بسم اللہ الرحمن الرحیم
وفاق المدارس کی مجلس عاملہ اور نصابی کمیٹی کے اجلاسوں کے چند اہم ترین
فیصلے
مولانا محمدحنیف جالندھری
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان
طالبات کا دینی نصاب
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلسِ عاملہ کا ایک اہم ترین اور غیر
معمولی نوعیت کا اجلاس 21ستمبر 2011ءبمطابق 22شوال المکرم 1432ھ وفاق
المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی دفتر ملتان میں منعقد ہوا۔یہ اجلاس کئی
لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا،چونکہ یہ اجلاس تعلیمی سال کی ابتداءکے
موقع پر انعقاد پذیر ہوا ،موجودہ عالمی اور ملکی حالات کے تناظر میں اس کی
اہمیت میں مزید اضافہ ہوا اور پھر اس میں زیر بحث لائے جانے والے امور اور
جن معاملات پر فیصلہ کیا گیا، ان فیصلوں کے بھی دور رس اثرات مرتب ہونے کی
توقع ہے۔اس اجلاس کی اہمیت اس لحاظ سے بھی دو چند ہوگئی کہ اس سے قبل
19اور20ستمبر بمطابق 20اور21شوال المکرم کو نصاب کمیٹی کے اجلاس بھی صبح سے
رات گئے تک مسلسل جاری رہے۔ ان اجلاسوں میں ملک بھر سے تشریف لائے ہوئے
نصاب کمیٹی کے اراکین نے طویل غور وخوض اور بحث و مباحثہ کے بعد اپنی
سفارشات مرتب کیں جنہیں مجلس ِعاملہ کے اجلاس میں حتمی منظوری کے لیے پیش
کیا گیا ۔صدر وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان اپنی پیرانہ سالی
،ضعف اور علالت کے باوجود ان اجلاسوں میں نہ صرف یہ کہ شریک ہوئے بلکہ
صدارت بھی فرمائی اورنصابی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے نصابی کمیٹی کی
رہنمائی بھی فرماتے رہے۔
حضرت شیخ الحدیث اورراقم الحروف کے علاوہ مجلس عاملہ کے اجلاس میں مولانا
ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر بنوری ٹاؤن کراچی ،مولانا انوار الحق جامعہ حقانیہ
،مولانا قاضی عبدالرشید دارالعلوم فاروقیہ راولپنڈی،مولانا ڈاکٹر سیف
الرحمن حید رآباد سندھ ،مولانامفتی محمد رفیع عثمانی جامعہ دارالعلوم کراچی
،مولانا مشرف علی تھانوی لاہور ،شیخ الحدیث مولانا عبدالمجید کہروڑپکا
،مولانا مفتی محمدطیب جامعہ امدادیہ فیصل آباد ،مولانا فضل الرحیم جامعہ
اشرفیہ لاہور،مولانا ارشاد احمد دارالعلوم کبیر والا،مولانا مفتی طاہر
مسعود سرگودھا، مولانا محمد ادریس نوشہروفیروز سندھ،مولانا قاضی محمودالحسن
اشرف مظفرآباد ،مولانا سعید یوسف آزاد کشمیر،مولانا مفتی صلاح الدین چمن
بلوچستان ،مولانا محمد قاسم مردان ،مولانا قاری مہراللہ کوئٹہ،مولانا قاضی
نثا راحمد گلگت،مولاناحسین احمد جامعہ عثمانیہ پشاور، مولانا صلاح الدین
حقانی لکی مروت،مولانا فیض محمدخضدار،مولانا ذاکراللہ باجوڑ،مولانا مفتی
محمد نعیم جامعہ بنوریہ کراچی،مولانا مفتی مظہر شاہ بہاولپور اور مولانا حق
نواز دارالعلوم صفہ کراچی شریک ہوئے جبکہ نصابی کمیٹی کے اراکین میں مولانا
رشید اشرف دارالعلوم کراچی ،مولانا عطاءالرحمن جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی
،مولانا مفتی حامد حسن دارالعلوم کبیروالا،مولانا محمد عابد جامعہ خیر
المدارس ملتا ن ،مولانا مفتی محمد امین جامعہ فریدیہ اسلام آباد،مولانا
سلیم اعجاز باغ آزاد کشمیر،مولاناحسین احمد جامعہ عثمانیہ پشاور،مولانا
صلاح الدین حقانی لکی مروت،مولانا رسول شاہ کوئٹہ،مولاناظفر احمد قاسم
وہاڑی جبکہ مولانا عبیداللہ خالد بطور مبصر شریک ہوئے ۔ان اجلاسوں میں شرکت
فرمانے والے اساطین علم کے اسمائے مبارکہ کی فہرست سے اندازہ کیا جاسکتا ہے
کہ وطن عزیز کے کن عالی دماغ حضرات نے دینی مدارس کے مستقبل کے حوالے سے
ہونے والے ان فیصلوں کی تشکیل میں حصہ لیا ۔
وفاق المدارس کی مجلس عاملہ اور نصابی کمیٹی کے حالیہ اجلاسوں میں طالبات
اور بچیوں کی دینی تعلیم کے نصاب کے حوالے سے فیصلہ دیا گیا،یہ اہم ترین
معاملہ ایک عرصے سے وفاق المدارس کی نصابی کمیٹی،مجلس عاملہ اور مجلس شوریٰ
میں زیر بحث رہا،بلکہ شوری ٰ کے اجلاس (منعقدہ 12ربیع الثانی 1430ھ بمطابق
9اپریل 2009ء)میں اس کی اصولی منظوری بھی دی گئی تھی۔وفاق المدارس کے اکابر
اور رہنماﺅں کے پیشِ نظر ہمیشہ اس نصاب کے مقاصدواہداف رہے ۔اس سلسلے میں
عام مسلمان خواتین کی دینی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھا گیااور عالمہ وفاضلہ
بن کر دینی تعلیم وتبلیغ کا عزم رکھنے والی بچیوں کی ضروریات کا بھی خیال
رکھا گیا ۔چنانچہ یہ طے پایا کہ ایک تو ایسانصاب تشکیل دیاجائے جو شرعی
احکام،فقہی مسائل اور قرآن وسنت کی روشنی میں ہر مسلمان ماں،بہن،بیوی اور
بیٹی کے لیے ضروری ہو اور جس سے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین
خواہ ان کی تعلیمی قابلیت ،علاقائی پسِ منظر ،عمر اور مصروفیات کی نوعیت
کچھ بھی ہو وہ اس نصاب سے استفادہ کرسکیں۔ دوسرے نمبر پر وہ نصاب جس کے
پڑھنے کے بعد ایسی عالمات ،فاضلات،داعیات،مبلغات اور معلمات تیار کی جائیں
جو خواتین کی دینی تعلیم وترتیب ،وعظ وتبلیغ اور درس وتدریس کا فریضہ سر
انجام دے سکیں۔ان دونوں ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے دو طرح کے نصابوں کا
جائزہ لیا گیا:
(۱)وہ تین سالہ نصاب جو دراساتِ دینیہ کے نام سے چند برسوں سے رائج ہے اس
میں کچھ ضروری رد وبدل کر کے اسے تین سالہ کے بجائے دو سالہ کرد یاجائے گا
اوریہ نصاب مردوں اور خواتین کے لیے یکساں طور پر رائج ہوگا جس سے مختلف
شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مسلمان مرد اور خواتین اسلام کی بنیادی
تعلیمات اور احکامات کے حوالے سے استفاد کر سکیں گے۔
(۲)طالبات کے لیے پہلے درس نظامی کا جو مروجہ نصاب رائج تھا۔اس کی ترتیب اب
کچھ یوں ہوگی کہ وہ طالبات جو حسبِ سابق چار سالہ نصاب پڑھنا چاہیں انہیں
اس کی اجازت ہوگی لیکن انہیں عالمیہ کی سند جاری نہیں کی جائے گی بلکہ
عالیہ کی سند جاری کی جائے گی۔چار سالہ نصاب کے بعد جو طالبات مزید دو سالہ
نصاب پڑھ کر اس کے امتحان میں شریک ہوں گی انہیں عالمیہ کی سند جاری کی
جائے گی۔یوں یہ چار سالہ یا چھے سالہ نصاب ان طالبات کے لےے ہوگا جو عصری
تعلیمی اداروں سے میٹرک پاس ہیں۔چار سالہ نصاب میں قرآن وحدیث ،فقہ واصول
فقہ اور عربی گرائمر کے لحاظ سے بنیادی تمام مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے
یعنی اس چار سالہ نصاب میں ترجمہ وتفسیر قرآن کریم بھی مکمل ہو جائے گی
،مشکوٰة شریف اور ریاض الصالحین کی صورت میںحدیث مبارکہ فقہ میں ہدایہ،
اصول فقہ میں نورالانوار اور صرف ونحو کی بنیادی کتب مکمل ہو جائیں گی ۔
تاہم احادیث مبارکہ کی کتب کے منتخب حصوں کے بجائے مکمل متون عالمیہ کے دو
سالوں میں پڑھنے لازمی قرار دیئے گئے ہیں تاکہ ذخیرہ احادیث اور اس کی
روشنی میں تمام علوم وفنون پر کامل دسترس حاصل ہوسکے ۔ان چھے سالوںمیں سے
پہلے دو سال ثانویہ خاصہ(سالِ اول،سال دوم)اگلے دو سال عالیہ(سالِ اول،سالِ
دوم)اوراگلے دوسال عالمیہ(سالِ اول،سالِ دوم)کے ہوں گے اور بنیں یعنی
طلباءکی ترتیب کے مطابق وفاق المدارس کے امتحانات میں یہ طالبات شریک ہو کر
سند حاصل کر سکیں گی،جبکہ عامہ کے دو سال صرف ان طالبات کے لیے ہوں گے
جنہوں نے میٹرک تک عصری تعلیم حاصل نہیں کی ہوگی،عامہ کے دو سال کا زیادہ
حصہ عصری مضامین پر مشتمل ہوگا تاہم اگر کوئی ادارہ اس دو سالہ نصاب کو
گھنٹوں کی مقدار پوری کرتے ہوئے ایک ہی سال میں پڑھانا چاہے گا تو اسے اس
کی بھی اجازت ہوگی،عامہ کے ان دو سالوں میں عصری مضامین رکھنے کا مقصد یہ
ہے تاکہ ان طالبات میں اتنی استعداد موجود ہو کہ وہ سہولت سے اپنی دینی
تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اورفراغت کے بعد وہ اپنے دینی علوم سے عام
خواتین کو کما حقہ فائدہ پہنچا سکیں۔ یہ عامہ کے دو سال موجودہ مروجہ سسٹم
میں بعض مدارس میں درجہ اولیٰ کے طور پر پڑھائے جانے والے درجے کی نئی شکل
ہو گی ۔ یہ نصاب آئندہ تعلیمی سال سے نافذ العمل ہوگا۔انشااللہ
یاد رہے کہ طالبات کے نصاب کا دورانیہ بڑھانے اور اس میں یہ رد وبدل کرنے
کی ضرورت بھی اسی لیے پیش آئی کہ موجودہ مروجہ نصاب اس لحاظ سے ناکافی
محسوس ہو رہا تھا کہ اسے پڑھنے کے بعد طالبات کی وہ استعداد نہیں بن پاتی
تھی جو ایک داعیہ،مبلغہ اور عالمہ کے لیے ضروری ہوتی ہے لیکن دوسری طرف یہ
امر بھی پیش نظر تھا کہ طالبات کی اپنی فطری مجبوریاں ہوتی ہیں جن کے باعث
وہ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ حصول علم میں صرف نہیں کر پاتیں لیکن دوسری طرف
ادھوری تعلیم،کمزور استعداد اور ناقص نصاب کے بعد عالمات قرار دی جانے والی
طالبات کی وجہ سے بھی کافی مسائل ومشکلات کا سامنا تھا ۔اس لیے وفاق
المدارس کے کابر نے یہ فیصلہ کیا کہ دو سالہ دراساتِ دینیہ کورس کے ذریعہ
عام خواتین کی دینی تعلیم وتربیت کی ضرورت پوری ہوسکے۔چار سالہ نصاب طالبات
کی فطری مجبوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے برقراررکھا گیا لیکن حالیہ مسائل
ومشکلات کے لےے اس بات کی ممانعت کردی گئی کہ وہ خود کو عالمات نہ کہلوائیں
جبکہ میٹرک کے بعد چھ سالہ نصاب مکمل کر کے وفاق المدارس کا امتحان پاس
کرنے والی طالبات کو عالمیہ کی سند جاری کی جائے گی،امید کی جانی چاہیے کہ
وفاق المدارس کے اکابر کے اس بروقت اور مخلصانہ فیصلے کی بدولت بہت سے
مسائل ومشکلات سے امت کو نجات ملے گی،مستقبل میں زیادہ ذی استعداد اور اہل،
عالمات تعلیم وتدریس اور دعوت وتبلیغ کا فریضہ سر انجام دیں گی اور نصاب کی
مرحلہ وار تقسیم سے جہاں تمام خواتین کے لیے استفادہ آسان ہوگا،اور ان کی
فطری مجبوریوں کی رعایت بھی ہوگی وہیں طالبات علم دین کے لیے زیادہ محنت
کریں گی اور رسوخ فی العلم کے حصول کے لیے پہلے سے بڑھ کر محنت وکوشش کا
اہتمام بھی کریں گی۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آکر میں وفاق المدارس کے بنات کے نصاب پر ایک نظر
ڈال لی جائے
درجہ ثانویہ خاصہ میں ترجمہ و مختصر تفسیر پارہ عم،جوامع الکلم (مولانا
مفتی محمد شفیع ؒ) بعدہ زادالطالبین مکمل مع ترکیب باب اول،بہشتی زیور (
ج۔۲۔۳۔۴)،علم الصرف (ج۔۱۔۲۔۳) مع اجرائ۔( اس کے لئے ” تمرین الصرف “ سے
استفادہ کیا جا سکتا ہے) عوامل النحو (مع مختصر ترکیب حصہ نثر) ‘ علم
النحومع اجراء(اس کے لئے ” تمرین النحو“ اور ” تسہیل النحو “ سے استفادہ
کیا جاسکتا ہے)الطریقة العصریہ (ج۔۱) ، عربی کا معلم (حصہ اوّل ، دوم )
مولانا عبدالستار خان ،حدر آخری پانچ پارے (ناظرہ) مع حفظ ربع آخر پارہ عم
۔خلاصة التجوید( مولانا قاری اظہار احمد تھانوی)اور درجہ ثانویہ خاصہ سال
دوم میں ترجمہ و مختصر تفسیر قرآن مجیدسورہ یونس تا اختتام سورہ
عنکبوت،مختصر القدوری از ابتداءتا اختتام کتاب الحج‘ کتاب النکاح تا
آخرکتاب النفقات،آسان اصول فقہ مکمل (مولفہ مولانا خالد سیف اللہ
رحمانی)علم الصیغہ مع خاصیاتِ ابواب از علم الصرف حصہ چہارم،شرح مائتہ عامل
(نوعِ اوّل باترکیب) بعدہ ہدایة النحو،قصص النبیین (ج۲۔۳) اور تیسیر
المنطقکو شامل نصاب کیا گیا ہے۔
عالیہ سال اول میں ترجمہ و مختصر تفسیر قرآن مجیدسورہ روم تا ختم سورہ
مرسلات، ریاض الصالحین مکمل، مختصر القدوری(ما بقیہ) ما سوائے کتاب
الفرائض،نور الانوار(بحث سنت و اجماع) آسان فرائض اردو، سراجی تا ختم باب
الرّد،دروس البلاغة (مکمل)، مقامات حریری پہلے پانچ مقامے ‘العقیدة
الطحاویة (متن)جبکہ درجہ عالیہ سال دوم میںترجمہ قرآن مجید از ابتداءتا ختم
سورہ توبہ،مشکوٰة جلد اول،مشکوٰة جلد ثانی مع خیر الاصول،ہدایہ جلد
اول،نورالانوار( از ابتداءتا آخرکتاب اللہ)، شرع عقائداز عذاب قبر تا آخر‘
علوم القرآن حصہ اول باب اول۔ حصہ دوم باب اول و دوم شامل ہیں ۔
درجہ عالمیہمنتخبات جلالین شریف جلد اول ‘ سورة البقرہ اور سورة النساء،جلد
ثانی سورة الاحزاب والنور و لقمان والطلاق والتحریم وربع آخر جز پارہ عم مع
سورہ فاتحہ، التبیان فی علوم القرآن از ابتداءتا آخر فصل را بع۔ تیسیرمصطلح
الحدیث دکتور محمود الطحان۔ مختصراسلام اور تربیت اولاد مولفہ ڈاکٹر حبیب
اللہ مختار شہید،ہدایہ جلد ثانی ماسوائے کتاب العتاق و السیر والحدود،
طحاوی کتاب الطہارہ ‘ کتاب الصلوٰة ،موطاءامام محمد ازکتاب النکاح تاآخر
کتاب العقیقہ ،جامع ترمذی (ج۔۲) باستثناءکتاب العلل۔سنن ابوداﺅد جلد اول
جبکہ درجہ عالمیہ سال دوم میں صحیح بخاری(دونوں جلدیں )صحیح مسلم دونوں
جلدیں ماسوائے مقدمہ کے ،ابو داود جلد دوم اور جامع ترمذی جلد اول شامل
نصاب ہیں
(جاری ہے)
وفاق کی مجلسِ عاملہ کے دیگر اہم فیصلے
وفاق المدارس کی نصابی کمیٹی کے دوروزہ مسلسل اجلاسوں اور بعد ازاں مجلسِ
عاملہ کے اجلاس میں چند دیگر اہم امور کے بارے میں بھی بہت اہم فیصلے کیے
گئے۔مثال کے طور پرتجوید کے حوالے سے اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے ہاں ایک
عرصے سے مختلف صورتوں میں محنت جاری تھی۔ مختلف اداروں میں تجوید کے ایک
سالہ اور دو سالہ کورسز کا انعقاد بھی کروایا جاتا تھا لیکن اس سلسلے کو
کسی باقاعدہ سسٹم کے تحت لانے کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی
۔تجوید کا باقاعدہ نصاب مرتب نہ ہونے اور اس شعبے کوو فاق المدارس کی
باضابطہ سرپرستی حاصل نہ ہونے کے باعث تجوید کے شعبہ کی طرف رجحان مین بھی
خاصی کمی دیکھنے میں آرہی تھی اور اس شعبے کے اہتمام وانتظام میں بھی
کمزوریاں پیدا ہونے لگی تھیں۔اسی طرح بہت سے مدارس میں اس شعبے پر خصوصی
محنت کا سلسلہ جاری تھا لیکن اس کے باوجود ان کی سند کو کوئی خاص اہمیت
نہیں دی جارہی تھی اور اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ تجوید کے شعبے
میں ملک بھر میں یکسانیت کا فقدان تھا ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے
تفصیلی مشاورت کے بعد علماءکرام کے لیے ایک سالہ اور حفاظ کے لیے دو سالہ
کورس کی منظوری دی گئی ہے جس کا وفاق المدارس کی طرف سے باقاعدہ امتحان لیا
جائے گا اور وفاق المدارس کی طرف سے ہی تجوید وقرات کی سند جاری کی جائے گی
۔ اس مرتبہ اجلاس میں تجوید کے حوالے سے ایک عرصے سے خدمات سر انجام دینے
والے نامور قراءکرام کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ۔جن میں لاہور سے
قاری احمد میاں تھانوی صاحب اور فیصل آباد سے مولانا قاری یٰسین صاحب بطور
خاص قابل ذکر ہیں،اس بات کا بھی اہتمام کیا گیا کہ مصری اور پانی پتی دونوں
لہجوں کے حوالے سے شہرت رکھنے والے حضرات کی آراءکو سامنے رکھا گیا۔
تجوید وقرآت کے لیے مقرر کیے گئے دونوں کورسز کے نصاب کی تفصیل کچھ یوں ہے
۔تجوید میں علماءوفضلاءکے ایک سال نصاب میں معلم التجوید (قاری شریف
صاحب)،تفہیم الوقوف( مولانا قاری محمد اسماعیل صاحب)،المقدمہ الجزریہ مع
تشریحات و حفظ ابیات۔ مقدمہ جزریہ کی تشریح کے لئے (۱)مولانا قاری اظہار
احمد تھانوی کی شرح جزری (۲) قاری شریف احمد کی شرح جزری (۳) قاری رحیم بخش
صاحب کی العطایا الوھبیہ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ حدر مکمل قرآن
مجید،ترتیل پارہ عم مع حفظ،صفحات فی علوم القراءا ت دکتور عبدالقیوم بن
عبدالغفور السندی شامل نصاب ہوں گی اور دفاع قرا ءات مولانا قاری محمد طاہر
رحیمی ؒ کو مطالعہ کی غرض سے منتخب کیا گیا ہے ۔
جبکہ حفاظ کے دوسالہ تجوید وقرآت کورس میں خلاصة التجوید بعدہ جمال
القرآن،جامع الوقف مع معرفة الوقوف مولفہ مولانا قاری محب الدین احمد
لکھنوی ؒ،حدر ابتدائی دس پارے ،ترتیل پارہ ۹۲ و ۰۳،مفتاح القرآن دو
حصے،تعلیم الاسلام دو حصے مع سیرة الرسول اور سال دوم میں فوائد
مکیہ،المقدمة الجزریہ مع ترجمہ و حفظ ابیات،حدر آخری بیس پارے،ترتیل چالیس
منتخب رکوعات مع عملی اجرائ، قواعد تجوید ،مفتاح القرآن آخری تین حصے
اورتعلیم الاسلام آخری دو حصے مع سیرة خاتم الانبیاءشامل ہیں۔
اسی طرح اس سال مجلس عاملہ کے اجلاس میں درسِ نظامی کے عمومی نصاب کا
معاملہ بھی زیرِبحث آیا لیکن چونکہ اس معاملے میں نصابی کمیٹی کے کام کا
سلسلہ جاری ہے اور ملک بھر سے نصاب کے حوالے سے سفارشات اور آراءوتجاویز
بھی آرہی ہیں اس لےے یہ فیصلہ ہوا کہ صفر المظفر 1433ھ تک نصاب کمیٹی بنین
کے عمومی نصاب کے حوالے سے اپنی سفارشات اور تجاویز مرتب کر کے مجلس عاملہ
کے سامنے پیش کرے گی اور اس کے بعد اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے
گا۔
اس موقع پر دستور کمیٹی کے کام کا بھی اجمالی جائزہ لیا گیا لیکن چونکہ
دستور کمیٹی کا کام بھی ابھی نامکمل ہے اس لیے وفاق المدارس کے دستور کو
موجود ملکی اور عالمی حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے دستور کمیٹی کو مزید
موقع دیا گیا کہ وہ اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے کر مجلس عاملہ کے اگلے
اجلاس میں پیش کرے۔
اجلاس کے دوران وفاق المدارس کے ترجمان مجلہ ماہنامہ وفاق المدارس کو مزید
موثر،مفید اور مقبول بنانے کے لیے کچھ رہنمااصولوں کی منظوری بھی دی گئی جو
ماہنامہ وفاق المدارس کے آئندہ شمارے میں شائع کر دیے جائیں گے ۔
وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں موجودہ ملکی اور عالمی حالت پر
گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور امت مسلمہ کو بالعموم اور پاکستانی قوم کو
بالخصوص مسائل ومشکلات کے اس گرداب سے نجات دلانے کے لیے علماءکرام سے اپنا
کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی۔ قدرتی آفات،سیلاب اور ڈینگی جیسے مسائل
کے حوالے سے گہری فکرمندی کا اظہار کیا گیا اور ارباب مدارس کے نام ہدایات
جاری کی گئیں کہ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے دُکھی بھائیوں ،بہنوں اور
بچوں کی مدد ،کفالت اور معاونت کا خصوصی طور پر اہتمام کریں۔اس موقع پر
عوام الناس سے رجوع الی اللہ اور اپنی اصلاح کی اپیل کی گئی جبکہ حکومت سے
مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان میں
بنیادی تبدیلی لانے کا اہتمام کرے تاکہ ملک وملت کا مقدر بدلا جاسکے ۔
اس موقع پر بعض وزراءکی طرف سے وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے غیر ذمہ دارانہ
بیانات کی بھی شدید مذمت کی گئی اور ان کے بیانات کو غیروں کے عزائم اور
ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا گیا ۔الغرض مجموعی طور پر وفاق المدارس
کی مجلس عاملہ اور نصابی کمیٹی کے تین روز ہ اجلاس بہت بھرپور اورمفید رہے
۔اس موقع پر جن امور پر مشاورت ہوئی اور جن کے بارے میں فیصلے کیے گئے اللہ
رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان امور کو امت مسلمہ کے لیے نافع
بنائے اور ہم سب کے لیے خیر کا ذریعہ بنائے ۔آمین |