چینی جدیدکاری کا روشن راستہ
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
حالیہ عرصے میں چینی جدید کاری ایک اہم
موضوع بحث بن کر ابھرا جسے ملکی اور بین الاقوامی حلقوں میں نمایاں پزیرائی
ملی ہے۔اسی تناظر میں عالمی مبصرین ، پالیسی ساز اور معاشی ماہرین چین کی
جانب سے کیے جانے والے فیصلوں اور اعلانات پر گہری نظر رکھتے ہیں تاکہ جدید
کاری کے چینی راستے کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ ان کے خیال میں چین کا
تجربہ دنیا بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اہم حوالہ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ چینی طرز کی جدیدکاری ایک بہت بڑی آبادی کی جدیدکاری ہے۔
یہ جدیدکاری سب کے لئے مشترکہ خوشحالی، مادی اور ثقافتی و اخلاقی ترقی،
انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی اور پرامن ترقی کی جدیدکاری ہے.اگرچہ
جدیدکاری ایک عالمی عمل اور ایک عالمگیر خواہش ہے، لیکن یہ بالکل مختلف
شکلیں اختیار کر سکتی ہے۔چینی جدیدکاری بنیادی طور پر کچھ نئے عوامل کی
نمائندگی کرتی ہے۔ اسے ایک ایسی جدیدکاری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو
اصل میں جامع ، منصفانہ اور پائیدار ہے۔پھر چین نے دنیا کے ساتھ اپنے جدید
کاری کے مواقع کا اشتراک بھی کیا ہے ، جو اسے دیگر کئی بڑی طاقتوں سے ممتاز
کرتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ چین، چینی طرز کی جدیدکاری کا بے مثال راستہ تلاش کرنے
میں کامیاب رہا ہے۔تاہم ،یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ چین، چینی طرز کی
جدیدکاری کو کیسے آگے بڑھائے گا؟ اس سے دنیا کو کون سے نئے مواقع ملیں
گے؟۔اس سوال کا جواب ، چین کے صدر شی جن پھنگ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام
کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک استقبالیہ تقریب سے خطاب میں دیا۔انہوں نے
واضح کر دیا کہ "ہمیں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی قیادت پر قائم رہنا
چاہئے"، "ہمیں چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے راستے پر قائم رہنا چاہئے"،
"ہمیں عوام پر مرکوز رہنا چاہئے" اور "ہمیں پرامن ترقی کا راستہ جاری رکھنا
چاہئے" - یہ چار " چاہئے" نہ صرف ماضی کے تجربے کا نچوڑ ہیں بلکہ مستقبل کی
ترقی کے لئے بھی رہنمائی کرتے ہیں اور چینی طرز کی جدیدکاری کو فروغ دینے
کی سمت کی نشاندہی کرتے ہیں.
مواقع، سب سے پہلے "امن" کے تصور سے آتے ہیں. اس وقت چین دنیا کا واحد بڑا
ملک ہے جس نے اپنے آئین میں پرامن ترقی کو شامل کیا ہے اور یہ پانچ جوہری
ہتھیار رکھنے والی ریاستوں میں شامل وہ واحد ملک بھی ہے جس نے جوہری
ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ یوکرین بحران میں
ثالثی سے لے کر ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت قائم کرنے تک، پھر
فلسطین کے تمام دھڑوں کے درمیان مصالحت کو فروغ دینے تک، چین عالمی امن کے
لئے مصروف عمل رہا ہے۔"مواقع" چینی طرز کی جدیدکاری سے پیدا ہونے والی تمام
ممالک کی مشترکہ ترقی میں مضمر ہیں۔
صدر شی جن پھنگ نے اپنی تقریر میں اس بات کا اعادہ کیا کہ "ہم ہمہ جہت
طریقے سے اصلاحات کو مزید گہرا کریں گے، کھلے پن کو وسعت دیں گے اور اعلیٰ
معیار کی ترقی کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے"۔ اس سے دنیا کو تعاون کے لئے
وسیع تر امکامات فراہم کئے گئے ہیں۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے نزدیک چینی جدیدکاری بذات خود مواقع پیدا کرنے
اور اشتراک کرنے کا ایک عمل ہے۔ چین پرامن ترقی، باہمی فائدہ مند تعاون اور
مشترکہ خوشحالی کی حامل عالمی جدت کے حصول کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر
کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہاں اس حقیقت کو بھی سمجھنا لازم ہے کہ چین کا
راستہ اس کی "منفرد تہذیب" سے جڑا ہوا ہے جس میں جدیدکاری کے چینی راستے کا
مقصد سب کے لئے مشترکہ خوشحالی حاصل کرنا ہے۔اسی باعث جدید کاری کا چینی
راستہ ترقی پذیر ممالک کے لئے کافی "پرکشش" ہو گیا ہے۔ ایک اہم وجہ یہ بھی
ہے کہ چین کی جدیدکاری کی راہ امن و استحکام، دوسرے ممالک کے تئیں نیک نیتی
اور انسانیت کی اجتماعی بھلائی پر زور دینے سے ہموار ہوئی ہے، جس سے یہ
واضح ہوتا ہے کہ چین اپنی ترقی سے حاصل ہونے والے ثمرات کو باقی دنیا کے
ساتھ کیوں شیئر کر رہا ہے۔اس تناظر میں ،امن اور مشترکہ ترقی چین کی
جدیدکاری کی کہانی کی اہم خوبیاں ہیں جنہیں عالمی بھلائی میں نمایاں تصور
کیا جاتا ہے۔
|
|