__ ابتدائے اسلام کا زمانہ ہے، مکہ کی سرزمین ہے، جو
مسلمانوں پر تنگ کردی گئی ہے، انہیں وہاں کسی بھی طرح کی مذہبی آزادی حاصل
نہیں ہے، اس گھٹن سے تنگ آکر آقا ﷺ نے اپنے چند صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت
کرنے کا حکم دے دیا، وہ پہلے جدہ پہنچے، پھر کشتی کے راستے سے حبشہ کے ساحل
پر اتر گئے، کفار کو پتا چلا تو ان کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے اپنا ایک
وفد وہاں بھی بھیجا تاکہ حبشہ کے بادشاہ وشرفا کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا
جا سکے، اس وقت حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آگے بڑھتے ہیں اور اس
دربار میں ایک موثر خطبہ دیتے ہیں، جس میں اسلام کا تعارف، محمد ﷺ کی بعثت
کا مقصد، اور ان کے آنے سے عرب کے معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور
ساتھ ہی ساتھ اسلام اور عیسائی مذہب کے تقابل جیسے موضوعات شامل ہوتے ہیں،
جس سے وہ بادشاہ بہت متاثر ہوتا ہے اور اس کے دل میں اسلام کی عظمت بیٹھ
جاتی ہے، پھر وہ مزید تحقیق حال کے لیے عیسائی علماء کے ایک وفد مدینہ شریف
بھیجتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر وہ سبھی علماء
اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں!!
لمحۂ فکریہ:
اپنا گھر بار چھوڑ کر ان مہاجرین کا دوسرے وطن میں پناہ لینا، پھر وہاں پر
بھی مکہ کے ایک وفد کا ان کے پیچھے پہونچ جانا، پھر تفتیش کے لیے ان کا
بادشاہ کے دربار میں بلا لیا جانا!! یہ سب وہ باتیں ہیں جو بظاہر اسلام اور
مسلمانوں کے لیے خیر اندیش نہیں تھے، لیکن پھر بھی ان حالات اور مواقع کا
صحیح استعمال کرکے کس طرح ان مہاجرین نے ان کو اسلام کے لیے خیر اندیش بنا
دیا، بادشاہ کے بھرے دربار میں اس نازک وقت کو اسلام کی صحیح تعلیمات
پہنچانے میں استعمال کیا، پورے اطمینان وسکون اور وقار وتحمل کے ساتھ! مذہب
اسلام کا صحیح تعارف بھی پیش کیا اور اپنے مخالفین کے مذہبی جذبات کو ٹھیس
بھی نہیں پہنچائی، جس کا اثر یہ ہوا کہ بادشاہ کے دل میں اسلام کی عظمت
بیٹھ گئی، ان کے علماء کا ایک وفد اسلام میں داخل ہوگیا، اسلام جو کہ اب تک
ایک قصباتی یا پھر شہری مسئلہ تھا ان مہاجرین کے اخلاص، دور اندیشی وطریقہ
تبلیغ سے ایک بین الاقوامی مسئلہ بن گیا!!
ہمارے سیکھنے کی چیز:
اس پورے قضیے میں آج علماء وداعیان کے لیے جو چیز قابل عمل ہے وہ حضرت جعفر
طیار رضی اللہ تعالی عنہ کی یہی تبلیغی پالیسی ہے، ہر طرف سے اسلام پر
اٹھتے ہوئے اعتراض سے بظاہر لگتا ہے کہ یہ اسلام کے لیے مضر ہے، لیکن اگر
علماء وداعیان سوجھ بوجھ سے کام لیں تو انہیں حالات کو اسلام کی تبلیغ کا
ایک موثر ذریعہ بنا سکتے ہیں، کیوں کہ ہر اٹھنے والا سوال ایک جواب کا
متلاشی ہوتا ہے، ہر شبہ ایک بہترین علمی ازالہ کا منتظر ہوتا ہے، یہ ہمارے
داعیان کے ذوق پر ہے کہ وہ ایسے موقع کو اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بناتے
ہیں، یا محض احتجاجات پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں!!
المرسلہ: مدرسۃ الامام الماتریدی للدراسات العلیا ،
جامعۃ الرضا برکات العلوم،مالیگاؤں
|