عقلمند اور بیوقوف

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا اداب
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں فی زمانہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے کسی بھی فیلڈ میں
اپنی محنت اور لگن سے ترقی کرتا ہے اور ترقی کرتے کرتے کسی مقام پر پہنچ جاتا ہے تو لوگ اسے ایک کامیاب انسان مانتے ہیں اور اس کی کامیابی کے اعتبار سے اسے ایک عقلمند انسان بھی سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس شخص نے اپنی عقلمندی کے سبب آج یہ مقام حاصل کیا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص انتھک محنت اور مسلسل جدو جہد کے بعد بھی اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو اسے لوگ ایک ناکام انسان مانتے ہیں اور ساتھ ہی اسے بیوقوف کا خطاب بھی مل جاتا ہے کیونکہ دنیاوی اعتبار سے عقلمند اور بیوقوف لوگوں کی پہچان اور نشانیاں یہ ہی ہیں اور ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون یہاں عقلمند اور کون بیوقوف ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن شرعی اعتبار سے اور مذہب اسلام میں عقلمند اور بیوقوف انسان کی پہچان کچھ اور ہے اس سلسلہ میں ابن ماجہ کی ایک حدیث کا ذکر یہاں کرنا چاہوں گا حضرت ابو یعلی شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عقل مند وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرے اور موت کے بعد والی زندگی پر عمل کرے ۔
اور بیوقف وہ ہے جو اپنے نفس کو خوہشات کے پیچھے لگا دے (نفس کی خواہشا ت کے مطابق زندگی گزارتا ہے ۔) اور اللہ سے (جھوٹی) امیدیں وابستہ کرے ۔ (یہ کہہ کر مطمئن ہوجائے کہ اللہ بہت بخشنے والا ہے ۔ لیکن عمل ایسے کرے جس سے اس کو اس کی رحمت کی بجا ئے اس کا غضب حا صل ہو ۔ (ابن ماجہ 4262)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اس شخص کو عقلمند قرار دیا ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے اپنا محاسبہ کرے اور دنیا کی عارضی زندگی میں رہتے ہوئے موت کے بعد ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی کی تیاری کرے اور اس پر عمل کرے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ کس طرح ممکن ہے اس کے لئے سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم اپنا محاسبہ کیسے کریں اور یہ محاسبہ کرنا کیا ہے ؟ محاسبہ کا لغوی معنی حساب لینا، حساب کرناہے اور مختلف اعمال کرنے سے پہلے یا کرنے کے بعد ان میں نیکی وبدی اور کمی بیشی کے بارے میں اپنی ذات میں غور وفکر کرنا اور پھر بہتری کے لیے تدابیر اختیار کرنا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں معروف کتاب " احیاء العلوم" کے مصنف حجتہ الاسلام حضرت محمد امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ " اعمال کی کثرت اور مقدار میں زیادتی اور نقصان کے لئے جو غور وفکر کیا جاتا ہے اسے محاسبہ کہتے ہیں یعنی پورا دن گزارنے کے بعد شام کو جب بندہ اپنے کئیے ہوئے اعمال کو سامنے رکھے اور اس میں نیک اعمال یا بد اعمال کی کمی بیشی کا موازنہ کرے تو یہ بھی محاسبہ کہلائے گا
(احیاء العلوم، ج۵، ص۳۱۹۔)
انسان جب کوئی عمل کرنے سے پہلے اپنا محاسبہ کرلے کہ جو کام میں کرنے جارہا ہوں یہ میرے لئے صحیح ہے یا نہیں تو یہ بھی محاسبہ کی ایک اعلی قسم ہے اور اگر کوئی عمل کر لینے کے بعد غور وفکر کیا کہ جو کام میں نے کیا وہ صحیح تھا یا غلط یہ بھی محاسبہ کہلائے گا جیسے حضرت سید حسن بصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مومن کے دل میں اچانک کوئی خیال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں چیز مجھے بہت پسند ہے تو وہ کہتا ہے کہ " خدا کی قسم تو مجھے بہت پسند ہے میری ضرورت بھی ہے لیکن افسوس کہ تیرے میرے بیچ میں ایک رکاوٹ ہے " یہ سوچ کر مومن اس خیال کو ترک کردیتا ہے اسے عمل سے پہلے محاسبہ کرنا کہتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت سید حسن بصری علیہ الرحمہ پھر فرماتے ہیں کہ بعض اوقات مومن سے کوئی خطا ہوجاتی ہے تو اپنے نفس سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ " تو نے ایسی خطا کیوں کی؟ تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے حضور میرا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا خدا کی قسم ! پھر وہ باری تعالی سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ میں آئندہ ایسی خطا کبھی نہیں کروں گا " یہ ہے عمل کے بعد اپنا محاسبہ کرنا ۔
۔(احیاء العلوم، ۵ / ۳۴۹۔).
حضرت سید حسن بصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مومن اور کافر میں یہ ہی فرق ہے کہ مومن اپنے نفس کو اکثر جھڑکتا رہتا ہے ملامت کرتا رہتا ہے جبکہ کافر ایسا نہیں کرتا جیسے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ
وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِؕ(۲)
ترجمعہ کنزالایمان:
" اور اس جان کی قسم جو اپنے اوپر بہت ملامت کرے "
اس آیت کے مطابق حضرت سید حسن بصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مومن ہمیشہ اپنے نفس کو ملانے کرتا ہے کہ یہ فلاں بات تو نے کیا سوچ کر کہی ؟ تونے فلاں کھانا کیوں کھایا ؟ فلاں مشروب کیوں پیا ؟ یعنی وہ اپنا محاسبہ کرتا ہے جبکہ کافر اپنی زندگی گزارتے ہوئے ایسا کچھ نہیں سوچتا یعنی وہ اپنا محاسبہ نہیں کرتا ۔
(احیاء العلوم، ۵ / ۳۵۰۔)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اپنے محاسبہ کے حوالے سےحجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں نقل فرماتے ہیں کہ " اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہر اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کے محاسبہ سے غافل نہ ہو اور نفس کی حرکات و سکنات اور خیالات پر سختی کرے کیونکہ زندگی کا ہر سانس قیمتی ہیرا ہے جس سے ہمیشہ باقی رہنے والی چیز یعنی جنت خریدی جاسکتی ہے گویا ان سانسوں کو ضائع کرنا یا ہلاکت والے کاموں میں صرف کرنا بہت بڑا نقصان ہے جو کسی بھی عقلمند اور سمجھدار انسان کا شیوہ نہیں ہوسکتا "
( احیاء العلوم، ج۵، ص۳۱۵۔)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دیکھئے جس طرح انسان کے اندر گناہ کی طرف بڑھنے کے رجحانات پائے جاتے ہیں وہاں اللہ تعالٰی نے انسان کو یہ خوبی بھی عطا فرمائی ہے کہ وہ نیکی ، تقوی اور پرہیز گاری پر قائم رہے اب دیکھیں رب العزت نے اپنی مخلوقات میں فرشتوں کو نور سے پیدا کیا لہذہ وہ نور ہی نور ہیں اور ان کی زندگی میں کسی قسم کی ظلمت یا تاریکی نہیں ہے اس لئے فرشتوں کی زندگی میں صرف نیکی ہی نیکی ہے گناہ کا تصور بھی نہیں دوسری طرف اللہ رب العزت نے شیاطین کو صرف ظلمت سے پیدا کیا لہذہ وہاں سے نیکی ہو ہی نہیں سکتی وہ صرف گناہ کے کام کرے گا بلکہ دوسروں کو بھی گناہ کرنے پر اکسائے گا جبکہ ان دونوں مخلوقات کے برعکس اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ظلمت اور نور کا مجموعہ بنایا ہے یعنی انسان کے نفس میں تاریکی اور ظلمت کا نمائندہ بنادیا جبکہ انسان کی عقل اور روح کو نیکی کا نمائندہ بنادیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت کے تحت انسان کے رشتہ داروں ، دوستوں یاروں ، ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں کا تعلق انسان کے نفس کے ساتھ جوڑ دیا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ انسان ایسے لوگوں اور شیطان کے بہکاوے میں آکر ظلمت اور تاریکی میں ڈوب کر گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور روح کا تعلق فرشتوں سے جوڑ دیا تاکہ انسان نیکی کی طرف مائل رہے یعنی انسان وہ مخلوق ہے جو نیکی کی طرف بھی مائل رہتا ہے اور اس کا گناہ کی طرف جھکائو بھی رہتا ہے مطلب یہ کہ یہی وجہ ہے کہ نفس اپنی اصل خصلتوں کے اعتبار سے شیاطین کے ساتھ ملتا جلتا ہے اور روح اپنی اصل خلقت اور صلاحیت کے اعتبار سے فرشتوں کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔ اِس لیے انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا عنصر بھی پایا جاتا ہے جبکہ نفس کے ہاتھوں شیطان کے بہکاوے میں آکر گناہ پر مائل ہونے کا عنصر بھی موجود ہے یعنی یہ نیکیوں کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور گناہوں کی طرف بھی مائل ہوتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دراصل انسان اللہ تعالیٰ کی وہ خوش نصیب مخلوق ہے جسے اس نے بیشمار نعمتوں سے نوازا ہوا ہے اگر ان نعمتوں کے عوض وہ اپنے رب تعالیٰ کا شکر ہی ادا کرتا رہے تو اس سے بڑا محاسبہ ہو ہی نہیں سکتا اگر وہ یہ سمجھنا شروع کردے کہ جو اسے ملا ہے وہ اس رب تعالی کی مرضی سے ملا ہے اور جو نہیں ملا وہ رب تعالی کے نزدیک ہمارے لئے بہتر نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ملا بس وہ انسان رب العزت کی طرف سے عطا ہونے والی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے او قرآن میں موجود آیت مبارکہ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کا ذکر کرتا رہے یعنی ہر ہر نعمت کا ہر لمحہ اور ہر وقت شکر ادا کرتا رہے اور اس بات کو مزید سمجھنے کے لئے میں یہاں ایک مختصر سی حکایت لکھنے کی سعادت حاصل کرنا چاہوں گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیارے اور معتبر نبی حضرت یونس علیہ السلام نے ایک دفعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا جس کا اردو ترجمعہ یہ ہے کہ " مجھے کسی ایسے شخص سے ملنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت سب سے زیادہ کرتا ہو یعنی مجھے ایسا شخص دکھائیں جو اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ عبادت گزار ہو تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سے کہا کہ آپ علیہ السلام فلاں جگہ پر چلے جائیں وہاں ایک شخص آپ علیہ السلام کو ملے گا اس وقت روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ اور کوئی نہیں حضرت یونس علیہ السلام جب وہاں پہنچے تو دیکھا ایک شخص جس کو ایک ایسا مرض لاحق تھا جس کی وجہ سے اس کے دونوں بازو دونوں ٹانگیں کٹ چکی تھیں جبکہ آنکھوں کی روشنی بھی ضائع ہوچکی تھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب حضرت یونس علیہ السلام نے اسے دیکھا تو وہ کہ رہا تھا کہ
" إلهي متعتني ما شئت أنت و سَلَبْتَني ما شئتَ أنت وأبقيت لي فيك الأمل".
یعنی" اے میرے مولیٰ! جو تونے چاہا تونے مجھے دیا۔ جو تونے مجھ سے لے لینا اچھا سمجھا، مجھ سے لے لیا۔ مگر میرے مولیٰ تیرا کتنا کرم ہے کہ ساری باتوں کے باوجود جو تجھ سے میری امید اور آرزو تھی، اُس کو نہیں توڑا۔ وہ آج بھی اُسی طرح قائم ہے، جس طرح روز اوّل سے قائم تھی۔ تیری طرف میری جو لگن، یقین اور توکل تھا اور جس کی وجہ سے میرا من تیرے ساتھ جڑا ہوا تھا، آج بھی وہی حال قائم ہے۔ میرے مولیٰ تیر ا کرم کہ تونے میرے اُس حال کو اپنی ذات کے تعلق میں قائم رکھا ".
(احیاء علوم الدین، 4: 348)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے اسے صبروشکر کی جو کیفیات عطا کی تھی وہ کسی نعمت سے کم نہیں ایسے شخص کو اپنے محاسبہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا عمل صرف اور صرف نیک عمل ہے جبکہ نفس اس پر قابو پانے میں ناکام رہا اور انسان کے لئے اپنے نفس کا محاسبہ انتہائی ضروری ہے جیسے حضور غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ " وأما من حاسب نفسه في الدنيا"
یعنی جس شخص نے اپنے نفس کا دنیا میں محاسبہ کر لیا تو قیامت کے دن جو حساب وکتاب کا دن ہے، اس دن اُس کا حساب آسان ہو جائے گا.
(غنیتہ الطالبین 1: 249)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کی اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص دنیا میں ہی یعنی اپنی زندگی میں چلتی سانس کے ساتھ اپنا آڈٹ کرتا ہے محاسبہ کرتا ہے تو پھر بروز محشر اس کا حساب انتہائی آسان ہوجاتا ہے اپنے معمولات زندگی میں نیک اعمال اور اس کے کرنے کا ایک نظام متعین کرلیتا ہے تو پھر رب تعالی بھی اس کی مدد کرتا ہے اور قیامت کے دن اس کے حساب کے وقت وہ مطمعن ہوگا کہ اس نے اپنا اور اپنے نفس کا دنیا میں ہی محاسبہ کیا اور اس کے نتیجہ میں اپنے آپ کو صحیح راستے پر گامزن کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ ہے کہ عقلمند انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زندگی میں صرف وہی کام کرتا ہے جس کا اسے شرعی طور پر حکم ہوتا ہے اور دنیا کی عارضی زندگی کو اس طرح سے گزارتا ہے جس کا اسے ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی یعنی آخرت کی تیاری میں گزارنا ہو ایسے ہی لوگ اس حدیث میں موجود حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے فرمان کے مطابق عقلمند کہلائے جائیں گے زندگی میں جو کام بھی سرانجام دیں اس کا محاسبہ کریں اور اس میں برے کاموں سے بچنے اور نیک کاموں کے کرنے میں مشغول و مصروف رہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث کے دوسرے حصہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے بیوقوف کے بارے میں جو فرمایا اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ وہ انسان بیوقوف ہے جو اپنے آپ کو نفس کی خواہش کے پیچھے دوڑانا شروع کردے یعنی نفس کا غلام بن کر اس کی خواہشات کے پیچھے زندگی گزارتا ہو اور اللہ تعالی سے یہ جھوٹی امید رکھتا ہو کہ اللہ بہتر بخشنے والا ہے یعنی اس کا عمل ایسا ہو کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بجائے رب تعالی کا غضب نازل ہو تو دیکھنا یہ ہوگا کہ ایسے لوگ ہمارے درمیان میں کہاں بستے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے صحیح مسلم کی یہ حدیث پڑھ لیجئے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
" جنت کو گراں امور میں گھیر لیا گیا ہے اور دوزخ خواہشات نفسانی میں گھری ہوئی ہے "
یعنی جو شخص خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑ گیا گویا اس نے دوزخ کا حجاب اٹھا دیا اور وہ دوزخ میں داخل ہوگیااور اصل میں وہی بیوقوف انسان ہے جبکہ جو مشکلات کا سامنا کرتا رہا مصائب پر صبر کرتا رہا اس نے جنت کا حجاب اٹھادیا اور وہ جنت میں داخل ہوگیا یعنی بیوقوف انسان کی سب سے بڑی نشانی شرعی طور پر یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کا غلام ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ انسان کے جسم میں نفس کو شیطان کے ساتھ اور روح کو فرشتوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور ہر انسان نیک اعمال کے ساتھ ساتھ نفس کے کہنے یعنی شیطان کے حکم پر اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کا مرتکب بھی پایا جاتا ہے لہذہ شرعی اعتبار سے نفس کی غلامی کرنے والا اور اس کی ناجائز خواہشوں پر عمل کرنے والا ہی اصل بیوقوف ہے خلیفہ اول اور حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے قریبی دوست اور ساتھی ام المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " جو شخص لالچ ، غصہ اور نفسانی خواہشات سے بچا وہ کامیاب ہوگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نفسانی خواہشات ہی انسان کی اصل دشمن ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے نہ صرف روکتی ہیں بلکہ اسے گناہ کرنے پر مائل بھی کرتی ہیں اسی لئے حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ " بھیڑ اور بکریاں انسانوں سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں کہ چرواہے کی ایک آواز پر چرنا چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں جبکہ انسان اپنی ان نفسانی خواہشات کی خاطر احکام الٰہی کی بھی پرواہ نہیں کرتا " اسی لئے نفسانی خواہشات سے بچنے کی قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بارہا تلقین کی گئی ہے اور اس نفس کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف مائل رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اسی لئے شریعت کی رو سے اگر کوئی شخص اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اللہ تعالی کے احکامات کی حکم عدولی کرتا ہے تو گویا وہ بیوقوف انسان ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر شرعیت کی روشنی میں ہم دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں موجود لوگوں میں چند ہی لوگ ایسے ہوں گے جو شرعی عقلمند کہلانے کے مستحق ہوں گے جبکہ شرعی بیوقوف کی تعداد ان گنت نظر آتی ہے کیونکہ ہمارے آج کے اس معاشرے میں وہی عقلمند کہلایا جاتا ہے جو شرعی اعتبار سے بیوقوف ہوتا ہے اب دیکھیں ایک شخص سوٹ پہن کر ٹائی لگاکر مسجد میں نماز پڑھنے کی غرض سے داخل ہوتا ہے جسے دیکھ کر لوگ کوئی پڑھا لکھا انسان سمجھتے ہیں لیکن اسے یہ علم نہیں کہ قیام میں کس طرح کھڑا ہونا ہے اور کیا پڑھنا ہے تو شرعی اعتبار سے اس سے بڑا جاہل اور بیوقوف کوئی اور نہ ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ یہ دنیا عارضی جگہ ہے اور اللہ تعالی نے ہمیں یہاں اپنا نائب بناکر بھیجا ہے یعنی ہم اس کے احکامات کی پیروی کریں اور اس کے بتائے ہوئے رستے پر چلیں کیونکہ یہ دنیا امتحان کا ایک کمرہ ہے ہم یہاں جو عمل کریں گے ہمارے ساتھ ساتھ رہنے والے فرشتے وہ عمل لکھتے رہتے ہیں اگر ہمارا عمل اچھا ہوگا تو ان کا کا شمار نیک اعمال میں ہوگا اور اگر ہم نے کوئی گناہ کا کام کیا تو اس کا شمار بدی میں ہوگا پھر بروز محشر وہ سب کچھ ہمارے سامنے کھولا جائے گا اور اللہ تعالی فرمائے گا کہ پڑھو تم نے دنیا میں کیا کیا اعمال سرانجام دئے گویا اللہ تعالیٰ ہماری جانچ کرنے کے لئے اس دنیا میں ہمیں بھیجتا ہے جیسے سورہ الملک کی آیت 2 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
" الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا"
ترجمعہ کنزالایمان:
وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے اور وہی عزت والا بخشش والا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہی محاسبہ ہے کہ اگر پورا دن گزرجانے کے بعد ہم یہ حساب لگالیں کہ کہیں اس دن ہم سے کوئی غلطی یا خطا تو سرزد نہیں ہوئی اگر ہوئی ہو تو ہم توبہ کرلیں اور آئیندہ نہ کرنے کا عہد کرلیں کیونکہ یہ محاسبہ ہمیں نہ صرف بدی سے روکتا ہے بلکہ ہماری توجہ اور ہمارا پورا دھیان نیکی کی طرف مائل کردیتا ہے لہذہ اب ہمیں سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس عارضی دنیا میں ہمیں دنیاوی طور پر مانے جانے والے عقلمند انسان بننا ہے یا شرعی اعتبار سے ماننے والے عقلمند انسان کی طرح زندگی گزارنی ہے فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے بقول حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ کے کہ
" عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے عیب خود دیکھتا ہے جبکہ بیوقوف کے عیب دنیا دیکھتی ہے "
کون ہے بیوقوف اور عقلمند کی ہے پہچان کیا
محشر میں ہوگا فیصلہ اب ہر کسی انسان کا
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 170 Articles with 137713 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.