اسلامی تعلیمات پرکھنے کے معروضی معیارات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
اگر ہم اسلامی نقطہ نظر کی عقلی بنیادوں پر توثیق کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں معروضی سچائی اور جھوٹ، حق اور باطل کو عقل کی روشنی میں جانچنا ہوگا۔ اس تناظر میں، کچھ اہم فلسفیانہ اور عقلی اصولوں کی تفصیل پیش کی جائے گی جو ہمیں حق و باطل کی معروضیت کی پہچان میں مدد دیتے ہیں، اور یہ اصول کس طرح اسلامی نقطہ نظر کی توثیق کرتے ہیں۔

سب سے پہلے، منطق اور تضاد کا اصول ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ عقل کا یہ اصول بیان کرتا ہے کہ دو متضاد باتیں ایک ساتھ سچ نہیں ہو سکتیں۔ یعنی اگر ایک بات سچ ہے تو اس کا الٹ جھوٹ ہوگا۔ یہ اصول ہر حقیقت پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ مادی ہو یا غیر مادی۔ اگر ہم حق کو سچائی کے طور پر دیکھیں تو اس کا متضاد باطل ہوگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ سچائی اور جھوٹ کا یہ فرق منطقی اصول کے تحت معروضی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم کہتے ہیں کہ "اللہ ایک ہے"، تو اس کا متضاد یہ ہوگا کہ "اللہ ایک نہیں ہے"، اور دونوں باتیں ایک ساتھ درست نہیں ہو سکتیں۔ اسلامی تعلیمات میں بھی حق اور باطل کے درمیان ایک واضح فرق موجود ہے، جو اسی منطقی اصول کی بنیاد پر سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت کی گئی ہے، اور عقل کے اس اصول کے تحت ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حق اور باطل ایک ساتھ سچ نہیں ہو سکتے۔

حقیقت کا معروضی وجود بھی ایک اہم اصول ہے، جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ حقیقت ایک بیرونی حقیقت ہے جو انسانی فہم سے آزاد ہے۔ چاہے ہم کسی چیز کو مانیں یا نہ مانیں، وہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔ مثال کے طور پر، زمین کا گول ہونا ایک معروضی حقیقت ہے، چاہے کچھ لوگ اسے تسلیم نہ کریں۔ حق کو اس معروضی حقیقت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو ہماری رائے یا تصورات سے بالاتر ہے۔ اس اصول کی بنیاد پر، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حق کی پہچان ممکن ہے اور یہ ہمیشہ ثابت شدہ حقیقت پر مبنی ہوگی۔ اسلامی نقطہ نظر میں بھی حق کا تصور اسی معروضی حقیقت پر مبنی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات ایک معین نظام اور حکمت کے تحت بنی ہے، اور یہ نظام اللہ کی حکمت کی عکاسی کرتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ حق کی معروضی حقیقت اسلامی تعلیمات میں موجود ہے۔

عقلی اصول کی عمومی صداقت کا تصور بھی اہم ہے، کیونکہ کچھ اصول عالمی اور عمومی ہیں، جیسے انصاف اور سچائی۔ یہ اصول مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں یکساں طور پر سمجھے جاتے ہیں، اور انصاف ہر معاشرے میں ایک اعلیٰ قدر کے طور پر مانا جاتا ہے۔ ان عالمی عقلی اصولوں کی بنیاد پر ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ حق و باطل کے درمیان فرق معروضی اور عالمی ہے۔ اگر کوئی عمل ظلم پر مبنی ہے تو وہ ہر معاشرے میں برا تصور کیا جائے گا، اور اسی طرح حق کا معروضی معیار وہ اصول ہیں جو عقل سے واضح ہوتے ہیں۔

اخلاقیات کا معروضی معیار بھی ایک اہم پہلو ہے، جو بیان کرتا ہے کہ کچھ اعمال درست یا غلط ہوتے ہیں، چاہے کوئی انہیں مانے یا نہ مانے۔ مثال کے طور پر، بے قصور کا قتل ہر حالت میں غلط ہوگا۔ اس اصول کے تحت، ہم اخلاقیات کے ایک معروضی معیار کو تسلیم کرتے ہیں جو سچائی اور جھوٹ، حق اور باطل کا فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی اخلاقیات کے اصول معروضی ہیں، جہاں اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام، عدل و ظلم، اور خیر و شر کے درمیان فرق واضح کیا ہے۔

فطرت اور عقل کی گواہی بھی اس تناظر میں اہم ہے۔ انسانی فطرت اور عقل ہمیں سچائی کی طرف لے جاتی ہے، کیونکہ انسانی فطرت سچائی اور انصاف کو پسند کرتی ہے اور ظلم سے دور بھاگتی ہے۔ یہ فطری رجحان معروضی طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ حق و باطل کا فرق فطری اور عقلی سطح پر موجود ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت کے مطالعے کی دعوت دی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ فطرت حق کی گواہی دیتی ہے۔
مجموعی طور پر، عقلی نقطہ نظر سے معروضی سچائی، حق اور باطل کا فرق واضح کیا جا سکتا ہے۔ عقل کے اصول، معروضی حقیقت، اور فطرت کی گواہی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حق ایک معروضی حقیقت ہے، جو اللہ کی تخلیق اور اس کے قوانین میں پوشیدہ ہے۔ ان عقلی دلائل کی روشنی میں، اسلامی نکتہ نظر کی توثیق ہوتی ہے، کہ حق و باطل کا فرق نہ صرف مذہبی اعتبار سے بلکہ عقلی طور پر بھی ثابت شدہ ہے۔ یہ تصورات ہمیں اسلام کی سچائی کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

اسلامی نقطہ نظر کی عقلی بنیادوں پر توثیق کرنے کی کوششوں میں، ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حق و باطل کی شناخت میں علم، فلسفہ، اور مذہبی سمجھ بوجھ کا ایک جامع تعلق ہے۔ یہ حقیقت کہ انسانی عقل اور فطرت حق کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حق کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ہمیں محض مذہبی نصوص تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ عقل کے اصولوں اور انسانی تجربات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔

کائنات کی ترتیب اور نظم کو دیکھتے ہوئے، ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز ایک معین نظام کے تحت چل رہی ہے۔ یہ نظام صرف فزیکل یا مادی دنیا تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں اخلاقیات، اقدار، اور انسان کے تعلقات کا ایک وسیع دائرہ بھی شامل ہے۔ جب ہم کائناتی نظم کی بات کرتے ہیں تو یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اس نظم کے پیچھے کون سی حکمت ہے اور یہ ہمیں کہاں لے جا رہی ہے۔ یہ سوالات انسانی عقل کے لیے چیلنج ہیں، لیکن یہ اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب ہم اپنے عقلی دائرے کو مذہبی نقطہ نظر کے ساتھ جوڑیں۔

اسلامی تعلیمات میں اللہ کی صفات، جیسے علم، حکمت، اور رحمت، ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ حق ہمیشہ اس کی تخلیق اور حکمت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ہمیں ایک اخلاقی فریم ورک فراہم کرتا ہے جس میں ہم اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس فریم ورک کے تحت، انسان کو خود کو ایک زیادہ حقیقت پسند اور انصاف پسند معاشرتی وجود کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ یہ امر انسان کو اپنی اخلاقیات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ کیا ہم ان اصولوں کی پاسداری کر رہے ہیں جو حق اور باطل کی تمیز کرنے میں مددگار ہیں۔

دوسری جانب، انسانی تجربات بھی اہم ہیں۔ انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں، جہاں بھی انسانی فطرت کو سچائی اور انصاف کے راستے پر چلایا گیا، وہاں امن، ترقی، اور خوشحالی کی فضا قائم ہوئی۔ اس کے برعکس، جہاں ظلم و ستم، جھوٹ، اور دھوکہ دہی کو رواج ملا، وہاں انسانی معاشرتوں میں عدم استحکام اور بربادی دیکھی گئی۔ یہ انسانی تجربات ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ اخلاقی اصولوں کی پیروی کا نتیجہ ہمیشہ مثبت ہی ہوتا ہے، اور اس کے برعکس، باطل کی پیروی انسانیت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

انسانی عقل کے مطابق، ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ کچھ حقیقتیں ہمیشہ درست رہتی ہیں۔ یہ حقیقتیں انفرادی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہیں، چاہے وہ کسی بھی ثقافت یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ انسانی فطرت میں ایک فطری جھکاؤ سچائی کی طرف ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ سچائی کا راستہ ہمیشہ انسان کے لیے موزوں رہتا ہے۔ جب ہم اپنی زندگیوں میں ان اصولوں کو اپناتے ہیں تو ہم ایک ایسی بنیاد فراہم کرتے ہیں جو ہمیں نہ صرف عقلی طور پر بلکہ روحانی طور پر بھی مضبوط بناتی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں بھی اس بات کی توثیق کی گئی ہے کہ اللہ کی طرف سے دی گئی رہنمائی ہمیشہ انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو فطرت کے راستے پر چلنے کی ہدایت دی ہے اور یہ کہ سچائی کے اصول ہمیشہ انسانی تجربات کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی نقطہ نظر نہ صرف عقلی طور پر درست ہے بلکہ اس کی بنیاد بھی انسانی فطرت اور تجربات پر ہے۔

لہذا، جب ہم اسلامی نقطہ نظر کی توثیق کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ یہ صرف مذہبی تعلیمات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو عقل، تجربات، اور انسانی فطرت کی روشنی میں واضح ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، ہم ایک ایسی دنیا میں رہ سکتے ہیں جہاں حق و باطل کی شناخت نہ صرف ایک نظریاتی معاملہ ہے، بلکہ یہ ایک عملی حقیقت ہے جو ہمیں بہتر انسان بننے میں مدد دیتی ہے۔ یہ تصور ہمیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک مثبت معاشرتی تبدیلی کی ضرورت ہے، تاکہ ہم حق کے اصولوں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال سکیں اور اپنے ارد گرد کی دنیا کو بہتر بنا سکیں۔

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 71644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.