سلام کرنے کی عادت
(محمد یوسف میاں برکاتی, کراچی)
|
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا
آداب
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا، کون
سا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’تم کھانا کھلاؤ اور سب کو سلام کرو،
(عام اس سے کہ) تم اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے ہو۔‘‘
(صحیح البخاری 12)
ہاں بھئی کیا حال ہے ؟ صبح بخیر ، Good Morning , ہائے ، جبکہ کچھ لوگ ہاتھ
اور گردن ہلاتے ہوئے ایک دوسرے کا حال پوچھتے نظر آتے ہیں ہمارے یہاں اکثر
لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ان کے انداز مختلف ہوتے ہیں لیکن ہمارے
مذہب نے سلام کرنے کا جو طریقہ ہمیں بتایا اور سکھایا وہ کم کم نظر آتا ہے
گویا ہم دین کے ساتھ ساتھ اس کے بتائے ہوئے طور طریقوں سے بھی دور ہوتے
جارہے ہیں مذکورہ حدیث میں واضح کیا گیا کہ مسلمان وہ ہی بہتر ہے جو ایک
دوسرے کو سلام کرنے میں پہل کرے اب چاہے وہ اسے جانتا ہو یا نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن اس دنیا میں ہر ملک ہر قوم اور ہر
مذہب میں سلام کرنے کا انداز جداگانہ ہے یعنی عیسائی لوگ جب ایک دوسرے سے
ملتے ہیں تو سر پر پہنی ہوئی ہیڈ اتار کر سر کر تھوڑا جھکاتے ہیں جبکہ ہندو
لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو ملا کر ماتھے تک لیکر
جاتے ہیں اور نمستے کہتے ہیں اور سکھ لوگ سری اکال کا نعرہ لگاتے ہیں اسلام
میں جب زمانئہ جاہلیت کا دور تھا تو لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو حباک
اللہ، حباک اللہ بالخیر کہتے نظر آتے تھے یعنی اللہ تمہیں ژندہ رکھے اللہ
تمہیں بھلائی کے ساتھ ژندہ رکھے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اصل میں دنیا کی تخلیق کے بعد حضرت آدم
علیہ السلام کے دنیا میں آتے ہی انسان کو سلام سکھا دیا گیا تھاحضرت آدم
علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو اللہ تعالی نے ان سے کہا :آدم !کچھ فرشتے
بیٹھے ہوئے ہیں ،انہیں جا کر سلام کہو ،حضرت آدم علیہ السلام نے انہیں جا
کر السلام علیکم کہا ، فرشتوں نے جواب دیا : وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ اس
وقت باری تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ اے آدم اب رہتی قیامت تک
آنے والی تیری اولاد کا سلام یہ ہی ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن مجید کی سورہ النساء کی آیت 86 میں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ
رُدُّوْهَاؕ-
ترجمعہ کنزالایمان :
اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا
یا وہی کہہ دو۔
اصل " سلام" کے کئی معنی ہیں سلامی معنی میں سلامتی بھی آتا ہے امن اور
عافیت کے ساتھ رہنا بھی سلام کے معنی میں آتا ہے یعنی جب ہم کسی کو " اسلام
علیکم" کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم جسمانی ، ذہنی اور روحانی
طور پر عافیت میں رہو اور تمہاری دنیا اور آخرت کی زندگی کے تمام معمولات
اور انجام ،امن اور عافیت والے ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جیسے میں نے کہا کہ سلام کا معنی سلامتی کے
ہیں تو ہم جب کسی کو " اسلام علیکم " کہتے ہیں تو گویا ہم یہ دعا دیتے ہیں
کہ وہ سلامت رہے اسی لئے اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں پر سلامتی بھیجتا ہے
جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ یاسین کی آیت 58 میں فرمایا کہ
سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ
ترجمعہ کنزالایمان:
ان پر سلام ہو مہربان رب کا فرمایا ہوا ۔
جب حضرت نوح علیہ السلام مشکل میں آگئے تو االلہ تبارک و تعالی نے قران
مجید کی سورہ الصافات کی آیت 89 میں فرمایا کہ
سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ
ترجمعہ کنزالایمان:
نوح پر سلام ہو جہاں والوں میں
گویا جب بھی کسی نبی پر کوئی مشکل گھڑی آئی تو رب کی طرف سے سلامتی کا حکم
ہوا سورہ النساء کی آیت 86 کے ترجمعہ میں جس طرح کہا گیا کہ اگر کوئی تمہیں
سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو اس کی تفصیل میں اکابرین نے لکھا ہے کہ
جب کسی کو کہیں کہ " اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ" تو ساتھ میں " وَرَحْمَۃُ
اللّٰہِ" کا اضافہ کردیں اور جب بھی " اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ
اللّٰہِ" کہیں تو اس میں اضافہ کرکے " وَ بَرَکَاتُہٗ" کا اضافہ کردیا جائے
تو اب سلام کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہی ہے کہ آپ سلام کرتے وقت کہیں کہ
" اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہ وَ بَرَکَاتُہٗ "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی حوالے سے حدیث مبارکہ ہے کہ
جناب عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے ”السلام علیکم“ کہا، آپ نے اسے سلام کا
جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس
کو دس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا، اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ“
کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اس کو
بیس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ
وبرکاتہ“ کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا:
”اسے تیس نیکیاں ملیں“۔
( سنن ابوداؤد 5195)
اسی حوالے سے ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! جب دو آدمی
آپس میں ملیں تو سلام کرنے میں پہل کون کرے؟ آپ نے فرمایا: ”ان دونوں میں
سے جو اللہ کے زیادہ قریب ہے“ وہ پہل کرے گا
(سنن ترمذی 2694)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ
جو اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوگا اس میں عاجزی و انکساری کا عنصر بھی
زیادہ پایا جاتا ہوگا اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ کسی کو سلام کرنے میں پہل
کرے گا اور ڈھیروں اجروثواب حاصل کرے گا جب بھی کوئی کسی کو سلام کرے تو
سامنے والے کو چاہئے کہ وہ اسی وقت جواب میں کہے کہ و َعَلَیْکُمُ
السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہ وَبَرَکَاتُہٗ کہ یہ حضور ﷺ کی بہت ہی پیاری
سنت مبارکہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح
اگر کچھ لوگ جمع ہوں اور کوئی آکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہے تو کسی ایک کا
جواب دے دینا کافی ہے۔ اگر ایک نے بھی نہ دیا تو سب گنہگار ہوں گے ۔ اگر
سلام کرنے والے نے کسی ایک کانام لے کر سلام کیا یا کسی کو مخاطَب کر کے
سلام کیا تو اب اسی کو جواب دینا ہوگا، دوسرے کاجواب کافی نہ ہوگا۔
(بہار شریعت،ج3،ص460ماخوذاً)
علماء فرماتے ہیں کہ سلام میں پہل کرنے کا عمل سنت مبارکہ ہے جبکہ سلام کا
جواب دینا واجب ہے لہذہ واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتا ہے لیکن یہاں ایسا
نہیں ہے جبکہ یہاں سنت کا اجر زیادہ ہے ایسا کیوں ہے ؟ تو علماء نے لکھا ہے
کہ چونکہ جواب دینے والا اسی وقت جواب دے گا جب اسے کوئی سلام کرے گا لہذہ
جواب دینے والے کا اجر پہل کرنے والے سے ہی بنتا ہے اسی لئے سلام میں پہل
کرنے والا زیادہ افضل ہے ایک حدیث کے مطابق پیل کرنے والے کو ایک درجہ
فضیلت حاصل ہوتی ہے دوسری حدیث کے مطابق اس کو دس نیکیاں ملتی ہیں جبکہ
تیسری حدیث کے مطابق 100 میں سے 90 رحمتیں سلام میں پہل کرنے والے کو ملتی
ہیں سبحان اللہ کیا بات ہے کیا فضیلت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحیح ابن حبان کی ایک حدیث مبارکہ جو حضرت
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ " اگر کوئی شخص سواری پر ہے تو اسے چاہئے کہ پیدل چلنے
والے کو سلام کرے اور جو پیدل چل رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ بیٹھے ہوئے کو
سلام کرے اور اگر افراد دو ہوں تو جو پہل کرے گا افضل وہ ہوگا ۔
(صحيح ابن حبان، جلد2، صفحہ 251،حدیث 498، مؤسسة الرسالہ، بيروت).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک اور حدیث مبارکہ جس کے راوی ہیں حضرت
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ حضورﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ " جب دو
اشخاص آپس میں ملتے ہیں تو ان میں سے جو زیادہ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرے گا
وہ ہی اللہ کے زیادہ قریب ہوگا پھر اگر وہ آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ
تعالیٰ ان پر 100 رحمتیں نازل فرماتا ہے جس میں سے 90 رحمتیں اس کے لئے
ہوتی ہیں جو سلام اور مصافحہ میں پہل کرتا ہے جبکہ باقی 10 رحمتیں اس کے
لئے ہیں جس کے ساتھ مصافحہ کیا گیا ۔۔( مسند البزار ، جلد1، صفحہ 437، حدیث
308)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سلام کرنے اور سلام کرنے میں پہل کرنے کی
فضیلت میں ہمیں قرآن مجید فرقان حمید کی بیشمار آیتیں ملتی ہیں جبکہ
لاتعداد احادیث مبارکہ بھی ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں اللہ تبارک وتعالی قرآن
مجید کی سورہ النور کی آیت 61 کے ایک حصے میں فرماتا ہےکہ
فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً
مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةًؕ-
ترجمعہ کنزالعرفان:
پھر جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو، (یہ) ملتے وقت کی
اچھی دعا ہے، اللہ کے پاس سے مبارک پاکیزہ (کلمہ ہے) ۔
دراصل ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت " السلام علیکم" سے زیادہ خوبصورت کلمہ
کوئی ہو ہی نہیں سکتا اگر آپ غور کریں تو یہ بات واضح ہے کہ محبت ، تعلق ،
خیرسگالی اور اخوت کو آپس میں قائم کرنے کے لئے اس سے اچھا کلمہ ذہن میں آ
ہی نہیں سکتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ وہ واحد کلمہ ہے جس میں چھوٹوں کےلئے
پیار اور شفقت چھلکتی ہے جبکہ بڑوں کے لئے عزت و تعظیم گویا اس کلمہ میں
صاف اور واضح نظر آتا ہے کہ اس کا مطلب کہ ' اللہ آپ کو ہر طرح کی سلامتی
نصیب فرمائے" اس سے عظیم اور بابرکت دعا کوئی ہو ہی نہیں سکتی اگر محبت اور
پیار کا تعلق آپ کا کسی کے ساتھ ہے تو اس تعلق میں محبت کی مٹھاس اور اس کی
چاشنی اسی سلام کے سبب اور بڑھ جاتی ہے اور اگر کسی کو آپ جانتے ہی نہیں تو
یہ محبت اور پیار ہی اس کے ساتھ آپ کا تعلق بناتا ہے اور سلامتی کی دعا اس
کے اور آپ کے درمیان ایک نیا رشتہ قائم کردیتی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ سلام
کرنے اور اس میں پہل کرنے کی تلقین پر ہمیں بیشمار احادیث مبارکہ ملتی ہیں
حضور ﷺ کے فرمان ہمیں نظر آتے ہیں جو میں نے اس مضمون میں آپ تک پہنچانے کی
کوشش کی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سلام کرنا باہمی محبت کا نقطئہ آغاز ہے یہ
اجنبیت کو دور کرکے محبت و یگانگت کے جذبات کو فروغ دینے کا۔باعث بنتا ہے
دنیا میں ادنی و اعلی کے فرق کو مٹا کر اسلام میں اس احساس کو اجاگر کرتا
ہے مسلمان سب کے سب ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے پیارے نبی حضورﷺ
ہمیشہ سلام میں پہل کیا کرتے تھے اور ہر شخص کو سلام کرتے چاہے اسے جانتے
ہو یا نہیں بلکہ آپﷺ نے دوسروں کو سلام پہنچانے کا فریضہ بھی ادا کیا جیسے
اللہ تعالیٰ کی طرف بھیجے گئے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سلام
پہنچایا اسی طرح ایک دفعہ آپﷺ نے حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا سے فرمایا تھا کہ جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں آپ ﷺکی ایک عادت مبارکہ
یہ بھی تھی کہ جب آپ ﷺ سلام کرتے اور محسوس ہوتا کہ سننے والے نے سنا نہیں
تو دوسری مرتبہ سلام کرتے اور اگر پھر بھی محسوس ہوتا تو تیسری مرتبہ بھی
آپ ﷺ سلام کرتے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے یہاں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ
جب کوئی کسی کو سلام کرتا ہے تو اگر دوسرے شخص کی طرف سی کوئی جواب نہیں
ملتا تو اس پہلے شخص کو برا لگ جاتا ہے وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ شاید غرور و
تکبر کی وجہ سے مجھے جواب نہیں مل رہا یا یہ کہ یہ شخص کچھ سمجھتا ہے اپنے
آپ کو اس لئے جواب نہیں دیا مطلب اس کے دل میں بدگمانی پیدا ہوجاتی ہے جبکہ
اسلام میں ایک تو یہ حکم ہے کہ آپ بلند آواز میں سلام کریں اگر جواب نہ ملے
تو دوسری مرتبہ سلام کریں پھر بھی جواب نہ ملے تو تیسری مرتبہ سلام کریں
اگر پھر بھی جواب نہ ملے تو خاموشی سے وہاں سے چلے جائیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دوسرے سے محبت اور خلوص کے جذبہ کو
اجاگر کرنے اور پروان چڑھانے میں سلام کرنے کا عمل بہت زیادہ مفید اور
بابرکت ہے لہذہ اس بابرکت دعا اور عمل کو اپنائیے اور حضور ﷺ کی سنت مبارکہ
اور اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کیجئیے اور کوشش کیجئے کہ آپ جسے جانتے
ہوں یا نہیں جانتے سلام کرنا شروع کر دیجئے اور اگر کوئی پہل کردے تو اس کا
جواب بڑی خوبی کے ساتھ دیجئے اس کی وجہ سی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی قربت اور
اس کے حبیب کریمﷺ کی محبت نصیب ہوگی بلکہ ڈھیروں اجروثواب بھی حاصل ہوگا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں سلام میں پہل کرنے جیسی عادت
کی توفیق عطا فرمائے خوش اسلوبی سے سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کی توفیق
عطا فرمائے اللہ رب العزت ہمیں اپنے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے
اور اپنے حبیب کریمﷺ کی احادیث کو پڑھنے اور اسے سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|
|