میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہمارے آج کے اس معاشرے میں ہمیں درمیان موجود لوگوں کی کثیر تعداد کا خیال
یہ ہے کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں کلمہ گو ہیں لہذہ جنت ہمارے لئے ہے اور ان
لوگوں کے نزدیک اگر نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج اور قربانی جیسے فرائض ادا
کرلئے تو ہمارا دین مکمل ہوگیا اور ہم جنت کے حقدار بن گئے لیکن میں ایسے
لوگوں سے صرف یہ پوچھتا ہوں کہ ان کے پاس اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ اس
دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصت ہوں گے ؟ انہیں اس بات کا علم ہے کہ ان کا
خاتمہ ایمان کے ساتھ ہوگا ؟ اور وہ ایک اہل ایمان مسلمان کی حیثیت سے اس
دنیا سے رخصت ہوں گے ؟ اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں بیشمار
ایسے نام ملیں گے جنہوں نے ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاری نیک
اور پرہیزگار تھے اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے والے تھے لیکن جب دنیا سے
رخصت ہوئے تو بدقسمتی سے ایمان سے خارج ہوکر رخصت ہوئے اور ان کی ساری
عبادات اور ساری نیکیاں برباد ہوئیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دین سے دوری اور بے رغبتی کے سبب ہمارے
یہاں لوگوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھیں نہ
پڑھیں روزہ رکھیں نہ رکھیں بس کلمہ پر قائم رہیں اللہ کو ایک اور یکتا
مانیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ مسلمان ہونے کے ناطے جنت میں داخل کردے گا
نعوذباللہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل ایمان مسلمان کا آخری ٹھکانہ جنت ہی
ہے لیکن اس کے لئے دنیا سے ایمان کے ساتھ جانا ضروری ہے اور ایمان کے ساتھ
جانے کے لئے رب تعالی کے احکامات کی پیروی اور اس کے حبیب کریمﷺ کی سنتوں
پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور ایمان کے ساتھ موت کی دعا ہر وقت مانگتے رہنی
چاہئے جب ہر وقت ایمان کی موت کی تمنا اپنے لبوں پر ہوگی تو اللہ تعالیٰ
ہمیں ایمان کی موت ہی عطا فرمائے گا ان شاءاللہ و تعالیٰ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک شخص جب کسی مسلمان کے گھر میں پیدا
ہوتا ہےتو وہ کلمہ گو بھی ہوگا اور اس کے اندر ایمان کی دولت بھی ہوگی لیکن
اپنے سب سے بڑے دشمن شیطان کے جال میں پھنس کر اس کے بہکاوے میں آکر بھٹک
جاتا ہے اور کوئی نہ کوئی گناہ کرجاتا ہے جیسے ایک شخص جو ایک مسجد میں
امامت کے فرائض پر معمور تھا نیک بھی تھا پرہیزگار بھی تھا لیکن نفس کے
ہاتھوں مجبور ہوکر شیطان مردود کے بہکاوے میں آکر جرم کر بیٹھا گناہ کر
بیٹھا اور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا لہذہ اسے جیل میں ڈال دیا گیا اور جب عدالت
میں اس کو پیش کیا گیا تو جج نے اس کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کے لئے کہا
لیکن اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا لہذہ اسے پھانسی کی سزا سنادی
گئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے بیٹھے
روتا رہتا اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہتا اور پھر یوں ہی
ایک دن وہ روتے روتے سو گیا تو شیطان مردود اس کے خواب میں آجاتا ہے اور
اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تم اگر چاہو تو میں نہ صرف تمہاری پھانسی
رکوا سکتا ہوں بلکہ تمہیں جیل سے باہر بھی نکلوا سکتا ہوں لیکن تمہیں میری
بات ماننا ہوگی ابھی شیطان نے اتنا کہا کہ اس امام مسجد کی آنکھ کھل گئی وہ
چونک کر اٹھا اور اسے علم ہوگیا کہ یہ شیطان تھا وہ استغفار کہتا ہوا یہاں
سے وہاں ٹہلنے لگا لیکن پھر وہ مردود انسانی شکل میں آگیا اور پھر اس کو
کہنے لگا کہ میری بات مان لے تو اس امام نے کہا کہ تو کیا چاہتا ہے تو کہنے
لگا کہ تو اللہ کی ذات کا منکر ہوجا بس( نعوذباللہ )۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ سن کر امام مسجد کو غصہ آگیا اور کہنے
لگا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا تم جائو اور پھر وہ واپس استغفار پڑھتے ہوئے
ایک کونے میں بیٹھ گیا اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ وہ دن بھی آگیا جب اس
امام مسجد کو پھانسی ہونا تھی صبح فجر کا وقت تھا اور جیل کے لوگ اس امام
مسجد کو جیل کی کوٹھری سے پھانسی گھاٹ کی طرف لیجانے لگے تو شیطان پھر اس
کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ ابھی بھی وقت ہے میری بات مان کو شیطان
اس کو بہکانے میں مصروف تھا اور اسے پھانسی گھاٹ پر کھڑا کرکے پھندہ اس کے
گلے میں ڈال دیا گیا بس جلاد کے رسی کھینچنے کی دیر تھی تو شیطان نے کہا یہ
آخری لمحہ ہے لیکن تم اب بھی میری بات مان لو تو میں یہاں سے بھی تمہیں
نکال سکتا ہوں اس وقت امام مسجد کے دل میں لالچ آئی اور اس نے کچھ سوچتے
ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے میں اللہ کی ذات کا منکر ہوتا ہوں ( نعوذباللہ) اس
امام مسجد کا اتنا کہنا تھا کہ وہاں جلاد نے رسی کھینچ لی اور وہ شخص جو
امام مسجد تھا نیک اور پرہیزگار تھا لوگ اس کی بڑی عزت کرتے تھے اس دنیا سے
ایمان کے بغیر رخصت ہوگیا اور وہ بے ایمان چلا گیا اور شیطان اپنی کامیابی
پر خوشیاں منا رہا تھا ۔
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کو قطعی طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا
کہ اس کا اس دنیا سے خاتمہ ایمان کے ساتھ ہوگا یا نہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ
خاتمہ بالخیر کی دعا ہر وقت اپنے رب سے مانگنی چاہیے نا جانے کونسی گھڑی
قبولیت کی گھڑی ہو۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی لئے ہمارے فقہاء نے ہمارے علماء نے
قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں اپنی کتابوں میں بارہا ایمان کے حفاظت
کی تلقین بھی کی ہے اور اس کی تدابیر سے بھی ہمیں آگاہ کیا ہے جبکہ قرآن
مجید میں باری تعالی نے بھی کئی جگہ پر ہمیں ایمان کے بچائو کی تلقین کی ہے
قرآن مجید میں کئی دعایا آیتیں موجود ہیں جو اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے
اور اس سے بچائو کے لئے ہیں قرآن مجید کی سورہ العمران کی آیت نمبر 8 میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا
مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(8)
ترجمعہ کنزالایمان::
اے رب ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں
اپنے پاس سے رحمت عطا کر بے شک تو ہے بڑا دینے والا۔
یہ وہ دعا ہے جس کی ہمیں بار بار پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے ہم آج جس معاشرے
میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں یہاں سب سے مشکل کام اپنے ایمان کی حفاظت ہے
اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرکے اور اس کے حبیب کریمﷺ کی
سنتوں پر عمل کرکے ہی ہم اپنے ایمان کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں
پانچ وقت نماز با جماعت ادا کرکے اپنے ایمان کے سلامتی کی دعا مانگتے رہیں
ورنہ امام مسجد کی طرح ہم بھی خدانخواستہ بغیر ایمان کے دنیا سے رخصت
ہوجائیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحیح البخاری کی ایک حدیث 6493 میں حضرت
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ایک شخص کو دیکھا جو مشرکین سے جنگ میں مصروف تھا، یہ شخص مسلمانوں کے
صاحب مال و دولت لوگوں میں سے تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ کسی جہنمی کو دیکھے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ اس پر
ایک صحابی اس شخص کے پیچھے لگ گئے وہ شخص برابر لڑتا رہا اور آخر زخمی ہو
گیا۔ پھر اس نے چاہا کہ جلدی مر جائے۔ پس اپنی تلوار ہی کی دھار اپنے سینے
کے درمیان رکھ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیا اور تلوار اس کے شانوں کو چیرتی
ہوئی نکل گئی (اس طرح وہ خودکشی کر کے مر گیا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ
وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام
کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر
موقوف ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص
کی ظاہری حالت دیکھ کر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہیئے اگر
کوئی شخص ہمیں نیک اور پرہیزگار نظر آتا ہے تو ہمیں یہ رائے قائم نہیں
کرلینی چاہئے کہ یہ شخص کتنا نیک ہے اور اسی طرح اگر کوئی شخص غلط کاموں
یعنی گناہوں کی وجہ سے بدنام ہو تو ہمیں اس کے بارے میں یہ رائے قائم نہیں
کرنی چاہیئے کہ یہ شخص کتنا برا ہے کیونکہ ہر انسان کے اعمال کا دارومدار
اس کے خاتمہ بالخیر پر ہوتا ہے اب دیکھیں ایک نوجوان جوڑا شادی کرکے ایک
جگہ ایک علاقے میں کرائےپر رہنے کی غرض سے آئے اور اتفاق سے انہیں ایک جگہ
گرائونڈ فلور پر ملی لہذہ وہ دونوں وہاں رہنے لگے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ شام کا وقت تھا نوجوان کام کے
سلسلے میں گھر سے باہر تھا جبکہ اس کی بیوی گھر کے کام کاج میں مصروف تھی
اچانک اسے باہر سے کسی کے زور زور سے چلانے کی آواز آئی اس نے کھڑکی کھول
کر چپکے سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کوئی شخص نشے کی حالت میں اس کے گھر کے
باہر اول فول بک رہا ہے وہ گھبرا گئی اور خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ گئی
اور جیسے ہی اس کا شوہر گھر آیا تو اس نے یہ بات اس کو بتائی اس کے شوہر نے
باہر جاکر اپنے پڑوسی سے اس نشے والے شخص کے بارے پوچھا تو اس نے کہا کہ
پورا محلہ اس سے پریشان ہے حالانکہ وہ ایک پڑھا لکھا شخص ہے اور کسی سرکاری
محکمہ میں سترہ گریڈ کا آفیسر ہے لیکن شراپ پینے کی عادت نے اسے تباہ کردیا
ہے وہ روزانہ شام کو پی کر نشے کی حالت میں کہیں نہ کہیں کھڑا ہوکر اول فول
بکتا رہتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ لوگ اس کے خلاف کوئی ایکشن
کیوں نہیں لیتے تو اس نے کہا کہ اصل میں وہ شراب کے نشے میں چیختا چلاتا
ضرور تھا لیکن اس نے کبھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اس لئے لوگ اس کی
اس حرکت کو برداشت کرنے لگے اور اب لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں لہذہ تم لوگ
بھی عادی ہو جائو یہ تمام باتیں سن کر وہ نوجوان واپس اپنے گھر آگیا اور
ساری بات اپنی بیوی کو بتا کر اسے تسلی دی ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک
دفعہ صبح ہی صبح باہر لوگوں کے شور کی آواز آئی اور دونوں میاں بیوی کی
آنکھ کھل گئی تو نوجوان نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کیا ہوا ؟ وہ جب باہر
پہنچا تو پتہ چلا کہ وہ ہی شرابی فجر کی نماز میں سجدے کی حالت میں اپنے
خالق حقیقی سے جا ملا سارے لوگ حیران تھے کسی کو کیا معلوم تھا کہ وہ شخص
جس کی وجہ سے پورا محلہ پریشان تھا جس کی تعریف میں کبھی کسی کے منہ سے ایک
لفظ بھی کبھی نہیں نکلا جبکہ محلہ کے سارے لوگ اس سے نفرت کرتے تھے وہ شخص
اللہ تعالیٰ کو کتنا عزیز تھا اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اعزاز کیوں بخشا ؟ یہ
معمہ ہمیشہ کے لئے معمہ رہ گیا لیکن یہ ثابت ہوگیا کہ کسی کے ظاہری حالت پر
کبھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہیئے بس دیکھنا یہ چاہئے کہ اس کا
خاتمہ کیسے ہوتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ سے جب اس کا کوئی بندہ اپنے
گناہوں سے شرمسار ہوکر اس سے معافی مانگتا ہے اور اپنی آنکھ سے توبہ کے
آنسو کا ایک قطرہ بہاکر کہتا کہ میں گناہگار ہوں لیکن بروز محشر میرا پردہ
رکھنا تو وہ رب العزت محشر میں تو اس کا پردہ رکھے گا ہی لیکن دنیا میں بھی
اس کا پردہ رکھتا ہے کیونکہ وہ رب اپنے بندے سے اس کی ماں سے ستر گنا زیادہ
پیار کرتا ہے دنیا کے لوگ آپ کو رسوا کرسکتے ہیں مگر رب تعالی اپنے اس بندے
سے جو توبہ کا طالب ہوتا ہے معافی کا خواستگار ہوتا ہے اس کو کبھی کسی کے
سامنے رسوا نہیں ہونے دیتا بس اس کی طرف دھیان تو دو اس کی طرف دیکھ تو لو
اس کی بارگاہ میں اپنے ہاتھوں کو بلند تو کرکے دیکھو پھر دیکھنا وہ کتنا
رحیم ہے کتنا رؤف یے کتنا کریم ہے اور کتنا رحم کرنے والا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کے معاشرے میں ایمان کی حفاظت انتہائی
ضروری ہے ہر طرف اور ہر جگہ ایمان کے دشمن دندناتے پھر رہے ہیں اور شیطان
مردود کے چیلے اہل ایمان مسلمان کے ایمان کو چھیننے کی کوشش میں مصروف عمل
ہیں ہر وقت ہر گھڑی اور ہر لمحہ رب تعالی سے ایمان کے سلامتی کی دعا مانگتے
رہنا چاہئے خاتمہ بالخیر کی دعا مانگتے رہنا چاہئے اور اس کی قبولیت کے لئے
ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرکے اس کے حبیب کریمﷺ کی سنتوں پر عمل
کرنا ہوگا جب ہم اللہ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلیں گے تو ہمیں خاتمہ
بالخیر کی دعا مانگنے کی توفیق بھی دے گا اور مرتے وقت کلمہ طیبہ بھی یاد
رہے گا اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ہر محبوب اور مقرب بندے کے صدقہ
وطفیل ہمارے ایمان کو سلامت رکھے اور ہمیں خاتمہ بالخیر عطا فرمائے ہمیں
بھی اپنے نیک اور مقرب بندوں کے صف میں شامل کرکے اپنا محبوب بندہ بنالے
ہمیں صرف ان راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے بتائے ہوئے راستے
ہیں اور ہم بھٹکے ہوؤں کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|