انسانیت انسان کے اعلٰی ہونے کا میعار ہے۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک
اور بھلائی کا مظاہرہ کرنا ۔ دوسروں کی تکالیف اور درد کے خاتمے کے لیے
عملی مظاہرہ کرنا اور انسانیت کا درس دینا۔
سرور کائناتﷺ نے عدل و انصاف کا وہ بلند ترین تصور انسانیت کو دیا جس سے
برتر تصور انسان کےوہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔ آپؐ نے دنیا کو خدائے
ذوالجلال کا ہی پیغام دیا کہ انصاف ہرقسم کی جانبداری سے پاک ہونا چاہیے
خواہ فیصلے کی زد منصف کے اپنے عزیز ، والدین یا اپنی ہی جماعت بلکہ اپنے
ہی اوپر کیوں نہ پڑتی ہو او ریہ کہ دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرنا چاہیے۔
قوله تعالیٰ!
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا
هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى(5: 8)
''اور کسی گروہ کی عداوت (بھی) تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف
نہ کرو۔ عدل کیاکرو کہ وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں انسانوں کو سب سے اچھی شکل و صورت عطا
فرمائی۔ ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے آدمی کو اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا
ہے۔‘‘(سورۂ والتین)اسلام نے اعلان کیا ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں حق جل
شانہ نے انسانوں کے لیے پیدا فرمائی ہیں اور انسان کو اپنی عبادت کے لیے
پیدا کیا ہے۔(ترجمہ)’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے نفع کے لیے زمین کی ساری چیزیں
پیدا کی ہیں۔‘‘ ’’میں نے سب جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے
پیدا کیا ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ)
آنحضورﷺ نے انصاف پرعمل کاثبوت یہ کہہ کر دیا کہ ''اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ
بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ لئے جاتے۔''
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنے فضل و کرم سے عقل و خرد کی بیش بہا دولت سے
نواز اہے، جس کی بدولت وہ ساری کائنات پر حکمرانی کرتے ہیں، عقل و خرد سب
انسانی خوبیوں اور کمالات کا سرچشمہ ہے، ارشاد نبویؐ ہے:اللہ کی تمام پیدا
کردہ چیزوں میں عقل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت ہے۔
مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کے نزدیک اس کی مخلوق میں پسندیدہ وہ شخص ہے،
جو اللہ کے کنبے کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرتا ہو۔ (مشکوٰۃ شریف)قرآن کریم
نے انسانی وحدت و مساوات کے تصور کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے ہی جگہ جگہ
’’یایھا النّاس‘‘ اور ’’یا بنی آدم‘‘ جیسے الفاظ کے ذریعے تمام افراد
انسانی کو اپنے لازوال پیغام کا مخاطب بنایا ہے اور سب کو یکساں طورپر دنیا
و آخرت میں صلاح و فلاح کی دعوت دی ہے، جن افراد نے اس کی دعوت پر لبیک
کہا، انہیں’’ یایّھاالذین آمنوا‘‘سے خطاب کیا گیا، انسانوں میں نسلی یا
طبقاتی امتیاز اور فرق کو روا نہیں رکھا گیا۔
اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب یا تہذیب میں انسانیت نوازی اور عام انسانوں
پر رحم و کرم کا وہ تصور نہیں ملتا،جو اسلام نے پیش کیا ہے، محسن انسانیت ﷺ
ارشاد فرماتے ہیں:’’رحم کرنے والوں پراللہ رحم کرتا ہے ، تم زمین والوں پر
رحم کرو، تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)انسانوں پر رحم و
کرم کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:جنت میں رحم دل
انسان ہی داخل ہوگا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! ہم سب رحم دل ہیں۔
سرکاردوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں! رحم دل وہ ہے جو عام مخلوق پر رحم
کرے۔ (کنزالعمال، ابواب الاخلاق)
ایک بار غیر مسلم کا جنازہ گزر رہا تھا، سرکار دو عالم ﷺ جنازہ دیکھ کر
کھڑے ہوگئے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے،آپﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ موت ایک خوف ناک چیز ہے، پس تم جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجایا
کرو۔دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا:’’اَلیسُت نفساً‘‘
انسان تو یہ بھی ہے۔ (مشکوٰۃ شریف، ص: ۱۴۴۔۱۴۷)
ارشاد نبویؐ ہے:ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو، نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو،
آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، باہمی حسد نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی
بھائی بن جائو۔ (سنن ترمذی)تمام انسان اسلامی تعلیمات کی رو سے بھائی بھائی
ہیں، حسب و نسب اور خاندان و قبائل تعارف اور شناسائی کا ذریعہ ہیں: اور ہم
نے تمہیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں پیدا کیا ہے، تاکہ تم ایک دوسرے کو
پہچانو۔اس لیے کہ اسلام احترامِ انسانیت اور امن و سلامتی کا علم بردار
ہے۔انسان دوستی اور احترام انسانیت دین اسلام کا امتیاز اور بنیادی شعار ہے
،جس کے بغیر احترام انسانیت اور امن و سلامتی کا تصور بھی محال ہے۔
|