کسی کی سفارش کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن سفارش
کرنی کی کی چاہیے یہ قابل غور بات ہے ۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
یہ اپنے پیروکاروں کو جہاں عبادات کی طرف مائل و متوجہ کرتا ہے وہیں یہ
اخلاقیات پر بھی خاص توجہ مبذول کرواتا ہے ۔ دنیا کے جھمیلوں میں مگن انسان
محض اپنے ذاتی فائدہ کیلئے دوسرے حقوق پر ڈاکے ڈالنا اپنے لیے کوئی معیوب
عمل نہیں سمجھتا۔ اس عنوان پر مزید آگے بڑھنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو بغور پڑھتے ہوئے ذہن میں جگہ دیجئے
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالٰی کچھ لوگوں کو نعمتیں
عطا فرماتا ہے تاکہ وہ بندوں کو فائدہ پہنچائیں۔ جب تک وہ بندوں کو فائدہ
پہنچاتے رہتے ہیں تب تک وہ نعمتیں بھی باقی رہتی ہیں، لیکن جب وہ نفع
پہنچانا چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمتیں بھی واپس لے لیتا
ہے ۔(المعجم الکبیر، شعب الایمان)
ایک طرف نعمتوں کا شکرانہ یہ ہے کہ بندہ تقسیم کرنے والا بنے ، دوسروں کے
کام آنے والا ہو، بھلائی کرنے والا ہو، آسانیاں تقسیم کرنے والا ہو۔ انہی
نیک کاموں میں سے کسی کی سفارش کرنا بھی ہے ۔ دعا بھی ایک قسم کی سفارش ہی
ہے جو ہم اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں، اس کی کرم نوازیوں کو حاصل
کرنے کیلئے دوسروں کیلئے مانگتے ہیں، مفہوم حدیث ہے کہ جو دعا ہم کسی کیلئے
کرتے ہیں اللہ تعالیٰ وہی ہمارے حق میں بھی قبول فرماتا ہے ۔ اس لیے جب بھی
کسی کی کامیابی، ناکامی، بہتری یا تنزلی کیلئے رب کے حضور دست دعا بلند
کریں تو ضرور غور کریں کریں کہ ہم کس کے بارے میں سفارش کرنے لگے ہیں۔
حق دار کو اس کے عہدے تک پہنچانے کیلئے سفارش کرنی چاہیے تاکہ حق دار کو اس
کا حق مل جائے، لیکن کبھی کسی ایسے شخص کی سفارش نا کریں جو اس کا اہل ہی
نا ہو۔ بسا اوقات کسی اہل کی کامیابی ہمارے دو لفظوں سے اسے مل جاتی ہے اور
کبھی کبھی ہماری سفارش سے گھٹیا ترین شخص عہدہ پا کر لوگوں کیلئے ذلالت کے
دروازے کھول دیتا ہے ۔
کسی محنتی طالب کی سفارش کرنے سے اگر اس کیلئے تعلیم میں آسانی پیدا ہو رہی
ہو تو ضرور کرنی چاہیے لیکن کسی نالائق کی سفارش کرکے جعلی ڈگر دلوانا اس
کے گناہ میں برابر شراکت داری ہے ۔ وہ جتنے غلط فیصلے یا اقدامات کرے گا
سفارش کرنے والا اس میں برابر حق دار ہوگا۔
کوئی فلاحی کام ہو رہا ہو، ادارہ، مسجد ، مدرسہ زیر تعمیر ہو یا اس کے
انتظامات میں معاونت ہو تو لوگوں کو اس کی ترغیب دینا بھی اچھی سفارش کے
زمرہ میں آئے گا۔ صدقہ جاریہ کہلائے گا جب تک بھلائی کا نیکی کا کام جاری
رہے گا تب تک اس کی ترغیب دینے والے کی کھاتے میں بھی نیکیاں جمع ہوتی چلی
جائیں گی لیکن اس کے برعکس جوئے کے اڈے ، منشیات فروشی، جسم فروشی، غلط
کاری، حرام خوری، سود خوری جیسے قبیح افعال کے معاملے میں ہم نے سفارش کر
دی، کام نکلوا دیا، اجازت نامہ جاری کروا دیا، سہولت کاری کی تو اس قبیح
فعل کی نحوست سے بھی برابر حصہ ملتا رہے گا۔
کسی غریب کی مدد کرنا یا مدد کرنے میں معاونت کرنا، کسی غریب کی بیٹی کی
شادی میں مدد کر دینا، کسی کی پردہ داری اور عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے
گھر کا خرچہ وغیرہ اٹھا لینا یا مہینہ کا راشن ڈلوا دینا، کسی غریب ضرورت
مند کو کوئی چھوٹا موٹا بزنس شروع کروا دینا جس سے وہ اپنے گھر کا خرچہ چلا
سکے اچھے اور نیکی کی سفارش والے کام ہیں۔
کسی بے گناہ کو مقدمہ بازی سے بچانا یا نکلوانے کیلئے سفارش کرنا، کسی پر
قائم ناجائز مقدمہ میں اس کی مدد کرنا، قانونی معاونت پیش کرنا، وکالت کرنا
یا اس کا جائز حق دلوانے کیلئے اپنے تعلقات کو بروئے کار لانا بھی نیکی کی
سفارش کہلائے گا۔ اس کے برعکس کسی کے ناجائز کام میں مدد کرکے اس کو جھوٹا
کیس جتوانا، کسانوں کی زمینیں اونے پونے ہتھیانے والی کالونیوں کے مالکان
کی مدد کرکے غریبوں کو ڈرانا دھمکانا یا جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے یہ بات اس کے
ذہن میں اتارنا کہ مارکیٹ میں اس کی ویلیو نہیں یا آنے والے وقت میں یہ جگہ
تباہ و برباد ہو رہی ہے ابھی وقت ہے فائدہ اٹھا لو یہ بھی غلط سفارش کے ہی
زمرہ میں آئے گا۔
کیا کسی کی سفارش کرکے اس کا کام نکلوا کے اس سے معاوضہ بھی لیا جا سکتا ہے
؟ اس ضمن میں ابو داؤد کی ایک روایت ملاحظہ کریں :
حضرت ابو اُمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی شخص کی سفارش کی، پھر سفارش والے نے بدلہ
میں کوئی تحفہ دیا اور سفارش کرنے والے نے وہ تحفہ قبول کر لیا تو اس نے
اپنے لیے سود کا دروازہ حاصل کر لیا ہے ۔
اچھی اور نیکی والی سفارش وہی کہلائے گی جو ہم بغیر کسی لالچ کے محض اللہ
کی رضا کے لیے کریں۔ اچھائی اور بھلائی کے بدلے کی امید صرف اللہ سے رکھیں
اس یقین کے ساتھ کہ وہ سب سے زیادہ بہترین اجر عطا فرمانے والی ذات کریم ہے
۔ دنیاوی لالچ اور دنیاوی معاملات محض چند روزہ ہیں لیکن اخروی زندگی کا
دارومدار نیک اعمال اور نیک افعال پر منحصر ہے جو ابدی زندگی ہے اور حقیقی
زندگی بھی ۔
|