جشنِ بریگیڈیر (ر) پروفیسر ڈاکٹر وحیدالزمان طارق

بے شک تیراکلام لائقِ تحسین ہے، تیری شخصیت قابلِ تقلیدہے
جشن پروفیسر ڈاکٹر وحیدالزمان طارق
ایوانِ اقبال یواے ای اور کاروانِ فکرپاکستان کے زیراہتمام یومِ اقبال کے حوالے سے محفل

حسیب اعجاز عاشرؔ
ہر سال ۹نومبر کا آفتاب خوب رعنائیوں اور نئی چمک دمک کے ساتھ طلوع ہوتا ہے فضاؤں میں ہواؤں میں پھیلی ایک عجب سی مہک دلفریب خوشگواری و تازگی کا احساس لئے روح و قلب میں دستک دیتی ہے کہ آج اپنے محسن کو یاد کرنے اور ہمیشہ یاد رکھنے کے اظہارِ عزم کا دن ہے۔ جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر میں تنظیموں، سکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور دیگر حکومتی و نجی اداروں کی جانب سے اقبال کی یاد میں تقاریب کا سلسلہ پورے آب و تاب کیساتھ جاری و ساری ہے وہاں ایوانِ اقبال یو اے ای اور کاروانِ فکر پاکستان کے زیراہتمام ادبی بیٹھک، پلاک لاہور میں اقبال ڈے کے حوالے ایک یادگار و شاندارتقریب بعنوان”علامہ اقبال کانفرنس و جشن وحید الزمان“کا انعقاد کیا گیا۔
ایک عرفانی و وجدانی اور ہمہ جہت شخصیت کے حامل بریگیڈیئر(ر) پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق عہدے سے بریگیڈیئر(ر)، پیشے سے ڈاکٹر جبکہ اپنے مقصد میں فکر ِ اقبال کے پہرے دار ہیں۔آپ کی تحریروں اور تصانیف سے علم و حکمت کے پھوٹتے چشمے طلب گاروں کوفیض یاب کر رہے ہیں۔یہ آپ کا فنِ کمال کا عروج ہے کہ اقبالیات کے گہرے اثرات سے مزین اُردو،فارسی اور انگریزی زبانوں میں کئی تحقیقی تصانیف شائع ہو کر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ آپکی اقبالیات کے حوالے سے کاوشوں پر طائرانہ جائزہ لینے پر دل پکار اُٹھتا ہے کہ اقبال کہ یہ شعر اِن کی شخصیت کے مصداق ہے
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
صوفی منش صفت کے حامل پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق بھی اقبالؒ کی طرح ایک راسخ العقیدہ اور سچے پکے مسلمان ہیں،آپ نے جس اندازو بیان میں اقبال کے افکار اور نظریات کو نسل نو میں منتقل کرنے کا بیڑا اُٹھارکھا ہے عصر حاضر میں کوئی ثانی نہیں،یہی وجہ ہے کہ چیئرمین و بانی ایوانِ اقبال اور کاروانِ فکر پرنس اقبال گورائیہ نے 147ویں یوم ِ اقبال کے حوالے سے تقریب میں محفل جان کیلئے آپ کا انتخاب کیا۔ اِس تقریب کو عملی شکل دینے میں دبئی سے تشریف لائیں چیئرمین ڈاکٹر ثمینہ چوہدری،سینئر نائب صدر شفیق الرحمن، نائب صدر راؤ عتیق اسلم کے کردار نمایاں رہے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز افسر والی خان کی ایمان افروز تلاوت قرآن سے ہوا نعتِ رسول مقبولﷺ کی سعادت ولایت فاروقی کے حصہ میں آئی۔ نقابت کے فرائض زید حسین نے اپنے دلفریب اور جاذبیت کی آمیزش سے چھلکتے اندازوبیان میں بڑی خوش اسلوبی سے نبھائے کہ سبھی اُن کے معترف نظر آئے۔ہارون الرشید تبسم نے اپنے خطاب میں ڈاکٹر علامہ اقبال کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ اقبال تہجد کے وقت نماز سے فراغت کے بعد تلاوتِ قرآن پاک میں محو ہوجاتے تو اُن پر کپکی سی طاری ہوجاتی تھی اور اِسی دوران اُن پر آمد کا سلسلہ جاری ہو جاتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ آپؒ کا کلام حضورﷺ کی سیرت بھی ہے اور صورت بھی اِسی لئے فرمایا کہ لوح بھی تُو،قلم بھی تُو،تیرا وجود الکتاب۔وحید الزمان طارق کی قلمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کی شخصیت کا پہلو اِن کی ذات میں نمایا ں ہے آپ نے لفظوں کو وقار بخشا ہے۔ ساڑھے سات گھنٹے کا سفراِس مجاہد کیلئے طے کر کے تقریب میں پہنچا ہوں۔ سید وقارنے اظہار خیال کرتے ہوئے اِسے المیہ قرار دیا کہ آج کے بچے تعلیم ِ اقبال سے دور ہیں۔آج بانگ درا کو سو سال مکمل ہو چکے مگر افسوس بچوں اور عورتوں نے اقبال ؒ کو پڑھا مگر اُن کی تعلیمات کو عمل میں نہ لائے۔وحیدالزمان طارق کی اقبالیات کے حوالے سے کاوشوں کو سرہاتے ہوئے کہا کہ یہ تقریب اِن کی اخلاقی فضیلت ہے،آپ کا جتنا بڑا نام ہے،کام بھی ہے، سوچ بھی ہے اوریہ ہمارے لئے انعام بھی ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اعظم منیرنے شکوہ پیش کیا کہ ہم نے یہ کہہ کرکہ ”اقبال کا کلام عام فہم نہیں،اِس تک پہنچنا مشکل ہے“نوجوان نسل کو اقبال سے دور کیا۔ ہمیں اِس بات کو زبان زد عام کرنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کا کلام آسان ہے وہ ہماری زبان میں ہی ہم سے مخاطب ہیں۔ وحیدالزمان طارق کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ اقبال والی خوبیاں اور عکس اِن میں موجود ہیں،میرے لئے پیر کا درجہ رکھتے ہیں اور پیر ایک ہی ہوتا ہے بدلا نہیں جاتا۔ڈاکٹر راؤ اسلم نے کہا کہ پروفیسر وحیدالزمان طارق نے زندگی کا بڑا حصہ اقبال کے تصرف میں صرف کر دیا اور یہ بات ہمارے لئے قابل فخر و اعزاز ہے کہ ہم عہدِ وحیدالزمان طارق میں زندہ ہیں۔ڈاکٹر عبدالروف رفیقی نے مختصر مگر مدلل او رجامع گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زندہ دلانِ شہر لاہور نے ثابت کر دیا کہ ہم زندہ قوم ہیں کہ ہم زندوں کو نواز رہے ہیں۔انسان کی قدرومنزلت کو اُس کی زندگی میں پہنچاننے کا احساس دلانے پر ہم منتظم اعلیٰ اقبال گورایا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ پرنس ہو کر اِس محفل کو سجایا۔آپ کا کہنا تھا کہ وحید الزمان بلاشبہ زمانے کے وحید ہیں،حال دل بھی جانتے ہیں اور بنض پر بھی ہاتھ رکھتے ہیں۔ آپ ولایت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں،بیٹھے چغتائی لیب میں اور سمجھاتے عشق کے راز وامروز ہیں۔ پیام مشرق کے مضوعات پر گوہر فشانی کرتے رہتے ہیں۔آج آپ کے استادِ محترم عرفانی صاحب کی روح کتنی خوش ہو گی کہ جس نگینے کو تراشا تھا اُن کی زندگی میں اُن کا جشن ہو رہا ہے۔ڈاکٹر نجیب جمال نے کہا کہ اقبال کی تعلیمات ہمیں درس دیتی ہیں کہ زندگی کو قربان کرنا ہی تو زندگی ہے،کلامِ اقبال کے ایک ایک لفظ میں جہاں بستا ہے۔اقبالؒ تو زمان و مکان کی صورت حال سامنے رکھ گئے ہیں بس ہم ہی نا آشنا سے ہیں۔منشا ء قاضی کا کہنا تھا زندہ قومیں اپنے قومی ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور اس وقت اقبال شناس شخصیت پروفیسر ڈاکٹر برگیڈیئر وحید الزماں طارق کا جشن درحقیقت جشن نہیں،مشن ہے اور کاروان فکر علامہ اقبال کی فکر کے پرچارک ہیں اور پرنس اقبال گورایا چیئرمین بانی کاروان فکر پاکستان ایوان اقبال یو اے ای اقبال کے شاہین ہیں۔صدرمحفل ڈاکٹر مظفر عباس کا کہنا تھا کہ اقبال کا جذبہ ِ عشق وہ جذبہ ہے جو ایک مومن صفت انسان کو زمین سے اُٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر لے جاتا ہے،لیکن اِس کا ادراک تو ہومزید براں پروفیسر ڈاکٹر وحیدالزمان طارق کوطبیبِ جسم و روح قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو متضاد کہکشائیں آپ کی ذات میں رچی بسی ہیں۔ڈاکٹر عرفانی آپ کے لئے باپ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اُن کے نقشِ قدم پرآپ اپنا سفر بااحسن خوبی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اِس موقع پر صاحبِ محفل بریگیڈیئر(ر) پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق کی تاج پوشی بھی کی گئی او رانہیں لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ننھی موٹیویشنل اسپیکر فریحہ بابرنے ملکی حالات پر ایک فکرانگیز تقریر پیش کی اوراختتامیہ جملوں میں قوم کو دلاسہ دیتے ہوئے کہاکہ فکر نہ کریں ابھی حضرت اقبال کے وارث ابھی زندہ ہیں۔ ہم اِس گلستان کو جہان کاایسا مہکتا پھول بنا دیں گے جیسا خواب حضرت اقبال نے دیکھا تھا۔ عزیز قریشی نے پرُ ترنم کلامِ اقبال پیش کیا توحاضرین محفل نے خوب دل کھول کر دادو تحسین لٹائی۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاذ میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے شرکاء محفل سے اپنے خطاب میں کہا کہ مورخ لکھے گا کہ ہم تاریخ کے مثبت سمت کھڑے تھے اُنہوں نے اپنے ادبی و قلمی سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے دوستوں، محسنوں اور رفقاء کی معاونت کا خوب تذکرہ کیا،خصوصاًاپنے عظیم استاد جناب خواجہ عبد الحمید عرفانی سمیت اقبالؒ کے خاندان کا اور تحسینی کلمات سے نوازنے پر تمام مقررین سے اظہار تشکر بھی کیا۔منتظم اعلیٰ پرنس اقبال کی ادب نوازی کو خوب سرہاتے ہوئے کہا ادب کی ترویج کے حوالے سے اِن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
ٓ پرنس اقبال گورائیہ نے اپنے اختتامیہ کلمات میں یوم اقبال کے حوالے سے کہا کہ جامع، متنوع معاشرے کی تشکیل کیلئے اقبال کا فلسفہ تعلیم بہت اہم ہے کیونکہ اقبال نے انسانیت میں اجتمائی خودی کو نمایاں اور اُجاگر کیا ہے ۔اقبال کی شاعری خاص وقت کیلئے مخصوص نہیں تھی بلکہ وہ ہر حالات،واقعات،سانحات اور معاملات پر خوب صادر ہو آتی ہے اقبال کی شاعری جہاں مسلمانوں کے موجودہ زوال پر نوحہ خوانی کر رہی ہے وہاں اُن کے کلام سے باہمی اتحاد و احیاء کی اہمیت کو اُجاگر کرتی صدائیں بھی سنائی دیتی ہیں۔پرنس اقبال نے پروفیسر وحید الزمان طارق کی خدمات کو قابل تحسین قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی گفتگو ہو یا تحریریں بلاشبہ اقبال شناسی کی آئینہ دار ہیں۔دوسو زائد کامیاب ادبی تقریبا ت کے انعقاد کا سہرا سر پر سجائے پرنس اقبال گورائیہ آج بھی پرعزم تھے کہ نظریات اقبال کو نسل نو میں اُجاگر کرنے کیلئے وہ اپنے حصہ کی شمع کوچے کوچے گلی گلی میں روشن کرنے کا مشن جاری رکھے گے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
سابقہ وائس چانسلر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور پروفیسر مظفر عباس کے زیر صدارت اِس تقریب میں ہارون الرشید تبسم، پروفیسر نجیب جمال، ڈاکٹر عبدالروف رفیقی، راؤ اسلم خان، ڈاکٹر نوشین خالد، اعظم منیر، طارق حمید،امتیاز محمود عربی، آمنہ رندھاوامحمد صفدر بھٹی، محترمہ شیری گل رعنا، ظفر اقبال اپل اور فرحان یوسف، منشاء قاضی، نصار احمد، چوہدری جہاں زیب، ڈاکٹر عمرانہ مشتاق، محترمہ ناہید باجوہ، عامر ملک، اسحاق احمد،چوہدری اکرم سمیت مختلف طبقہ فکر سے وابستہ معروف قلمی و سماجی شخصیات نے بھرپور شرکت کر کے محفل کی رونق کو دوبالا کر دیا، ولید اقبال غیر متوقع مصروفیات کے باعث شرکت کرنے سے قاصر رہے۔ چیئرمین و بانی ایوانِ اقبال اور کاروانِ فکر پاکستان پرنس اقبال گورایا کی کاوشوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ورنہ قلمی اُفق کے درخشاں ستاروں کی کہکشاؤں سے ایک تقریب کو روشن کردینا کوئی معمولی کام نہیں،ادبی بیٹھک پلاک کی جگہ چھوٹی ہو سکتی ہے مگریہ حلقے میں اقبالیات کے حوالے سے ۹نومبر یہ کی سب سے بڑی تقریب تھی۔تقریب کی مقبولیت اور اہمیت جانچنے کیلئے یہ تصدیق کافی ہے کہ شرکاء دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ اختتام تک موجود رہے اور مقررین کے ہرسنہرے الفاظ پر داد وتحسین اُلٹاتے رہے۔
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 122 Articles with 130830 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More