بیٹیاں معاشرے میں خدا وندِ متعال کی رحمتِ عظیم لیکن بد
قسمتی کہ معاشرے میں ہی تعداد میں نمک کے برابر رینگتے بچھو اور سانپوں کے
ساتھ ساتھ دندناتے خنزیروں کی حوس کا نشانہ بننے کے بعداکثر جان سے ہاتھ
دھو بیٹھنا بیشتر نہ ختم ہونے والی مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے
یقینا اردگرد نظر دوڑائیں تو واضح ہو گا خواتین کو حقوق نہ ملنا ایک سنگین
مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ بیٹیاں ہمیشہ عصمت دری کا شکار رہی ہیں اور رہتی
رہیں گی
یقینا کہیں س اور کہیں ش، کہیں Y تو کہیں Z درندوں کی حوس کا شکار بن چکی
ہیں اور تو اور دنیا بھر میں ہزاروں ایف آئی آر بھی درج تو ضرور ہوتی ہیں
لیکن نتیجہ صفر کیونکہ زیادہ تر مقدمات میں بیٹی پر تہمت باندھ کر مقدمہ
خارج کر دیا جاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہی ہے کہ بیشتر بیٹیاں عدم تحفظ کے باعث تعلیم، صحت اور ترقی
کے میدان میں پیچھے بلکہ بہت پیچھے رہ جاتی ہیں کیونکہ خوف، تشویش اور عدم
تحفظ کے باعث ان کے والدین ایسا Risk ہی نہیں لینا چاہتے کہیں خدا نخواستہ
ان کی عزت پر حرف آئے یا کوئی انگلی اٹھائی جائے اور یوں نجانے کتنی بیٹیاں
تعلیم جیسے قیمتی زیور سے محروم ہو جاتی ہیں بلکہ ان کی آنکھوں میں سجے
خوابوں کی مالا ٹوٹ بکھر کر آنکھوں کے رستے آنسوؤں کی صورت بہہ جاتی ہے اور
اگر کہیں والدین اپنے گھر، خاندان یا معاشرے سے مقابلہ کر کے بیٹی کو تعلیم
جیسے گوہرِ نایاب سے روشناس کروانے کی ٹھان ہی لیں تاکہ مستقبل میں ان کی
گود سچ میں پہلی درسگاہ ثابت ہو تو آپ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ اکثر و
بیشتر روحانی باپ ہی اپنی شاگردہ کو کسی نہ کسی طوراپنے حوس زدہ شکنجے میں
پھنسا لیتا ہے
میرا تعلق جنت نظیر وادی پاکستان سے ہے جس کی بنیاد ”لا الہ الا اللہ“ وجود
”محمد الرسول اللہ“ اور آئین ریاست مدینہ ہے چونکہ اسلام نے بیٹی کو تعلیم
و تربیت، عزت و احترام اور برابری جیسے حقوق سے نوازہ ہے لیکن ہماری ریاست
خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے اور اداروں کی عدم توجہ میرے ملک کی بیٹیوں پر
ظلم ڈھانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑرہی اور یوں حقوق نسواں قانون بننے کے
باوجود ان پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے اور اسی وجہ سے میرے ملک کی
بیٹیاں خنزیروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حکومت کی عدم توجہ اور اداروں کی سست روی اس
بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں بیٹیوں کے
تحفظ و حقوق کی پاسداری سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
بیشک ہماری ریاست کو سمجھنا ہو گا کہ بیٹیوں کی حفاظت، حقوق نسواں کی
پاسداری اور خود مختاری کا احترام کروانااولین ترجیح ہونے کے ساتھ ساتھ
معاشرتی تبدیلی کے لئے اہم جز ہے اور ہماری بھی اجتماعی ذمہ داری یہی ہونی
چاہئے کہ سب سے پہلے اپنی سوچ کو بدلنے کے ساتھ بیٹیوں کی حقیقی قدر جانیں
تاکہ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کو عملی جامہ پہنا سکیں اور ایک محفوظ اور
خوشحال زندگی گزار سکیں کیونکہ بیٹیاں تو سب کی ہوتی ہیں۔
|