سرکاری ہسپتالوں میں کون۔۔۔۔۔مسیحا یا جلاد؟

اللہ سب کو بیماریوں اور ہسپتالوں کے چکروں سے محفوظ رکھے لیکن جن لوگوں کا سرکاری ہسپتالوں سے واسطہ پڑا ہے ان کے مشاہدے میں آیا ہو گا کہ اگر آپ کسی مریض کی عیادت یا مریض کو کسی قسم کی طبی سہولت کی فراہمی کے لئے ہسپتال جاتے ہیں اور آپ نے پینٹ شرٹ یا پھر بیش قیمت صاف ستھرا‘ کلف زدہ لباس زیب تن کر رکھا ہے‘ چہرے سے سنجیدگی یا پھر کسی حد تک رعونت عیاں ہے اور گفتگو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش ہے تو ہسپتال کے گیٹ پر تعینات چوکیدار یہ پوچھے بغیر کہ آپ ہسپتال میں کیوں داخل ہورہے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں آپ کے لئے گیٹ کھول کر آپ کو خوشی خوشی اندر جانے دے گا جبکہ بعد ازاں ہسپتال کے مختلف شعبوں میں نہ صرف آپ کی آمدورفت آسان ہو گی بلکہ طبی عملے اور ڈاکٹرز کا رویہ بھی آپ کے ساتھ ان کے عہدوں کی مناسبت سے مودبانہ‘ نرم یا کم از کم قابل برداشت ہو گا۔ اس کے برعکس اگر آپ عام سادہ سے کپڑوں میں ملبوس ہیں۔ شیو بھی بڑھی ہوئی ہے یا پھر داڑھی کی تراش خراش کا خیال نہیں رکھا ہوا‘ چہرے پر عاجزی اور انکساری کے آثار ہیں اور گفتگو بھی سادہ ہے تو پہلے تو آپ کو ہسپتال کے اندر داخل ہونے کے لئے چوکیدارکی منت سماجت کرنی پڑے گی اور پھر ہسپتال کے مختلف شعبوں میں مختلف امور کی انجام دہی کے دوران طبی عملے کی ناگواری‘ بے زاری اور ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ سے واسطہ پڑے گا۔ علاوہ ازیں او پی ڈی میں معائنے سے لیکر ایکسرے اور لیبارٹریز وغیرہ سے واسطہ پڑ نے اور اگر خدانخواستہ ہسپتال میں داخل ہونا پڑ گیا تو پہلے وارڈ میں مناسب جگہ پر یعنی صاف ستھرے حصے میں باتھ روم سے دور‘ اے سی یا کم از کم پنکھے کے قریب یاپھر سائیڈ روم میں بستر کے حصول تک ’ جو’ معاشی اور سماجی تفریق“ مریض کے آڑے آتی ہے اس کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں،ملک بھرمیں سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال کسی اعتبار سے تسلی بخش نظر نہیں آتی آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر آتی ہے کہ اس سے ہسپتالوں کی حالت ِزار کی فوری اصلاح کی طرف حکومت کی عدم توجہ کا احساس اجاگر ہوتاہے سرکاری ہسپتالوں میں طبی عملے کی غفلت، لاپروائی اور فرض ناشناسی ایک انتہائی تکلیف دہ مسئلہ بن چکی ہے جس کے نتیجے میں آئے روز کسی نہ کسی سرکاری ہسپتال میں کسی مریض کی ہلاکت کاالمیہ رونما ہوتا رہتاہے،بعض اوقات عملہ مریضوں کے لواحقین سے بھی ناروا سلوک کا مظاہرہ کرتاہے،ڈاکٹر و پیرا میڈیکل اسٹاف مریضوں کی کراہتی آوازیں سننے کے باوجود موبائل ہاتھ میں لے کر ایس ایم ایس میں مصروف یا ٹولیوں کی صورت میں سموسے برگر کھانے میں مصروف ہوتے ہیں،گزشتہ دنوں جناح ہسپتال لاہور جانے کا اتفاق ہوا مریض کو دکھانے کے لئے پرچی لینے کے بعد کمرہ نمبر 65کا حکمنامہ ملا وہاں چلے جاﺅ کمرے کے گیٹ پر موجود اٹینڈنٹ نے مریض کی پرچی لے کر رکھ لی اور خود بھی اندر ڈاکٹر کے پاس بیٹھ گئی اب باہر جتنے مریض آئے وہ سب انتظار میں تقریبا ایک گھنٹے بعد اٹینڈنٹ کمرے سے پانچ منٹ کا کہہ کر باہر چلی گئی اور تقریبا ایک گھنٹے بعد واپس آئی اس ایک گھنٹے میں جو مریض پہلے کے آ کر بیٹھے تھے اور اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے انکی پرچیاں جمع تھیں وہ بیٹھے رہے اور بعد میں آنے والے اپنے اپنے مریض چیک کروا کر گھروں کو روانہ ہو گئے جب ڈاکٹر سے بات کی گئی تو اس نے کہا باری کا انتظار کرو اٹینڈنٹ سے بات کی گئی تو وہ ایک گھنٹہ ڈیوٹی سے غائب رہنے کے بعد شاید خود مریض بن چکی تھی مریض وارڈ کے باہر چیک اپ کا انتظار کرتے رہے مگر اس اٹینڈنٹ اور ڈاکٹر کو ذرا بھر بھی ترس نہیں آیا،جناح ہسپتال کے دیگر وارڈوں میں بھی یہی صورتحال ہے لاہور کے دور دراز علاقوں سے سینکڑوں روپے کرایہ خرچ کر کے آنے والے مریضوں کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ وہ فیس دے کر محلے کے پرائیوئٹ ہسپتال سے چیک اپ کروا لیں کیونکہ وہاں چیک اپ بھی صحیح ہو گا اور سرکاری ہسپتال میں چیک اپ کا کیا فائدہ ہے جب معمولی سے معمولی ادویات بھی بازار سے خریدینی پڑتی ہیں اس سے بڑھ کی ستم یہ ہے کہ جب پورے ملک میں ڈینگی کا شور اٹھا ہے پنجاب حکومت اپنے تمام کاموں کو چھوڑ کر مچھر مارنے میں مصروف ہے ایسے حالات میں جناح ہسپتال کی فارمیسی میں بخار کا سیرپ”کیل پول“ موجود نہیں نہ کھانسی کی ادویات مل رہی ہیں سرکاری دوا تو ملتی نہیں اور ہسپتال کی فارمیسی میں بھی نہیں پتہ نہیں ادویات کہاں غائب ہو جاتی ہیں سرکاری ہسپتال میں انسانیت کی جو تذلیل کی جاتی ہے اسے دیکھتے ہوئے انسانیت کو خود شرم آنے لگ جاتی ہے ڈاکٹر اپنا فرض منصبی بھلائے بیٹھے ہیں بلکہ وہ وقت گزاری کے لئے اور انجوائے کرنے کے لئے وارڈوں میں آکر مریضوں کو خوار کرتے ہیں یہ ان کا مشغلہ بن چکا ہے حالانکہ وہی ڈاکٹر شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر مریض پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں کیونکہ وہاں ان کو فیسیں مل رہی ہوتی ہیںاگر خادم اعلیٰ پنجاب کچھ دیر کے لئے مریض بن کر جناح ہسپتال جائیں تو انہیں ہسپتال کے اندرونی حالات کا پتہ چلے کہ وہاں مریضوں کے ساتھ کیسا بے رحمانہ سلوک کیا جاتا ہے اس پر توجہ کون دے گا کیا حکوتم کا کام صرف ڈاکٹروں کی مراعات پوری کرنا ہے حکومت نوٹس کیوں نہیں لیتی؟ حکومت کو چاہئے کہ مریضوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگائی جائے اور ڈیوٹی ٹائمنگ میں کھانے پینے کے اوقات بھی مختص کئے جائیں تا کہ مریضوں اور ان کے لواحقین کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر ایسا کیوں کر ہو گا ڈاکٹرز ،پیرا میڈیکل اسٹاف اپنے مطالبات کے لئے ہڑتالیں کر سکتے ہیں تو حکومت ان پر اپنے مطالبات کیوں نہیں رکھ سکتی،مرضی کی تنخواہیں لینے والے ڈاکٹروں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ وہ ہسپتال کے بیڈ پر تڑپتے مریض کے سامنے پیپسی پی کر مسکرا رہے ہیں اور مریض کی جان نکل رہی ہے اگر اسی مریض کی جگہ اسی ڈاکٹر کا کوئی قریبی عزیز ہو تو اس وقت اس کی کیا کیفیت ہو گی مگر افسوس کہ کسی بھی نوعیت کے مراعاتی پیکج کے تحت ڈاکٹرز اور طبی عملے کی اکثریت کو مریضوں کے ساتھ بلا تفریق حسن اخلاق‘ خندہ پیشانی اور خلوص کے ساتھ پیش آنے اور مریضوں کے جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں اور روحوں پر لگے زخموں کی بھی مرہم پٹی پر آمادہ نہ کیا جا سکے کیونکہ انسانیت کے دکھ اور تکلیف کی حقیقت کو سمجھنے‘ محسوس کرنے اور اس دکھ اور تکلیف کے ازالے کے لئے کردار ادا کرنے کا جذبہ‘ تنخواہیں اور مراعات بڑھا کر نہیں ابھارا جا سکتا۔ اس جذبے کو جگانے کی کوشش مسیحاؤں کے سینوں میں دھڑکنے والے دلوں‘ ان کے ضمیر اور ان کے احساسات و جذبات کو جھنجھوڑ کر اورانہیں وہ عہد یاد دلا کر کی جا سکتی ہے جو انہوں نے اس مقدس پیشے سے وابستگی کے وقت کیا ہوتا ہے۔ ” دکھی انسانیت کی خدمت“ کا وہ وعدہ جس پر مال و زر کی حرص اور مادی مفادات کے حصول کی تگ و دو دبیز تہوں کی شکل میں جم چکی ہے‘ دلوں اور ذہنوں میں تازہ کرنے کے لئے نہ صرف اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز پر باقاعدگی سے تحریروں‘ تصویروں اور مباحثوں کا اہتمام ہونا چاہئے بلکہ سرکاری ہسپتالوں میں مجبور‘ لاچار اور بے بس مریضوں کے جسمانی اور روحانی علاج کے حقیقی تقاضوں پر مبنی احساس اور شعور کو اجاگر کرنے کے لئے غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کو ایک جامع پروگرام کے تحت باقاعدہ مہم چلانی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ درد دل رکھنے والے مسیحا خود کو مثال کے طور پر پیش کر کے اپنے ساتھیوں اور ماتحت عملے کو مریضوں کی حالت زار کی پیشہ ورانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ انسانی بنیادوں پر بہتری کے حوالے سے قائل کرنے کی کوششیں بھی کر سکتے ہیں۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں طبی عملے کی غفلت سے مریضوں کی ہلاکت اور ہسپتالوں میں لاچار مریضوں کی کسمپرسی کے واقعات کا تدارک ممکن ہے یہ امر افسوسناک بھی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو تمام تر سہولتوں کی فراہمی کے باوجود ایسی کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے جس سے اس پیشے کا تقدس بھی مجروح ہوتاہے۔ فرض سے غفلت برتنے والے افراد کا احتساب ہونا چاہئے۔
Mumtaz Haider
About the Author: Mumtaz Haider Read More Articles by Mumtaz Haider: 88 Articles with 70642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.