میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آج کے آرٹیکل کے عنوان کو دیکھ کر یقیناً آپ سوچ رہیں ہوں گے کہ یہ جملہ
کہیں سنا ہے ؟ کہیں پڑھا ہے ؟ یا کہیں لکھا ہوا دیکھا ہے تو میں آپ لوگوں
کے ذہنوں میں آنے والی اس پہیلی کا مسئلہ حل کئے دیتا ہوں کہ یہ جملہ ایک
پروگرام میں بولے جانے والے ایک کیریکٹر کا ڈائلاگ ہے جو وہ کسی نہ کسی
موقع پر بولتا ہے لیکن جب میں نے اس جملہ پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ
دنیاوی معاملات میں ہمیں اس کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کو
دنیاوی معاملات سے نکال کر مذہبی ذہن سے سوچا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس جملہ
کا ہمارے دین سے بھی بڑا گہرا تعلق ہے اور اندازا ہوا کہ اس جملہ کے اندر
کتنی گہرائی ہے کتنی سچائی ہے بس پھر میں نے اس پر اپنی تحقیق کا زاویہ
بڑھایا اور اس کی حقیقت آج کی اس تحریر میں اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے تو ہم اس جملہ کے معنی کے اوپر
بات کرلیتے ہیں یعنی " جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا
نہیں " اگر ہم دنیاوی اعتبار سے دیکھیں تو اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ہمارے
اردگرد موجود بیشتر لوگ جو نظر آتے ہیں وہ ویسے ہوتے نہیں ہیں قول و فعل
میں تضاد کی بیماری ہمارے یہاں عام ہے اور اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کہتے
کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں اور یہ بیماری آج کے معاشرے میں ہر تیسرے انسان
میں موجود ہے اس مذکورہ جملہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے حالات کے پیش
نظر ایک انسان جھوٹ ، فریب اور غلط بیانی سے کافی دولتمند اور مالدار
ہوجاتا ہے جبکہ اس کے اس مقام تک پہنچنے کے پیچھے کی حقیقت سے کوئی واقف
نہیں ہوتا یعنی جو دکھتا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتی اور نہ ہی جو حقیقت ہے وہ
نظر آتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر کسی نمازی پرہیزگار انسان کو چوری کی
واردات کرتے ہوئے یا کوئی اور جرم کرتے ہوئے پکڑا جائے تو آپ کیا کہیں گے ؟
کیا سمجھیں گے ؟ یا اگر کسی دھوکے باز فراڈیے اور غلط بیانی کرنے والے کو
نماز کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے ؟ کیا سمجھیں
گے؟ اسی طرح بعض اوقات ہم دو لوگوں کو بات کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے دل میں
سوچ لیتے ہیں کہ یہ لوگ کیا بات کررہے ہیں لیکن جب معلوم ہوتا ہے تو اصل
حقیقت کا پتہ چلتا بس یہ ہی وہ حقیقت ہے کہ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور
جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب ہم اللہ تعالیٰ کی مصلحت اور اس کی مرضی
کی بات کرتے ہیں تو یہاں بھی ہمیں اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا
ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے بعض فیصلوں پر ہمیں حیرانگی بھی ہوتی ہے اور دل
ماننے کو تیار بھی نہیں ہوتا لیکن ایک اہل ایمان مسلمان ہونے کے ناطے اس کی
مصلحت کے پیش نظر اس فیصلے کو ماننا پڑتا ہے اور ماننا چاہیے حالانکہ وہاں
ہمیں دکھائی کچھ دیتا ہے اور حقیقت میں ہوتا کچھ اور ہے اور اس معاملے کے
بارے میں ہمیں قرآن مجید اور احادیث میں کئی واقعات ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر
اندازا ہوتا ہے کہ واقعی یہاں جو ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا اور جو دکھتا
ہے وہ ہوتا نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں میں ایک واقعہ تحریر کرنا چاہوں گا
جسے پڑھ کر آپ کو آج کے موضوع کے صحیح معنی اور حقیقت بالکل صاف اور واضح
ہو جائے گی دراصل ایک دفعہ آسمان پر دو فرشتوں کی ملاقات ہوئی دونوں نے ایک
دوسرے کے حال احوال پوچھے ایک فرشتہ نے دوسرے سے کہا کہ آج اللہ تعالیٰ نے
مجھے ایک ایسا کام کرنے کا حکم دیا جو میں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا تو
صحیح لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ آخر وہ کام اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کیوں
کروایا ؟ اس پر دوسرے فرشتہ بولا کہ آج میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ
رب تعالی نے مجھے ایک ایسا کام کرنے کو کہا جو میں نے اس کے حکم کی وجہ سے
کیا تو ہے لیکن مجھے بھی نہیں معلوم کہ یہ کام مجھ سے کیوں کروایا گیا ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ بتائو تم نے
کیا کام کیا ؟ تو اس نے کہا کہ ایک شخص تھا جو مشرک تھا اللہ تعالیٰ کا
منکر تھا اس نے اللہ کو کبھی اللہ نہیں مانا وہ رزق اللہ کا دیا ہوا کھاتا
تھا لیکن اللہ کو رازق نہیں مانتا تھا اور پھر اس کی زندگی کا آخری وقت
آگیا یعنی دنیا سے رخصتی کا وقت آگیا وہ حالت سکرات میں تھا اس کے بیوی بچے
دوست احباب عزیز واقارب سب اس کے پاس تھے فرشتہ نے کہا کہ میں یہ سارا منظر
اوپر سے دیکھ رہا تھا کہ عین اس وقت اس شخص نے کہا کہ میری آخری خواہش سمجھ
کر ایک کام کردو کہ مجھے کچھ بھنی ہوئی مچھلی کھلادو اسی وقت اس کے رشتہ
دار دریا پہنچے اور کشتی میں بیٹھ کر ایک جال پھینکا تو اللہ تعالیٰ نے
مجھے حکم دیا کہ میں جائوں اور ان لوگوں کی مچھلی پکڑنے میں مدد کروں میں
اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا کی گہرائی میں جا پہنچا اور تمام مچھلیوں کو ان
کے جال تک لے آیا اور یوں ان کے جال میں بیشمار مچھلیاں آگئیں وہ واپس آئے
اور انہوں نے اس شخص کو پیٹ بھر کر مچھلی کھلائی جب وہ کھا چکا تو اللہ
تعالیٰ نے موت کے فرشتہ کو حکم دیا اور وہ اس کی روح قبض کرکے اسے لے آیا
فرشتہ کہتا ہے کہ مجھے حیرت ہوئی کہ جو شخص منکر خدا تھا مشرک تھا جس نے
اللہ کو کبھی رازق نہیں مانا لیکن مرنے سے پہلے اس کی آخری خواہش رب تعالی
نے کیوں پوری کی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کی بات سن کر دوسرے فرشتہ نے کہا کہ آج
میں اوپر بیٹھ کر دیکھ رہا تھا کہ ایک شخص جو نمازی پرہیزگار ہونے کے ساتھ
ساتھ اللہ کے خوف سے آنسو بہانے والا تھا اور اس کا اخلاق بھی بہت اچھا تھا
جب اس کا آخری وقت آیا اور وہ حالت سکرات میں تھا تو اس کے سرہانے اس کی
بیوی موجود تھی اس نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ مجھے ایک چمچ زیتون کا تیل
اگر مل جائے تو اس کی بیوی فورآ اٹھی اور پاس پڑی ہوئی زیتوں کی بوتل سے
اپنے شوہر کے لئے ایک چمچ میں زیتون ڈال کر اس کے پاس پہنچنے والی ہی تھی
کہ مجھے اللہ تعالٰیٰ نے حکم دیا کہ میں اسی وقت زمین پر جائوں اور اس سے
پہلے کہ وہ شخص زیتون سے بھرے ہوئے چمچ کو اپنے منہ سے لگائے اسے یہ تیل نہ
پینے دیا جائے لہذہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر میں تیزی کے ساتھ اس شخص کے گھر
پہنچا اور اپنے پروں سے اتنی تیز ہوا چلائی کہ زیتون سے بھرا وہ چمچ اس
عورت کے ہاتھ سے گرگیا اور اسی وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے موت کے فرشتہ کو
حکم دیا کہ اس کی روح قبض کرلے اور موت کے فرشتہ نے اللہ کے حکم سے اس کی
روح قبض کرلی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دونوں سوچنے لگے کہ ایک شخص جو مشرک بھی
تھا اللہ تعالیٰ کا نافرمان بھی تھا لیکن اس کی آخری خواہش رب العزت نے
پوری کردی جبکہ ایک اہل ایمان شخص جو نمازی پرہیزگار بھی تھا اللہ تعالیٰ
کے خوف سے رویا کرتا تھا اس کی آخری خواہش پوری نہ ہوسکی ان دونوں فرشتوں
کو جو نظر آرہا تھا وہ وہی سوچ رہے تھے لیکن جو حقیقت تھی وہ اس سے بیخبر
تھے رب تعالی ان کی باتیں سن رہا تھا ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں یہ راز
جاننا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا تو فرشتوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے
پروردگار تیری مصلحت تو ہی جانے کیونکہ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ تیرے ہر کام
میں تیری منشاء اور تیری مصلحت کارفرما ہوتی ہے لیکن اگر یہ تجسس اور اس
راز سے پردہ اٹھانے میں تو بہتری سمجھتا ہے تو ہمیں اس معاملے کا راز بتادے
تاکہ ہمارے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو اور ہمیں بھی یہ معلوم ہو کہ اس میں
تیری کیا مصلحت پوشیدہ تھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک وہ
شخص جو مشرک تھا میرا نافرمان تھا میرا عطا کیا ہوا رزق کھاتا تھا مگر مجھے
رازق ماننے کے لئے تیار نہ تھا لیکن میں رب المسلمین نہیں ہوں بلکہ رب
العالمین ہوں دنیا میں جو آیا اس کی موت زندگی اور رزق کا میری طرف سے وعدہ
ہے اس شخص نے زندگی میں ایک ایسی نیکی کی تھی جو مجھے بہت اچھی لگی اور میں
نے اس نیکی کو قبول بھی کرلیا تھا لہذہ اس کی اس نیکی کے طفیل اس کا بدلہ
اس کی آخری خواہش کو پورا کرکے اسے دنیا میں اس کا اجر عطا کردیا تاکہ بروز
قیامت اسے کچھ نہ دینا پڑے کیونکہ قیامت کی ارائیشوں اور رعانائیوں کا تعلق
صرف اہل ایمان مسلمان سے ہے کافر مشرک یا مرتد کا کوئی حصہ نہیں جبکہ وہ
شخص جو نمازی پرہیزگار تھا زاہد و عابد تھا میرے خوف سے آنسو بہاتا تھا
لیکن اس نے زندگی میں ایک ایسا گناہ کیا تھا جس کی سزا اس کی آخری خواہش کو
پورا نہ کرکے اسے دنیا میں ہی دے دی تاکہ بروز قیامت اس کی عبادتوں کا صلہ
اسے دے سکوں اب تم دونوں آنکھ اٹھا کر دیکھ لو کہ ان دونوں اشخاص کا ٹھکانہ
کہاں اور کیا ہے یوں جب فرشتوں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو مشرک و نافرمان
شخص جہنم کی آگ میں جل رہا تھا جبکہ مسلمان جنت کے باغوں میں ٹہل رہا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے ہمیں ایک تو یہ پتہ چلا کہ ہم
جو ہمارے ارد گرد بسنے والے یہودی ، کافر ، مشرک ، منافق اور مرتد لوگ
عیاشیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہوتی ہے تو دراصل
دنیا میں یہ ان کو جنت مل جانے جیسا ہے وہ اس دنیا میں جو چاہیں کریں جس
طرح چاہیں رہیں جبکہ قیامت میں ملنے والی نعمتوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں
ہے جبکہ ایک اہل ایمان مسلمان جو نیک اور پرہیزگار ہے اللہ کے خوف سے آنسو
بہانے والا ہے اگر اس پر کوئی پریشانی یا مصیبت آجاتی ہے تو وہ دنیا میں ہی
اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں جبکہ بروز محشر اس کے لئے اللہ تعالیٰ
کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے اس واقعہ میں ہمیں ایک یہ بات بھی سمجھنے کو ملی
کہ فرشتوں کو بظاہر جو نظر آرہا تھا اس کی بنا پر انہوں ایک رائے قائم کرلی
جبکہ جو حقیقت تھی وہ انہیں نظر نہیں آئی بمصلحت خداوندی لیکن جب حقیقت
واضح ہوئی تو ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی کا اچھی طرح سے
علم ہوگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں اور جو دکھتا ہے
وہ ہوتا نہیں یہ ہماری دنیاوی زندگی اور آخرت کی زندگی دونوں جگہوں پر اپنی
گہرائی اور اس کے اندر پوشیدہ راز لئے ہر لمحہ موجود ہے اسی لئے جب ہم اپنے
ارد گرد دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے اب دیکھیں ایک
دفعہ ایک شخص مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آیا جب جماعت ہوگئی اور لوگ نماز
پڑھ کر واپس جانے لگے تو دیکھا کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑا
کر دعا مانگ رہا ہے زاروقطار رہا ہے جو لوگ اسے دیکھ رہے تھے وہ اس کو دیکھ
کر سوچنے لگے کہ یہ شخص کتنا رورہا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کے
آسی طرح آنسو بہانا پسند ہے اب ان لوگوں کو جو نظر آیا اس پر انہوں نے اپنے
ذہن میں اس شخص کے لئے رائے قائم کرلی لیکن جب وہ وہاں اپنے آنسو صاف کرتے
ہوئے اٹھا اور مسجد کے باہر کی طرف جانے لگا تو اچانک اس کے جیب میں موجود
موبائیل فون بجنے لگا ابھی اس نے فون اٹھایا ہی تھا مسجد سے باہر اس کا
پائوں گیا ہی تھا کہ وہ فون پر گالی گلوچ کرنے لگا اور اس کے منہ سے جو
الفاظ نکلے وہاں پر موجود لوگوں کو اس بات کی بالکل توقع نہ تھی اور اس کی
یہ حرکت دیکھ کر وہ لوگ جنہوں نے اس کو تھوڑی دیر پہلے مسجد میں اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ہوئے دیکھا تھا وہ حیران ہوگئے اور ان لوگوں
کی رائے یکثر مختلف ہوئی اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم نے کیا سوچا
تھا اور وہ کیا نکلا یعنی جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں اور جو دکھتا ہے وہ
ہوتا نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری روزمرہ زندگی میں ہمیں اس جملہ " جو
ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں اور جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں " کا کئی جگہ پر سامنا
کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے درمیاں موجود لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہے کہ وہ
جو نظر آتے ہیں اندر سے ایسے ہوتے نہیں ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کسی کی
صورت مت دیکھئے بلکہ سیرت دیکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ کیجئے کیونکہ بعض
خوبصورت چہروں کے پیچھے سیا ہی اور بعض سیاح چہروں کے پیچھے خوبصورتی
پوشیدہ ہوتی ہے بس ظاہری آنکھوں کی بجائے دل کی آنکھوں سے دیکھیں سب کچھ
صاف صاف دکھائی دے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہر اس واقعہ پر یا حکایت پر جسے سنتے ہوئے
یا پڑھتے ہوئے کچھ عجیب لگے یا اس کی حقیقت سمجھ میں نہ آئے توکسی علم والے
سے اس کی حقیقت کا پتہ کیجئیے اور اگر پھر بھی دل مطمئن نہ ہو تو سمجھ
لیجئے کہ اس کے پیچھے پوشیدہ حقیقت کا راز صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور
ہمارے سمجھ میں نہ آنے میں اس رب العالمین کی مصلحت کارفرما ہوگی لہذہ یہ
بات صاف اور واضح ہے اور اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ " جو
ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں اور جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں" اللہ ہمیں سمجھنے اور
اس پر پختہ یقین رکھ کر اس عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی
الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|