با وفا غیور اور اپنے دوستوں کی قربانیوں وفاوں اور فرما نبرداریوں کو کبھی فراموش نہیں کرتا اور اپنے ان دوستوں سے ذرا سا بھی تعلق ربط محبت یا رشتہ رکھنے والوں کا بھی وہ خیال فرماتا ہے
اسلئیے وہ ہزاروں سال پہلے گزر جانے والے اس بزرگ کی نسل کے ان دو یتیم بچوں کے چھپے خزانے کی حفاطت کے لئیے خواجہ خضر جیسے عظیم المرتبت ہستیوں سے اس گری ہوئی دیوار کو بنوا دیتا ہے جسکے نیچے خزانہ تھا
کیونکہ وہ دونو یتیم بچے اسکے کسی پیارے کی نسل سے تھے جسے گُزرے بھی ہزاروں برس ہو چکے تھے پاکستان کا اگر ایک عام شہری یہ کہے کہ شہباز شریف میرے ماموں ہیں اور پتہ لگنے پر شہباز شریف اس حرکت پر خوش ہو گا؟

پھر اللہ کے نام پر اللہ کی مخلوق کو اپنا تعلق اللہ سے ظاہر کر کے اللہ کی مخلوق کو دھوکہ دینا یہ سارا کچھ دیکھنے کے بعد بھی اللہ کیطرف سے کوئی رد عمل ظاہر نہ ہونا اتنا بڑا ظرف صرف اللہ کا ہی ہو سکتا ہے
ملک کا نظم و نسق چلانے کی اہلیت رکھنے والے کو اوپر آنے ہی نہیں دیا جاتا محب الوطنوں میں غداری کے سرٹفکیٹ بانٹے جاتے ہیں جبکہ حقیقی غداروں کو میں پلاٹ اور ترقیاں
ملک کی باگ ڈور کسی سٹریٹ فائٹر مکے باز یا کسی بدمعاش کسی فائٹر پائیلٹ کو دے دینا محض اس لئیے کہ یہ فائیٹر ہے یہ سوچے بغیر کہ ( وہ صرف جہاز کا جنگجو ہے ) کہاں کی دانشوری ہے؟ انصاف کرنے کے لئیے باشریعت اور صاحب کردار ہونا شرط اول ہے محض کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا باشریعت نہیں ہوتا اسکے لئیے قلب و نظر کی پاکی خوف خدا اور روز محشر اللہ کے حضور جواب طلبی کا خوف شرط اول ہے
اور اگر طاقت کے بل بوتے پر ہی نظام چلنے ہیں تو کچے کے ڈاکووں کا ایک گندا نظام ہی سہی لیکن انکا اپنا اور احسن طریقے سے چلایا تو جا رہا ہے ما شا اللہ لوگ اغوا ہو رہے ہیں موٹر سائیکلیں چھینی جا رہی ہیں بھتہ تاوان وصول کیا جا رہا ہے اُس نظام کو غلط میں اور آپ کہ رہے ہیں اگر انکی نظر میں بھی غلط ہوتا تو وہ کوئی اور کام کرتے
یہ ایک یونیورسل ٹرتھ ہے کہ زمانہ گزر جاتا ہے لوگ مر جاتے ہیں برائی اور ظلم جنم ہی مٹنے کے لئیے لیتے ہیں لیکن دنیا میں نیکی اور بھلائی رہ جاتی ہے ہمیشہ کے لئیے
دنیا میں جب سے حکومتیں قائم ہونا شروع ہوئیں وفاداریوں سے زیادہ غداریوں سے تاریخ بھری پڑی ہے
اور محب الوطنوں اور غداروں کی پہچان ہر دور میں ایک بہت بڑا مسلہ رہا ہے لیکن اس صدی میں کم از کم پاکستان میں یہ مسلہ اب کوئی مسلہ نہیں رہا کم از کم محب الوطن لوگوں کو پہچاننے کا آسان ترین حل تلاش کر لیا گیا ہے
جو کچھ یوں ہے کہ ملک پاکستان میں جس شخص کو غداری کا لیبل لگ جائے آپ اس پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کر سکتے ہیں اور وہ باقاعدہ ایک تصدیق شدہ محب الوطن ہو گا اور پاکستان میں اب بچہ بچہ اس خفیہ کوڈ کو جان چُکا ہے
عقل کا یہ عالم ہے کہ ایک شخص کو اگر دلیری بہادری یا جرات کی بنا پر شیر یا شیر کا بچہ کہا جائے تو خوشی سے اسکی باچھیں کھل جاتی ہیں لیکن اگر اسی آدمی کو آپ جانور کہیں تو وہ آپکا گریبان پکڑ لے گا حالانکہ شیر بھی تو جانور ہی ہے اور ایک جانور کی ولدییت قبول کرنا اسکے لئیے قابل فخر ہے
اگر کسی کے قول فعل کردار و عمل یا نظریات کیوجہ سے وہ آپکو پسند نہیں تو پھر یا تو چُپ رہیں برداشت کریں یا پھر بولیں اور کھل کر بولیں لیکن ایسا عمل اور ایسے نظریات جو دوسروں کی زندگی کو بری طرح متاثر کرتے ہوں وہ ظلم عظیم ہے اور ظلم کیخلاف بولنے کا تو حُکم ربانی ہے
جس عمل سے کروڑوں انسانوں کی حق تلفی ہو وہ صریحا ظلم ہے بربریت ہے نا انصافی ہے اور اس پر چُپ رہنا منافقعت ہے بلکہ کفر ہے لیکن کسی ظالم کی تذلیل کے واقعات کے رونما ہونے کا انتطار کرنا تا کہ آپ بھی اسکے خلاف کھڑے ہجوم میں شامل ہو کراپنی نفرت اور ناپسندیگی کا محض شمولیت کی حد تک موقع مل سکے تو اظہار کریں یہ اصل بزدلی ہے
غیر مسلم اقوام یورپی ممالک ہم سے کیوں نفرت کرتے ہیں ؟ ہمیں کیوں کمتر اور غُلام سمجھتے ہیں؟ کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور پھر اللہ ان مشکل حالات میں سب کچھ دیکھ کر ہماری اس مشکل میں مدد کیوں نہیں کرتا ؟ کیونکہ ہم مسلمان ہی تو نہیں ہیں ورنہ اللہ کا تو سیدھا سیدھا بیان ہے کہ یہ کافر تم پر غالب آ ہی نہیں سکتے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ ہر اینگل اور زندگی کے ہر شعبے میں ہر زاوئیے سے ہم پر غالب ہیں
پھر اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم جانیں کہ اللہ کی نظر میں ہمارا سٹیٹس کیا ہے؟
میں اس وقت تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اسلام آباد اپنے ڈونٹ کی وجہ سے معروف ہونے والی بیکری کے سامنے جمع ہو کر ہجوم جمگھٹا اور بھیڑ لگا کر ٹریفک بلاک کرنے کے علاوہ کیا بھلائی پوشید تھی ؟ خُدا نہ کرے کہ اس بچے کی شان میں اسکی عظمت میں کسی اپنے ایک جملے سے بھی گستاخی سرزنش یا اسکے اقدام پر کوئی رائے یا تبصرہ کرنے کے گناہ کا مرتکب ہوں اللہ نہ کرے اسے جو بہتر لگا اس نے کیا یہ اسکا ذاتی فعل تھا اور جزبات تھے جسکے اظہار میں اس نے کسی جھجھک احساس کمتری ڈر خوف یا نتائج کی پرواہ نہ کی جو اسکا اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے کی غمازی کرتا ہے
لیکن حیران ہوں کہ
ایک کم عمر جزباتی بچے کے کم عمر ہونے کیوجہ سے جذباتی جملے میں کیا جادو ئی اثر تھا کہ لوگ جوق در جوق آنے لگے کیا یہ فعل حُب الوطنی میں آتا ہے کیا لوگوں کا یوں بھیڑ بنانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم متحد قوم ہیں ؟ اور کیا ہم متحد ہیں؟
اور جس مسلے پر ہمیں متحد ہونا چائیے کیا ہم ہوتے ہیں ؟ یا کبھی ہوئے؟ پٹرول کی قیمتوں بجلی گیس کے بلوں نے زندگی کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے جینا ایک گالی تہمت اور سزا بن چُکا ہے پڑھے لکھے بچے ڈگریاں اٹھائے در در کے دھکے کھا رہے ہیں مہنگائی کیوجہ سے ماں باپ کے گھر میں ہی جوان بچیوں کے سر میں چاندی آگئی ہے کبھی متحد ہوئے ھو جمع ہوئے ھو اس ایک جملے کے زیر اثر لوگوں کا سارے ڈونٹ خرید لینا ثابت کیا کرتا ہے؟
قوم کی اس لا یعنی بے تکی بے مقصد بے وقت ڈرتی کپکپاتی چھپ چھپ کر انگڑائیاں لیتی بے فیض محبت اور عقیدت کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں






 

Afzal  Lali
About the Author: Afzal Lali Read More Articles by Afzal Lali: 8 Articles with 2179 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.