میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا اداب
بحیرہ خضر کے دامن میں واقع ایک خانقاہ پر ایک بہت ہی ضعیف اور لاغر خاتون
اپنے ہاتھ میں ایک سرپوش بچہ گود میں لئے زاروقطار رو رہی تھی اس کی ہچکیاں
بندھی ہوئی تھیں اور آنسو اس کی پلکوں کو بھگوتے ہوئے نکلے جارہے تھے ایک
خوبرو مدنی بچہ بڑی حیرت سے دیکھتے ہوئے اس کے قریب آیا اور بڑی متانت کے
ساتھ اس عورت سے رونے کی وجہ دریافت کرنے لگا اس عورت کے آنسو جب کربناک
الفاظوں میں تبدیل ہوئے تو کہنے لگی کہ بیٹا میں ایک بیوہ عورت ہوں میرے
مرحوم شوہر کی آخری نشانی اور میری کل کائنات یہ بچہ ہی ہےمیرا شوہر اپنے
لخت جگر کے دیدار کی حسرت لئے دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ یہ بچہ اس وقت پیٹ
میں تھا اور اب یہی اپنے باپ کی نشانی اور میری زندگانی کا سرمایہ تھا، یہ
بیمار ہو گیا، میں اسے اس خانقاہ میں دم کروانے لا رہی تھی کہ راستے میں اس
نے دم توڑ دیا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس عورت نے کہا کہ میں پھر بھی جیسے تیسے
یہاں پہنچی ہوں میں نے یہاں خانقاہ والے بزرگ کے ولایت کے بارے میں بہت کچھ
سنا ہے اگر وہ نظر کرم کر دیں تو بھلا ہو جائے گا مگر وہ تو مجھے صبر کی
تلقین کرکے اپنے حجرے میں تشریف لے گئے جتنی دیر وہ عورت بات کررہی تھی وہ
مدنی بچہ صرف اس بچے کی طرف دیکھ رہا تھا پھر جب وہ عورت خاموش ہوئی تو
کہنے لگا کہ اے اماں تم خواہ مخواہ پریشان ہورہی ہوتمہارا بچہ مرا نہیں
بلکہ زندہ ہے دیکھو وہ حرکت کررہا ہے پھر جیسے ہی اس عورت نے گود میں موجود
بچے کے سر سے کپڑا ہٹایا تو وہ ہاتھ پائوں ماررہا تھا یہ دیکھ کر وہاں
موجود لوگ حیرت میں آگئے اتنے میں خانقاہ والے بزرگ نے شور سنا اور وہ باہر
آگئے جب ان کی نظر اس مدنی بچہ پر پڑی تو وہ سمجھ گئے اور پھر وہ ہاتھ میں
لاٹھی لئے آئے انہیں آتا دیکھ کر وہ مدنی بچہ بھاگا اور وہ بزرگ اس کے
پیچھے بھاگتے ہوئے کہ جارہے تھے کہ تونے ابھی سے تقدیر خداوندی عزوجل کے
سربستہ راز کھولنے شروع کر دئیے ہیں!
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ مدنی بچہ بزرگ کو پیچھے آتا دیکھ کر
دوڑنے لگا اور گلیوں سے ہوتا ہوا ایک قبرستان میں داخل ہوگیا اور زور زور
سے کہنے لگا کہ اے قبرستان میں موجود مردوں میری مدد کرو اور جب وہ بزرگ
وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر ٹھٹک کر رہ گئے کہ قبرستان میں موجود کم و بیش
تین سو مردے کھڑے ہوکر اس مدنی بچہ کی ڈھال بن کر کھڑے تھے اور وہ مدنی بچہ
چہرے پر بڑی وجاہت لئے دور کھڑا مسکرا رہا تھا اس بزرگ نے بڑی حسرت کے ساتھ
“مدنی بچہ“ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، بیٹا ! ہم تیرے مرتبے کو نہیں پہنچ
سکتے۔ اس لئے تیری مرضی کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ مدنی بچہ کون تھا تو وہ مدنی بچہ کوئی اور نہیں
بلکہ میرے اور آپ کے پیران پیر دستگیر الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ
تعالی علیہ کی ذات اقدس تھی اور وہ خانقاہ والے بزرگ آپ علیہ الرحمہ کے
نانا جان حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے
( الحقائق فی الحدائق ص 108)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور شیخ عبد القادر جیلانی کی پیدائش اول
شب رمضان 470ھ بمطابق 17 مارچ 1078 عیسوی میں ایران کے صوبہ کرمانشہ کے
شہرمغربی گیلان میں ہوئی جس کو گیلان بھی کہا جاتا ہے اسی لئے آپ رحمت اللہ
تعالی کا ایک نام عبدالقادر گیلانی بھی ماخوذ ہے علمأ کرام نے لکہا ہے کہ
آپ رحمت اللہ تعالی علیہ جیلان بغداد کے جنوب میں 40 کلومیٹر کے فاصلے پر
واقع عراقی و تاریخی شہر مدائن کے قریبی شہر مغربی گیلان یا اس کے قریبی
عراقی گاؤں ( بشتیر) میں پیدا ہوئے تاریخ کی کتابوں میں نیزبغداد میں موجود
گیلانی خاندان بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں شیخ عبدالقادر جیلانی کا تعلق
جنید بغدادی کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمات
وافکار کی وجہ سے شیخ عبدالقادر جیلانی کو مسلم دنیا میں غوث الاعظم دستگیر
کا خطاب دیا گیا .
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ
یونس کی آیت 62 میں ارشاد فرمایا کہ
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون
ترجمعہ کنزالایمان:
سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی ایک اور سورہ سورہ الزخرف کی آیت 72
میں ارشاد فرمایا کہ
وَ تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْۤ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ
تَعْمَلُوْنَ(72)
ترجمعہ کنزالعرفان:
اور یہی وہ جنت ہے جس کا تمہارے اعمال کے صدقے تمہیں وارث بنایا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی ان دونوں آیتوں میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا
ہے وہ اس رب العزت کے انتہائی مقرب اور محبوب بندوں کی طرف ہے جنہوں نے
دنیاوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے اس کے حبیب
کریمﷺ کی بتائے ہوئے راستوں پر چل کر وہ مقام حاصل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے
انہیں اپنا خاص بندہ مقرر کردیا اور ان پر آیتوں کا نزول فرمایا جو ان کے
لئے کسی نعمت اور انعام و کرام سے کم نہیں تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان
ہی مقرب بندوں میں شامل ہیں قطب الاقطاب فرد الاحباب استاذ شیوخ ، عالمِ
اسلام و المسلمین حضرت محی الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی رضی
اللہ عنہ، نجیب الطرفین ہیں۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی اور والد ماجد کی
جانب سے حسنی تھے۔ یہ شرافت و بزرگی بہت ہی کم بانصیب لوگوں کو حاصل ہوتی
ہے۔ والد ماجد کا نام سید ابو صالح اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی ام الخیر
فاطمہ بنت ابو عبداللہ صومعی الحسینی تھا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھا حضور
غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان و عظمت کو بیان کرنا بالکل ایسا ہی
ہے جیسے سورج کو چراغ دیکھانا اور آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بولنا ،
بیان کرنا اور کچھ لکھنا کسی سعادت سے کم نہیں بس اسی سعادت کو مدنظر رکھتے
ہوئے کچھ باتیں آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کروں گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت
باسعادت رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہوئی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا ام الخیر فاطمہ بنت عبداللہ صومعی
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرمایا کرتی تھیں:” جب میں نے اپنے صاحبزادے
عبدالقادر کو جنا تو وہ رمضان المبارک میں دن کے وقت میرا دودھ نہیں پیتا
تھااگلے سال رمضان کا چاند غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا تو لوگ میرے پاس
دریافت کرنے کے لئے آئے تو میں نے کہا کہ” میرے بچے نے دودھ نہیں پیا۔”پھر
معلوم ہوا کہ آج رمضان کا دن ہے اور ہمارے شہر میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ
سیّدوں میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہیں
پیتا بس یہیں سے آپ رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کا چرچہ شروع ہوگیا اور لوگ
کہنے لگے کہ یہ کوئی عام بچہ نہیں بلکہ مادر زاد ولی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولی اللہ ہیں؟
فرمایا میں دس برس کا تھا کہ گھر سے مدرسے جاتے وقت دیکھا کہ فرشتے میرے
ساتھ چل رہے ہیں۔ پھر مدرسہ میں پہنچنے کے بعد وہ فرشتے دوسرے بچوں سے کہتے
کہ ”ولی اللہ ” کیلئے جگہ دو ، فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے ایک ایسا شخص نظر
آیا جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے ایک فرشتہ سے پوچھا کہ یہ
کون لڑکا ہے ؟ جس کی اتنی عزت کرتے ہو؟ اس فرشتہ نے جواب دیا کہ یہ ولی
اللہ ہے جو بڑے مرتبے کا مالک ہوگا۔ راہِ طریقت میں یہ وہ شخصیت ہے جسے
بغیر روک ٹوک کے نعمتیں دی جارہی ہیں اور بغیر کسی حجاب کے تمکین و قرار
عنایت ہو رہا ہے ۔ اور بغیر کسی حجت کے تقربِ الٰہی مل رہا ہے۔ الغرض چالیس
سال کی عمر میں میں نے پہچان لیا کہ وہ پوچھنے والا اپنے وقت کا ابدال تھا
۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نحیف البدن ، میانہ
قد، کشادہ سینہ لمبی چوڑی داڑھی، گندمی رنگ، ابرو پیوستہ اور بلند آواز کے
مالک تھے اور اس کے علاوہ علم کامل اور اثر کامل کے بھی حامل تھے آپ رضی
اللہ عنہ کی شان و عظمت اور مقام ولایت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پیدائش
سے قبل ہی آپ رضی اللہ عنہ کے پیدائش کی بشارتیں آپ رضی اللہ عنہ کے والد
گرامی حضرت ابو صالح سید موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دے دی
گئی تھی محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی شب پیدائش
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد نے مشاہدہ فرمایا کہ سرور کائنات، فخر
موجودات، منبع کمالات ،باعث تخلیق کائنات، احمد مجتبےٰ، محمد مصطفےٰصلی للہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بمع صحابہ کرام آئمۃالہدیٰ اور اولیاء عظام رضی اللہ
تعالیٰ عنہم اجمعین اِن کے گھر جلوہ افروز ہیں اوران الفاظ مبارکہ سے ان کو
خطاب فرماکر بشارت سے نوازا:
”یَااَبَاصَالِح اَعْطَاکَ اللہُ اِبْنًاوَھُوَوَلِیٌّ وَمَحْبُوْبِیْ
وَمَحْبُوْبُ اللہِ تَعَالٰی وَسَیَکُوْنُ لَہٗ شَانٌ فِی الْاَوْلِیَآءِ
وَالْاَقْطَابِ کَشَانِیْ بَیْنَ الْاَنْبِیَاءِ وَالرُّسُلِ "
یعنی اے ابو صالح !اللہ عزوجل نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے
اوروہ میرا اور اللہ عزوجل کا محبوب ہے اور اس کی اولیاء اور اَقطاب میں
ویسی شان ہوگی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے۔
( سیرت غوث الثقلین،ص۵۵بحوالہ تفریح الخاطر)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ کو خواب میں شہنشاہ عرب و عجم ،سرکار دو عالم، محمد مصطفےٰصلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ
والسلام نے یہ بشارت دی کہ” تمام اولیاء اللہ تمہارے فرزند ارجمند کے مطیع
ہوں گے اور ان کی گردنوں پر ان کا قدم مبارک ہوگا۔” اس کے علاوہ اولیاء
کرام اور اس وقت کے مشائخ نے بھی حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے پیدائش کی
بشارتیں عطا فرمائی جیسے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ مبارک
سے لے کر حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
کے زمانہ مبارک تک تفصیل سے خبردی کہ جتنے بھی اللہ عزوجل کے اولیاء گزرے
ہیں سب نے شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خبر دی ہے۔
(سیرت غوث الثقلین،ص۵۸)
اس کے علاوہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ”
مجھے عالم غیب سے معلوم ہوا ہے کہ پانچویں صدی کے وسط میں سید المرسلین صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِاطہار میں سے ایک قطبِ عالم ہوگا، جن
کا لقب محی الدین اور اسم مبارک سید عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے اور
وہ غوث اعظم ہوگا اورجیلان میں پیدائش ہوگی ان کو خاتم النبیین،رحمۃٌ
للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ائمہ کرام
اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے علاوہ اولین وآخرین کے ”ہر ولی اور ولیہ
کی گردن پر میرا قدم ہے۔” کہنے کا حکم ہوگا۔”
( سیرت غوث الثقلین، ص ۵۷)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں شیخ محمد ابوبکر علیہ الرحمہ نے ایک
روزاپنے مریدین سے فرمایا کہ ”عنقریب عراق میں ایک عجمی شخص جو کہ اللہ
عزوجل اور لوگوں کے نزدیک عالی مرتبت ہوگا اُس کا نام عبدالقادررحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ ہوگااور بغداد شریف میں سکونت اختیار کریگا، قَدَمِیْ ھٰذِہٖ
عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ (یعنی میرایہ قدم ہرولی کی گردن پرہے)
کا اعلان فرمائے گا اور زمانہ کے تمام اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم
اجمعین اس کے فرمانبردارہوں گے۔”
(بہجۃالاسرار،ذکراخبارالمشایخ عنہ بذالک،ص14)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میرے پیران پیر روشن ضمیر حضور سید عبد
القادر جیلانی غوث پاک رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کی کیا شان ہے کہ آپ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
" میں نے چالیس سال اپنے رب کو راضی کیا مصلح پر بیٹھ کر تب میرے رب نے مجھ
سے کہا اے عبد القادر کچھ مانگ لے کچھ بات کرکے تو میں نےاللہ کی بارگاہ
میں عرض کیا کہ اے رب تعالیٰ قیامت تک جو مجھ سے پیار کرے میرا نام لے مجھ
سے محبت کرے اس پر فضل کرنا اسے بغیر توبہ کے موت نہ دینا تو میرے رب نے
میری دعا قبول فرمائی اور اب میرا کوئی مرید ، میرا چاہنے والا ، میرا نام
لیوا اور مجھ سے محبت کرنے والا بغیر توبہ کے دنیا سے رخصت نہیں ہوگا مرے
گا نہیں " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ
بات صرف ان لوگوں تک محدود ہے جو نہ صرف اللہ تعالیٰ کے مقرب اور محبوب
بندوں میں شمار ہوں گے جو صدق دل کے ساتھ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ
وآلیہ وسلم ہوں گے اور اپنے پیرو مرشد کے طفیل حضور غوث پاک رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے ماننے والے ہوں گے چاہنے والے ہوں گے اور نام لیوا ہوں گے
ایسے لوگوں کو اس بات کا اطمینان ہو جانا چاہئے کہ وہ دنیا سے بغیر توبہ کے
نہیں جائیں گے بس عقیدہ ہونا چاہئے اگر آپ کا عقیدہ سچا ہے پکا ہے تو پھر
آپ پر حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کہی ہوئی یہ بات پوری ہوگی ان
شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور سیدناشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ
تعالیٰ علیہ قصیدہ غوثیہ میں اپنے مریدوں کودلاسا دیتے ہوئے ارشادفرماتے
ہیں:
مُرِیْدِیْ لَاتَخَفْ اَللہُ رَبِّیْ
عَطَانِیْ رِفْعَۃً نِلْتُ الْمَنَالِ
اے میرے مرید! تو مت ڈر، اللہ کریم میرا رب ہے، اس نے مجھے رفعت و بلندی
عطا فرمائی ہے اور میں اپنی امیدوں کو پہنچتا ہوں۔
نَظَرْتُ اِلٰی بِلَادِ اللہِ جَمْعًا
کَخَرْدَلَۃٍ عَلٰی حُکْمِ التِّصَالٖ
اللہ عزوجل کے تمام شہر اور ملک میری نگاہ میں رائی کے دانہ کی طرح ہیں اور
میرے حکم اتصال میں ہیں۔
(قصیدہ غوثیہ،ص۱)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بغیر توبہ کے نہ مرنے پر ایک حقیقی واقعہ
پڑھئیے اور عاشق غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھوم جھوم جائیں یہ واقعہ
ہندوستان کے گائوں گجرات سے ہے جہاں ایک غوثِ پاک کا دیوانہ رہا کرتا تھا،
جو گیارہویں شریف نہایت اہتمام کے ساتھ مناتا تھا، ایک خاص بات اُس میں یہ
بھی تھی کہ وہ سید زادوں کی بےحد تعظیم(Respect) کرتا، ننھے منے سید زادوں
پر شفقت کا یہ حال تھا کہ انہیں اُٹھائے اُٹھائے پِھرتا اور انہیں
شِیْرِینی(Sweets) (مثلاً کھانے کی میٹھی چیزیں)وغیرہ خرید کر پیش کرتا
تھا۔ایک دن اس دیوانے کا انتقال ہو گیا۔ اس دیوانے کی مَیِّت پر چادر ڈالی
ہوئی تھی، سوگوار جمع تھے کہ اچانک چادر ہٹا کر وہ غوثِ پاک کا دِیوانہ
اُٹھ بیٹھا، لوگ گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس نے پُکار کر کہا: ڈرو مت، سنو
تو سہی! لوگ جب قریب آئے تو کہنے لگا: بات دَرْ اَصْل یہ ہے کہ ابھی ابھی
میرے گیارہویں والے آقا، پیروں کے پِیر، پِیرِدستگیر ،روشن ضمیر ، غوثِ
اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ تشریف لائے تھے، انہوں نے
مجھے ٹھوکر لگائی اور فرمایا: ہمارا مرید ہو کر بغیر توبہ کئے مَر گیا؟
اُٹھ اور توبہ کر لے۔ الحمد للہ ! مجھ میں رُوح لوٹ آئی ہے تاکہ میں توبہ
کر لُوں۔ اتنا کہنے کے بعد دِیوانے نے اپنے تمام گُنَاہوں سے تَوبہ کی اور
کلمۂ پاک کا وِرْد کرنے لگا، پِھر اچانک اس کا سَر ایک طرف ڈھلک گیا اور اس
کا انتقال ہو گیا۔
(جنات کا بادشاہ،صفحہ:3- 4 بتغیر قلیل)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جو شخص حضور پیران پیر دستگیر حضرت غوث
اعظم رضی اللہ عنہ، سے تھوڑی سی بھی عداوت رکھے گا یا ان کی ادنیٰ سی بھی
بے ادبی کرے گا تو دنیا میں ذلیل و رسوا ہوگا۔ اور ذلت کی موت مرے گا۔ایک
مرتبہ آپ کا خادم ابو الفضل بزاز کے پاس گیا ( بزاز کپڑا بیچنے والے کو
کہتے ہیں )اور کہا کہ مجھے وہ کپڑا درکار ہے جو ایک اشرفی فی گز ہو یعنی اس
سے کم نہ ہو ابو الفضل نے پوچھا کس کے لئے خرید رہے ہو ؟ خادم نے عرض کیا
اپنے آقا حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے درکار ہے تو ابو الفضل
کے دل میں خیال آیا کہ شیخ نے تو بادشاہ وقت کے لئے بھی کپڑا نہیں چھوڑا
ابھی اس کے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ اچانک اس کے پائوں میں کیل چبھ
گئی اور اس کیل کی وجہ سے اتنی تکلیف ہوئی کہ شدت تکلیف سے بلبلہ اٹھا وہاں
پر موجود ہر ایک نے کوشش کی مگر کیل نہ نکال سکے آخر کار لوگ ابو الفضل کو
اٹھا کر حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں لے گئے آپ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھ کر فرمایا کہ اے ابو الفضل تم نے ہمارے بارے میں
اپنے دل میں اعتراض کیوں کیا مجھے میرے رب تعالیٰ کے عزت کی قسم مجھے میرے
خدا نے حکم دیا تھا کہ اے عبدالقادر تم وہ کپڑا پہنو جس کی قیمت فی گز ایک
اشرفی ہو اے ابو الفضل یہ کپڑا میت کے کفن کا کپڑا ہے اور کفن کا کپڑا جتنا
اعلی اور عمدہ ہو اتنا ہی اچھا ہے کیونکہ یہ ہزار موت کے بعد نصیب ہوتا ہے
ابو الفضل کا اعتراض ہم تک پہنچا اور کیل کے ذریعے واپس اس تک لوٹایا گیا
اور اس کے بعد حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا دست اقدس ابو
الفضل کے درد والی جگہ پر رکھا کیل خودبخود نکل گئی اور درد یوں جاتا رہا
جیسے تھا ہی نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان ،
عظمت ، سیرت ، شخصیت اور کرامات پر بیشمار کتابیں ہمارے فقہاء کی لکھی ہوئی
ہمارے لئے ایک خزانے کی مانند موجود ہیں بس شرط یہ ہے کہ ہم اس خزانے سے
قیمتی موتی نکال کر اس پر اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں اور نہ صرف
اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے والے ، اس کے حبیب کریمﷺ کے فرمودات پر عمل
کرنے والے اور حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ماننے اور چاہنے والے
لوگوں میں شامل ہو جائیں بلکہ بعد مرنے کے جنت کے بھی حقدار بن جائیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے
میں اس ایک مضمون میں کچھ لکھنا ممکن نہیں لہذہ میں اس کے دوسرے حصے کے
ساتھ بھی آپ کے ساتھ جڑا رہوں گا ان شاءاللہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ
ہمیں رہتی قیامت تک ایمان کی سلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا
فرمائے اپنے مقرب بندوں کی صف میں شامل رکھے ہمارے اندر عشق مصطفی ﷺکا جذبہ
قائم رکھے اور پیران پیر دستگیر حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چاہنے
والے مریدوں میں شامل رکھے اور ہماری نسبت ہمیشہ ایسے لوگوں سے قائم و دائم
رکھے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|