جب ان کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے تو ان کے
چہرے سیاہ اور غصے سے بھرجاتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ ان کی سوچ تو یہ ہوتی
ہے کہ بیٹی کی ذلت کے ساتھ پرورش کریں یا زندہ درگور۔ خبردار! یہ بدترین
فیصلہ کر رہے ہیں (متن سورۃ الزخرف آیت 17)
اس آیت مبارکہ کو بارہا پڑھنے کے باوجود میرے لیے کسی بھی نتیجہ پر پہنچنا
مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھاکیونکہ اس وقت کسی نہ کسی روپ میں عورت
موجود تو تھی چاہے ماں تھی، بہن یا بیوی تو بیٹی سے نفرت کیوں یہی سوال
مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھااور میں سوچ کے اندھیر ترین خوفناک
جنگلوں میں اسے کھوجنے کی غرض سے بڑھتی جا رہی تھی کہ شائد مجھے اک کرن مل
ہی جائے اور میں اسے تلاشنے میں کامیاب ہو ہی جاؤں کہ بیٹی کا قصور کیا
یابیٹی منحوس کیوں؟
کیونکہ میں نے تو سن رکھا ہے کہ بیٹیاں خدا وند متعال کی رحمت ہیں اور تو
اور دینِ اسلام میں تو بیٹیوں کی پرورش، تعلیم و تربیت، محبت و شفقت کے
ساتھ ساتھ وراثت میں بھی حصہ داری کی خصوصی تعلیمات دی گئی ہیں جیساکہ سورۃ
النساء کی آیت نمبر 11 میں رب تعالیٰ نے بیٹیوں کے لئے وراثت کا حکم فرمایا!
اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں اصولِ وراثت کا حکم صادر فرماتا ہے کہ
1 لڑکے کا حصہ 2 لڑکیوں کے حصے کے برابرجبکہ اولاد میت(میت اس لیے کیونکہ
وراثت مرنے کے بعد ہی منتقل ہو سکتی ہے) میں صرف لڑکیاں ہی ہوں 2 یا 2 سے
ذیادہ تو کل ترکے میں ان کا حصہ 2 تہائی اورصرف 1 لڑکی ہی ہو تو اس کا حصہ
نصف ہو گا
ابھی بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ مجھے فرمانِ رسول اللہ ﷺ یاد آ گیاحضرت
واثلہ بن اسقع ؓ سے روایت تاجدارِ رسالت ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے عورت کی
برکت تو یہ ہے کہ اس سے پہلی بار بیٹی پیدا ہو (ابنِ عساکر)
اب تو یقینا آپ بھی سمجھ چکے ہونگے کہ میری کھوج کیا ہے میں کس تلاش میں
ہوں۔ جی بالکل میں اسی تلاش میں گم ہوں کہ دینِ اسلام تو عورت کے مکمل حقوق
بیان فرماتا ہے تو دیگر ادیان میں مسئلہ کیوں جبکہ تمام انبیاء کرام علیہم
السلام کو تو رب تعالیٰ نے ہی ہدایتِ انسانی کے لئے مبعوث فرمایااور یقینا
سب کی تعلیمات بھی ایک سی ہی ہونگی تب یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ انبیاء
کرام کی بعثت کا سلسلہ کیوں شروع ہوا؟
چونکہ جب اللہ کے رسول علیہ السلام اپنی ذمہ داریاں انجام فرما کر مالکِ
حقیقی کی جانب روانہ ہو جاتے تو کچھ عرصہ بعد آسمانی کتب و صحایف میں ردو
بدل کے ذریعے اصولِ دین کو اپنی مرضی کے تحت ڈھال دیا جاتا رہا۔ اب جبکہ
خاتم الرسل ﷺ آخری آسمانی کتاب قرآنِ حکیم کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں
رہتی دنیا تک پہنچا چکے ہیں اور ردوبدل کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہوسکتا تو
بدبخت انساں دین میں ترمیم کرنے کے قابل تو نہ رہا لیکن اس نے دھوکا دہی کا
دامن بھی نہ چھوڑا، شائد وہ بھول گیا کہ فرمانِ رسول اللہ ﷺ ہے کہ میری امت
میں جو کوئی بھی سابقہ امتوں کے گناہوں میں مبتلہ پایا گیا یہاں تک کہ اسے
بغیر توبہ موت نے آن لیا تو یقینا وہ انہیں امتوں کے گناہگاروں میں اٹھایا
جائے گا (حدیث)
زیرِ بحث موضوع کے مطابق آج کا انسان بھی بدترین گناہ میں مبتلہ ہو چکا آج
بھی بیٹی پیدا ہونے پر ماں کو نہ صرف طعن و تشنیع کا سامنہ کرنا پڑتا ہے
بلکہ ذدوکوب کے ساتھ ساتھ بیٹی کو منحوس بھی گردانہ جاتا ہے جب اس سے دل
نہیں بھرتا تو صرف وراثت کو بیٹی تک منتقل نہ کرنے کی غرض سے کبھی اس کی
شادی قرآنِ حکیم (نعوذباللہ) تو کبھی کتے، خچر، گدھے، بندر جیسے جانوروں سے
بھی کی جاتی ہے اور تو اور ہمارے شہروں کے پڑھے لکھے صاحب علم خاندانوں میں
بھی اگر بیٹی اپنے والد کی جائیداد میں سے اپناوراثتی حصہ لے لے تو معاشرہ
اسے تنگ نظری سے دیکھتا ہے گویا اس نے اپنے بھائی کے حق پر ڈاکہ ڈال
دیایہاں تک کہ سگے رشتے قطع تعلقی تک پہنچ جاتے ہیں اور کچھ بیٹیاں حساس
طبیعت ہوتی ہیں والدِ محترم کی رحلت کے بعد ان کی کفالت کی ذمہ داری
بھائیوں کے کندھوں پر آن پڑتی ہے تعلیمی معاملات سے لے کر شادی کے اخراجات
کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہ اپنا حصہ لینا حق نہیں سمجھتیں یا بھائیوں کی
باتوں میں آ کر اپنے وراثتی حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں حالانکہ بیٹیوں کی
وراثتی حصہ داری ان کے مستقبل یا اولاد کے لئے ہوتی ہے یقینا جو بیٹیاں
اپنے حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں دراصل وہ اپنی اولاد پر ظلم کا پہلا سنگ
ثابت ہوتی ہیں اور اگر بھائی اپنی بہنوں کا حصہ ہڑپ لیتے ہیں تو یقینا وہ
اپنی اولاد کو ناحق کھلاتے ہیں
خدارا بیٹیوں کے لئے جو حکم رب تعالیٰ فرما چکے ہیں اس کی نافرمانی مت
کیجیئے کیونکہ رب تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی صریحاً کفر ہے اور روز حشر
اس کی سزا دردناک عذاب ہے
|