کچھ غلط اقوال
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
چند مقولے ایسے بولے جاتے ہیں جیسے وہ اقوالِ زرین ہوں حالانکہ وہ عملی طور سے بالکل ہی غلط ہوتے ہیں جیسے "وقت بتائے گا" ، جو کہ اصل میں تھا " زمانہ بتا ئے گا" جس میں زمانہ خالقِ کائنات یعنی اللہ کا نام ہے ۔ وقت بے چارہ کیا بتائے گا اس کو تو جیسا چاہے استعمال کرلو، بولتا تک نہیں بس دیوار پر لٹکا یا ہاتھ کی کلائی پر بندھا سب دیکھ رہا ہوتا ہے۔ایسے ہی ایک اور نہایت غلط بولے جانے والا مقولہ ہے "تاریخ گواہ ہے"، ارے بھئی تاریخ نے کیا گواہی دینی اور اگر تاریخ کو ہی گواہ ٹھہرانا تھا تو پھر تاریخ پہ تاریخ کیوں دی جاتی ہے اور کسی بھی تاریخ کو فیصلہ نہیں ہو پاتا اور جب فیصلہ آتا ہے تو تاریخ کو خود بھی پتہ نہیں چلتا بلکہ پتہ جب چلتا ہے جب جغرافیہ گواہی دیتا ہے یعنی کسی انسان یا جگہ کا جب جغرافیہ بدل جاتا ہے تو خوب اچھی طرح معلوم پڑ جاتا ہے کہ گواہ کون ہے، سو تاریخ نہیں بلکہ "جغرافیہ گواہ ہے" صحیح مقولہ ہے۔ تصویر والے انسان کو دیکھیں اس کی پیدائش کی تاریخ 15 مارچ 1946 تھی اور آج اٹھتر سال بعد بھی وہی تاریخ ہے گویا تاریخ گواہ ہے کس بات کی جب کہ وہ خود وہی کی وہی ہے ، ہاں البتّیٰ اس انسان کا جغرافیہ گواہ ہے کہ 78 سال گذر چکے ہیں، حلیہ صاف بتا رہا ہے۔ تصویر میں رنگین نقشہ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ بر صغیر کی تقسیم جب ہوئی تو انڈیا اور پاکستان دو ممالک وجود میں ائے، جسمیں پاکستان سبز رنگ میں دکھایا گیا ہے لیکن 1971 میں چھوٹا سبز رنگ سیاہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا جب کہ بڑا سبز رنگ ہمارے مزید کرتوتوں کے باعث سیا ہوچلا ہے۔ تو تاریخ کیا گواہ ہے وہ تو وہی ہے 1947 اور 1971 جو کبھی نہ بل پائے گی البتّیٰ جغرافیہ گواہ ہے کہ محمد علی جناح کا پاکستان اب نہیں رہا اور" آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟" بھی ایک مقولہ ہی ہے۔جس کے فوراً بعد ہمارے پاس اختتامی مقولہ ہوتا ہے "اللہ بہتر کرے گا"
|