بھگوان سے اللہ تک

آج کل میں گزشتہ 6 ماہ سے زائد عرصہ پاکستان میں قیام پزیر ہوں اور بہت عرصے کے بعد پاکستان کے لوگوں کی سوچ اور ان کے طور طریقوں کو بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔بہت سی باتوں میں ایک بات تقریبا ہر گھر کی کہانی ہے اور وہ ہے پیر فقیر کو ماننا اور زندگی کے ہر مسئلہ کو جادو ٹونے سے جوڑنا اور پیروں فقیروں سے جاکر مسائل کو حل کروانا-

آج سے چند صدیوں پہلے یہ خطہ زیادہ تر ہندو اور بدھ مت کے پجاریوں پر مشتمل تھا پھر آہستہ آہستہ صوفیاء کرام اور ولی اللہ کی اس خطے میں آمد سے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔مگر اتنے سال گزرنے کے باوجود میں آج ایک بات کو سمجھنے سے قاصر رہا کہ ہندو مذہب کو چھوڑنے کے بعد اسلام کو اپنانے سے لوگوں کے عقیدے میں کیوں کوئی فرق نہ آ سکا؟

اتنا کمزور عقیدے والا مسلمان جتنا ہندوستان کے خطے میں ہے شاید دنیا کے خطے میں ہو توہم پرستی ہندو سے مسلمان ہونے کے باوجود تقریبا ہر گھر میں پائی جاتی ہے حالانکہ توہم پرستی اور غلط سوچ اور عقیدے کی اسلام سختی سے ممانعت فرماتا ہے-

کیا ہندو کی پوجا چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوکر صرف وضو کر کے اللہ کی عبادت کرنا ہی اسلام اور ہندو مذہب میں ایک ہی نمایاں فرق ہے؟

جادو ٹونے اور پیری فقیری کا اعتقاد ہمارے ملک میں ہر شخص کے دل و دماغ میں اتنا سرایت کر چکا ہے کہ یہ جعلی پیروں پر مشتمل ایک مکمل انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ہمارے اس کمزور ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر ہم ہر طرح کی ذہنی پریشانی کا شکار ہو چکے ہیں-

ایک طرف گائے کا موتر پینے کا رواج اور دوسری طرف پیروں اور فقیروں کے کنٹرول میں دکھائی دینے والی قوم جو ہر کام اس کے منشا کے مطابق کرنے کو تیار بیٹھی ہوتی ہے میں اس طرح کی کیفیت کو الفاظ میں مکمل طور پر دینے کے لئے قاصر ہوں مگر اس بے بسی کی صورتحال کو خوب انجوائے کرتا ہوں جو اس ملک کا ہر شخص اپنے مسئلے کو پیر فقیر میں تلاش کرتا ہے اور ہندوستان کا ہندو ہر مسئلے کا حل بے جان بھگوان اور سادو میں تلاش کرتا ہے -

کیا یہ سفر صرف بھگوان سے اللہ تک کا سفر تھا یا پھر مکمل داہراہ اسلام میں داخل ہونے کا ایک عہد تھا؟

ان مسلمانوں کی سوچ اور حالات زندگی دیکھ کر لگتا تو یہی ھے کہ چند صدیوں پہلے ہندو کی اولاد جو آج کل مسلمان کہلاتی ہے اس میں صرف بھگوان اور اللہ کا فرق ہے اور باقی تمام معاملات اور سوچ وہی ہے
اگر اس طرح ہے تو واقعی ہندو ہماری سوچ پر حاوی ہے اور ھم بے بسی کی تصویر کے سوا کچھ بھی نہیں

 

Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 56 Articles with 10573 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.