میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہماری زندگی میں کئی مرتبہ ایسے واقعات اور حادثات رونما ہوتے ہیں کہ ہم
بغیر سوچے سمجھے اپنی تقدیر پر اس کا الزام لگا دیتے ہیں کہ ہماری تو قسمت
ہی خراب ہے یا یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہی ہونا تھا اور بعض
اوقات لوگ کفریہ کلمات بھی زبان سے نکال دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دائرئہ
اسلام سے خارج بھی ہو جاتے ہیں لیکن انہیں دین سے دوری اور دین کے علم سے
واقفیت نہ ہونے کے سبب اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا اور جب تک وہ توبہ کرکے
دوبارہ تجدید ایمان نہیں کرلیتے تب تک وہ شرعی مسلمان نہیں ہوں گے اب چاہے
وہ کتنی ہی عبادات کریں جبکہ ان حادثات اور واقعات میں اللہ تعالیٰ کی حکمت
، مصلحت اور منشاء پنہاں ہوتی ہے اگر ہم یہ سوچ لیں کہ جو رب اپنے بندوں سے
ان کی مائوں سے 70 گنا زیادہ پیار کرتا ہو وہ رب اپنے بندوں پر بغیر اپنی
مصلحت کے کوئی مصیبت کیوں نازل کرے گا بندہ تو بندہ وہ رب تو اپنی تمام
مخلوق کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرتا ہے اس میں اس کی مصلحت کار فرما ہوتی
ہے اب چاہے وہ کوئی جانور ہو یا پرندہ یا انسان اس رب کے ہر فیصلے میں کوئی
نہ کوئی مصلحت ضرور کار فرما ہوتی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ
اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سب کام نیک ہیں اورسب میں مصلحت و
حکمت ہے ،اللہ تعالیٰ نے مصلحت اور حکمت کے علوم اپنے بندوں پر مخفی رکھیں
ہیں ،ان علوم میں وہ منفرد ہے پس رضا تسلیم اور بندگی میں مشغول رہنا اور
امر و نہی بجا لانا ،تقدیر کے سامنے گردن جھکا دینا ،امور قدرت میں دخیل نہ
ہونا ،ایسا کیوں ہوا ؟ کیسے ہوا ؟ کب ہوا ؟ ایسے اعتراضات سے خاموش رہنا
اور اپنے تمام حرکات و سکنات میں تہمت حق سے چپ رہنا بندے کے لئے مناسب
لائق ہے اور ان تمام باتوں کی سند حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی
وہ حدیث ہے جو عطاء نے اُن سے روایت کیا ہے،
فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا ،اچانک
آپ نے مجھےفرمایا :اے لڑکے! حقوق اللہ کی حفاظت کر ،اللہ تیری حفاظت کرے گا
تو اللہ پر اپنی نگاہ رکھ اسے اپنے سامنے پائے گا جب سوال کر خدا سے سوال
کر ،اور مدد مانگے تو خدا سے مانگ جو کچھ ہونے والا ہے اس کو لکھ کر قلم
خشک ہوگیا ہے اگر ساری مخلوق جمع ہوکر کوشش کرے کہ تجھے وہ چیز بہم پہنچا
دیں جو اللہ نے تیرے مقدر میں نہیں رکھی ،تو وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکیں گے
اور اسی طرح اگر سارا جہان تجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے مگر اللہ تعالیٰ
کی لکھی تقدیر میں تیرے لئے وہ نقصان نہیں ہے تو تیرا کچھ بھی نہیں بگاڑ
سکے گا پھر اگر ایمان کی سچائی کے ساتھ نیک عمل کرسکتا ہے تو کر ،اور اچھی
طرح جان لے کہ صبر کا پھل میٹھا اور دکھ کے بعد ہمیشہ سکھ ہوتا ہے “ ۔۔۔۔
ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حدیث کو دل کا آئینہ اور ظاہر و باطن
کا لباس بنائے ۔اپنی ہر حرکت و سکون میں اس حدیث پر عمل کرے تاکہ دنیاوی
اور اخروی آفات سے صحیح سالم رہے اور دونوں جہانوں میں رحمت الٰہی کا مستحق
قرار پائے ۔۔
(فتوح الغیب مقالہ نمبر 42)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ رب العزت کی اپنی تمام مخلوقات کے لئے
کئے جانے والے فیصلوں میں مصلحت صرف اس شخص کی بھلائی کے لئے ہوتی ہے بغیر
مصلحت اور بغیر منشاء کے اللہ تعالیٰ کا کوئی فیصلہ فیصلہ نہیں ہوتا وقتی
طور پر انسان جذبات میں آکر اس کو غلط رنگ دے دیتا ہے لیکن جب تسلی سے
سوچتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں رب العزت کی مصلحت اور منشاء
کارفرما ہوتی ہے اب دیکھیں ایک بہت بڑا بحری جہاز اچانک کسی حادثے کا شکار
ہوکر ڈوب جاتا ہے جہاز میں موجود سارے ہی لوگ جہاز کے ساتھ ڈوب کر ہلاک ہو
جاتے ہیں لیکن ایک شخص معجزاتی طور پر بچ کر ایک جزیرے پر تیرتا ہوا
آ نکلتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کی حالت بہت خراب ہوتی ہے اور وہ بیہوش
ہوجاتا ہے پھر جب اسے ہوش آتا ہے تو وہ یہاں سے نکلنے کے لئے راستہ ڈھونڈتا
ہے لیکن اسے اس جزیرے سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا لہذہ مجبور ہوکر
وہ یہاں پر موجود درخت پر لگے پھلوں سے گزر بسر کرکے رہنے لگا اور پھر اس
نے درختوں کی لکڑیاں کاٹ کر اپنے لئے ایک جھونپڑی بنالی اور اس میں رہنے
لگا ایک دن وہ جنگل میں پھل توڑنے گیا اور جب واپس آیا تو دیکھا کہ اس کی
جھونپڑی میں آگ لگی ہوئی ہے اور دھواں آسماں سے باتیں کررہا ہے تو اسے بہت
دکھ ہوا اور وہ کہنے لگا کہ اے خدا یہ کیسا امتحان ہے وہ اپنی جھونپڑی میں
آگ لگتے ہوئے دیکھ کر افسردہ ہوگیا اور پھر وہیں سو گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ایک
بحری جہاز وہاں موجود ہے تو وہ خوشی سے کھڑا ہوا اور اس کی طرف دوڑا اور
یوں اس تک پہنچ کر اس میں سوار ہوگیا اور جہاز اسے لیکر وہاں سے روانہ
ہوگیا پھر اس نے اس بحری جہاز والوں سے پوچھا کہ وہ اس طرف کیسے پہنچے تو
انہوں نے بتایا کہ ہمیں دور سے دھواں نظر آیا تو ہم سمجھ گئے کہ کوئی مدد
کے لئے یہاں موجود ہے لہذہ ہم یہاں پہنچ گئے یہ سن کر وہ رونے لگا اور
آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا کہ اے مالک و مولا میری جھونپڑی میں آگ کا
لگنا پھر اس کے نکلنے والے دھویں کو دیکھ کر ان لوگوں کا یہاں پہنچنا اور
مجھے یہاں سے بچ کر نکالنا ان تمام معاملات میں تیری مصلحت تھی تو نے میری
مدد کی بیشک تیرے ہر کام میں ہماری بھلائی ہے اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ
ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے ہمیں اس پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ اس
میں ہمارے لئے کوئی نہ کوئی بھلائی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہوتی ہے
بس رب تعالی کی ذات پر مکمل بھروسہ اور ایمان پختہ ہونا چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک چڑیا نے بڑی محنت سے ایک ایک تنکا جوڑ
کر ایک درخت پر اپنا گھونسلہ تعمیر کیا وہ روزانہ صبح ہی صبح وہاں سے اڑ کر
چلی جاتی اور واپسی میں بچوں کے لئے کھانا اور تنکے لے کر آجاتی ایک دن جب
وہ شام کو واپس آئی تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ گھونسلے میں سو گئی رات کا پہر
تھا ایک زبردست طوفان آیا اور اس کے گھونسلے کو تباہ و برباد کرکے چلاگیا
اس چڑیا نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ رونے لگی اور رب تعالی سے شکایت کرنے
لگی کہ اتنی محنت سے میں نے اپنا گھونسلہ بنایا تھا اور تو نے طوفان بھیج
کر اسے تباہ کردیا تب آواز آئی کہ اے چڑیا جب تو اپنے بچوں کے ساتھ سو رہی
تھی تو عین اس وقت ایک سانپ وہاں آگیا لہذہ میں نے طوفان اس لئے بھیجا کہ
تم جاگ جائو اور بچوں کو لیکر یہاں سے پرواز کرجائو تاکہ تمہاری جان محفوظ
رہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بعض اوقات ہماری زندگی میں بھی کئی مشکلات
اور مصیبتیں آتی ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کرنے لگتے ہیں
حالانکہ انسان کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس پریشانی یا مصیبت میں رب تعالی کی
کیسی مصلحت چھپی ہوئی ہے جب ہی تو قرآن مجید کی سورہ البقرہ میں ارشاد باری
تعالی ہے کہ " تم نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں " ( آیت نمبر 216) بیشک رب
تعالی کی مصلحت رب تعالی ہی جانتا ہے یہ ہم انسانوں کے بس کی بات نہیں اللہ
رب العزت کے ہر اس فیصلے میں جو وہ اپنی مخلوقات کے لئے کرتا ہے اس میں اس
کی منشاء اور مرضی شامل ہوتی ہے اور اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مصلحت
کارفرما ہوتی ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک غریب مزدور جو روز کی دھاڑی پر کام
کرتا تھا اس کی بیٹی نے کیتلی میں دودھ گرم کیا اس کا ڈھکن کھول کر تھوڑی
دیر کے لئے ٹھنڈا ہونے کے لئے چھوڑ دیا تھوڑی دیر بعد آئی ڈھکن بند کیا
کیتلی اٹھائی اور باہر کی طرف چل دی ابھی وہ باہر کی طرف پہنچی ہی تھی کہ
اس کا پیر پھسلا اور وہ کیتلی اس ہاتھ سے چھوٹ گئی اس میں موجود سارا کا
سارا دودھ زمین پر پھیل گیا اس کا باپ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور اس نے
آسمان کی طرف اپنے رب سے شکایت بھری نظروں سے دیکھنے لگا اور کفریہ کلمات
ادا کرنے لگا پھر اچانک اس نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ ایک بلی کہیں سے دودھ
کی خوشبو سونگھتی ہوئی وہاں پہنچی اور لگی اس دودھ کو چاٹنے لیکن تھوڑی دیر
بعد وہ بلی تڑپنے لگی اچھلنے لگی یہ دیکھ کر وہ مزدور اٹھا اور بلی تک
پہنچا لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ بلی دم توڑ گئی اسے حیرت ہوئی لیکن
پھر اسے کچھ شک ہوا کہ کہیں دودھ میں کوئی زہریلی چیز تو نہیں اور اس نے
جوں ہی کیتلی کے اندر دیکھا تو اس میں ایک چھپکلی مری ہوئی پڑی تھی اس نے
سوچا کہ اگر اس کی بیٹی کا پیر نہ پھسلا ہوتا اور دودھ زمین پر نہ گرتا تو
کیا ہوتا تب اسے یہ احساس ہوا کہ میرا رب کتنا بڑا ہے ندامت کے آنسو چھما
چھم اس کی آنکھوں سے گرنے لگے وہ سجدہ ریز ہوکر اپنے رب سے معافی مانگ رہا
تھا کہ مجھے معاف کردے مجھے معلوم ہوگیا کہ تیرے ہر کام میں ہماری بھلائی
ہے ہر کام کے پیچھے تیری کوئی نہ کوئی مصلحت کارفرما ہوتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو
ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے متعلق بھی
معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں بھی ایسے مواقع آئے جب اللہ تعالیٰ نے
اپنی مصلحت کے تحت ان کےلئے فیصلے کئے ایک دفعہ اللہ باری تعالیٰ نے ملک
الموت سے پوچھا کہ تمہارا کام ہے لوگوں کی روح قبض کرنا کیا کبھی ایسا ہوا
کہ تمہیں کسی کی روح قبض کرتے وقت بڑا رحم آیا ہو بڑا ترس آیا ہو تو ملک
الموت نے کہا ہاں میرے مالک مجھے دو جگہوں پر بڑا دکھ ہوا اور بڑا ترس آیا
مگر میں تیرے حکم کے ہاتھوں مجبور تھا پوچھا وہ کون کون سے مواقع تھے تو اس
نے عرض کیا کہ ایک دفعہ ایک عورت اور اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بچہ دریائی
طوفان سے بچ کر ایک تختے پر بیٹھ کر سمندر میں تیرتے ہوئے جا رہے تھے اور
تو نے اس عورت کی روح قبض کرنے کا مجھے حکم دیا میں نے سوچا کہ اس چھوٹے سے
بچے کا اس عورت کے سوا کوئی نہیں ہے جو ہل بھی نہیں سکتا اگر اس عورت کی
روح قبض کرلی گئی تو اس بچے کا کیا ہوگا ؟ مجھے اس وقت اس بچے پر بہت ترس
آیا لیکن میں مجبور تھا اور دوسرا باری تعالی وہ بادشاہ جس نے ایک بہت
خوبصورت شہر تعمیر کروایا جسے اس نے اپنی آرزوئوں اور خواہشوں سے بنوایا
تھا اور پھر جب ایک قافلے کے ساتھ اسے دیکھنے کے لئے گیا تو جب اس نےپہلا
قدم اپنے شہر میں رکھا تو مجھے حکم ہوا کہ دوسرا قدم رکھنے سے پہلے اس کی
روح قبض کرلی جائے مجھے اس وقت اس بادشاہ پر بڑا ترس آیا میں سوچنے لگا کہ
وہ بادشاہ اپنے دل میں کیا کیا حسرتیں لیکر گیا ہوگا ملک الموت کی بات سن
کر اللہ رب العزت نے فرمایا کہ تمہیں دونوں مرتبہ ایک ہی شخص پر رحم آیا
کیونکہ یہ بادشاہ ہی وہ بچہ تھا وہ بچہ جس کو میں نے سمندر کی تیزوتند
لہروں اور طوفان سے بچا کر رکھا اور اسے اتنا نوازا کہ اسے بادشاہ بنادیا
لیکن وہ اس مقام پر پہنچ کر میری تابعداری سے منہ پھیر بیٹھا اور تکبر اور
غرور کی وجہ سے اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھا وہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ وہ "
شداد" تھا جو بالآخر اپنی سزا کو پہنچا۔ بظاہر اس واقعہ سے ہمارے اندر بھی
وہ ہی سوچ اور خیالات پیدا ہوتے ہیں جو عین روح قبض کرتے وقت حضرت عزرائیل
علیہ السلام کے ذہن میں پیدا ہوئے تھے لیکن جب اس کی گہرائی میں جاکر غور
کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس رب تعالی کی مصلحت کے آگے ہم بالکل بے بس
ہیں اور اس کی اس مصلحت میں ہماری بھلائی ہی پوشیدہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس پوری کائنات میں آباد مسلمان یہ بات
بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن صرف اور صرف شیطان ہے اور یہ بات
ہمیں قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر کہی ہے کہ " بیشک شیطان
تمہارا کھلا دشمن ہے " لیکن اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں صحابہ کرام
علیہم الرضوان کی زندگیوں کو پڑھیں اور اولیاء کرام اور بزرگان دین کی
زندگی کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا وار بھی
وہاں اثر کرتا ہے جہاں ایمان کی کمزوری ہو کیونکہ شیطان کو یہ معلوم ہے کہ
میرا وار کب کہاں اور کس پر کامیاب ہوگا اس مردود نے کئی انبیاء کرام علیھم
السلام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان ، اولیاء کرام اور بزرگان دین پر وار
کرنا چاہے لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسے علم تھا کہ یہ
اللہ تعالی کے مقرب اور محبوب بندے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں مجھ سے بچانے
کے لئے سارے انتظامات کر رکھے ہیں اور ان کے اندر موجود ایمان کی طاقت
انہیں مجھ سے بچا کر رکھتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ پاک کے کاموں میں کوئی نہ کوئی بہتری
ہوتی ہے۔ اس بات کو حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ نے
اپنی مشہور زمانہ کتاب کشف المحجوب میں یوں بیان کیا ہے ’’اللہ تعالیٰ
کےفیصلے الل ٹپ نہیں ہوتے‘‘ یعنی ان فیصلوں کے پس پردہ کوئی حکمت، کوئی
بہتری اورکوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں بارہا اس اصول
یا یقین کو سو فیصد درست نکلتے اور صحیح ثابت ہوتے دیکھا ہے۔ یہ الگ بات کہ
بعض فیصلوں کی حکمت آج تک سمجھ میں نہیں آئی لیکن سچ تو یہ ہے کہ خدائی
فیصلوں کی ہر بارحکمت سمجھنا ضروری بھی نہیں اور آسان بھی نہیں ۔ میرا
ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جن واقعات یا خدائی فیصلوں کی حکمت یاان میں مضمر
بہتری سمجھ میں آئی وہ میرے رب کی منشا تھی کہ وہ مجھے سمجھائے ورنہ انسان
خدائی معاملات میں بے بس ہوتا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ رب العزت کے کسی بھی فیصلے کے پیچھے
جو مصلحت کارفرما ہوتی ہے اس رب تعالی نے ان مصلحتوں کے آگے اپنے انبیاء
کرام علیہم السلام کو بھی اجازت نہیں دی کی وہ اس سے بات کریں اگر ہم تاریخ
اسلام کا مطالعہ کریں یا قرآن کا ہی مطالعہ کریں تو ہمیں اس رب تعالی کی
مصلحت ومنشاء کی بیشمار مثالیں اس کی تفسیر میں نظر آئیں گی اب دیکھیں دو
جہاں کے مالک اور اللہ تعالی کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہونے
کے باوجود گھر میں کئی کئی دن تک فاقوں کا ہونا ، کربلہ کے رونگٹے کھڑے
کردینے والے واقعہ کا رونما ہونا ، حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا اپنے
سات بچوں کو اپنے سامنے دنیا سے رخصت ہوتے دیکھنا اور ایک بیٹی حضرت فاطمتہ
الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بچ جانا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا دوست اور رفیق بننا ، حضرت
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام میں داخل ہونا ، حضرت عثمان غنی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ہونا ، حضرت
علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے داماد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہونا،
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت آدم علیہ السلام کا جنت سے نکلنا اور
پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کی قبولیت ہونا ، حضرت
ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کے آگ میں ڈالے جانے سے لیکر آگ کا حضرت
ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈا ہونا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صندوق میں
دریا سے گزر کر فرعون کے محل تک پہنچنا اور پھر وہیں پر پرورش پانا ، حضرت
ایوب علیہ السلام کے بیماری میں سب کچھ ختم ہوجانا، حضرت یوسف علیہ السلام
کا ان کے بھائیوں کے کنوے میں پھینک دینا پھر مصر کے بادشاہ کے منصب پر
فائز ہونا ، حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کے مشہور واقعہ کا ذکر ہونا ،
حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں جانا اور پھر زندہ باہر آجانا ،
حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان سے بچ کر نکلنے کے لئے کشتی بنانے کا حکم
ہونا ،
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ تو بہت مختصر واقعات ہیں جن کا میں نے
یہاں ذکر کیا ہے اور جو ہمیں قرآن مجید میں بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں
اور ان تمام واقعات میں ہمیں صرف ایک ہی بات نظر آتی ہے اور وہ ہے رب العزت
کی مصلحت بظاہر ہمارے درمیان کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو ان واقعات کو سن کر
یا پڑھ کر عجیب و غریب سوالات کرنے لگتے ہیں جیسے کیا حضرت امام حسین علیہ
السلام کی شہادت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد نہیں کرسکتا تھا (
نعوذباللہ) کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالے جانے کے نمرود کے
غلیظ ارادے کو اللہ تعالیٰ روک نہیں سکتا تھا ( نعوذباللہ) المختصر دین سے
دوری کے سبب یہ خیالات و سوالات کئی عام لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتے ہیں
لیکن جو لوگ صحیح العقیدہ عالم دین کے صحبت میں اپنا وقت گزارتے ہیں تو
انہیں ان کے وسیلے سے ان تمام سوالات کا جواب بڑی تسلی سے مل جاتا ہے اور
انہیں علم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے میں اس کی مصلحت کارفرما
ہے ورنہ وہ جو چاہے جب چاہے جیسا چاہے کر سکتا ہے اسے صرف " کن " کہنے کی
ضرورت ہے وہ ہوجاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یاد رکھئیے چاہے انبیاء کرام علیہم السلام
کی زندگی کے واقعات ہوں یا صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگی کے واقعات
اولیاء کرام کی زندگی کے واقعات ہوں یا بزرگان دین کی زندگی سے جڑے واقعات
یہاں تک کہ ہمارے ساتھ بھی جب کوئی ہونی انہونی ہوتی ہے تو ہمارا ایمان
پختہ ہونا چاہئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت کارفرما ہے
اس کی منشاء شامل ہے اور ہمارے لئے اس میں بھلائی کا کوئی نہ کوئی عنصر
ضرور موجود ہے اگر ہم اپنے ساتھ ہونے والے ہر معاملہ کو اللہ تعالیٰ کی
مصلحت سمجھ کر اس پر صبر کرنا سیکھ لیں اس رب تعالی کا شکر ادا کرتے رہنے
کی عادت بنالیں تو یہ ہماری اس دنیا اور آخرت دونوں کے لئے نجات کا ذریعہ
بن جائے گی ان شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی اس تحریر میں جو واقعات لکھ کر اپ تک
پہنچانے کی میں نے کوشش کی ہے اس کا صرف یہ ہی مقصد ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ
کی مصلحت کو سمجھیں اور اس میں ہمارے لئے بھلائی ہی بھلائی کے ہونے پر اپنا
ایمان پختہ رکھیں اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو تو معذرت خواں ہوں اللہ
تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے سچ لکھنے ہمیں اسے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے
کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان کے ساتھ ہو آمین آمین
بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|