دھوپ کی دیر سہ پہر کی روشنی چھوٹے سے کمرے میں ایک نرم
سی حرارت بھر گئی، اس کی سنہری کرنیں باریک پردوں میں سے چھن رہی تھیں۔ ہوا
میں معلق دھول کے ذرات ان کرنوں میں ناچ رہے تھے، لمحے کی خاموشی میں جکڑے
ہوئے۔ ایما کھڑکی کی دہلیز پر بیٹھی تھی، اس کی ٹانگیں آزادانہ لٹک رہی
تھیں، ہلکی سی جھولتی ہوئی، جب کہ وہ باہر کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔
وہ نیچے کی مصروف گلی کو دیکھ رہی تھی، جہاں زندگی ایک نہ ختم ہونے والے
دریا کی طرح بہہ رہی تھی۔ لوگ جلدی میں گزر رہے تھے، ان کی ہنسی اور باتیں
مل کر ایک خوشگوار سمفنی بناتی تھیں، اور قریبی بیکری سے تازہ روٹی کی
خوشبو کھڑکی سے اندر آ رہی تھی۔ ہر سانس اسے سکون کا احساس دلاتی تھی، اس
کے خیالات کی قید سے عارضی رہائی۔
ایما کو ہمیشہ اس چھوٹے کمرے کے کونے میں سکون ملا تھا۔ یہ کھڑکی، جو دھوپ
میں سرسبز جڑی بوٹیوں سے گھری ہوئی تھی، اس کا ذاتی پناہ گاہ تھی—باہر کی
دنیا، خوابوں اور خیالات کی طرف ایک جھروکہ۔ لیکن آج، اس کی نظر ایک خاص
منظر پر جا ٹھہری: ایک بچہ آئس کریم کون لیے ہوئے تھا، اور سورج اس کے خوشی
بھرے چہرے پر چمک رہا تھا، جب کہ وہ ایک کھیلتے ہوئے کتے کے پیچھے دوڑ رہا
تھا۔ اس سادہ سی خوشی نے اس کے اندر کسی گہری یاد کو جگا دیا، ایک ایسی
جھلک جسے وہ اپنی زندگی کی راہ میں کہیں دفن کر چکی تھی۔
کھڑکی پر بیٹھی ہوئی، یادیں اس پر چھا گئیں، ان جذبات کو جگاتے ہوئے جو اس
نے مدتوں سے چھپا رکھے تھے۔ وہ ان دنوں کو یاد کرنے لگی جب وہ بھی بے فکری
سے بھاگتی تھی، اس کے لبوں سے ہنسی جھڑتی تھی، ان بوجھوں سے بے خبر جو بڑے
ہو کر زندگی اس پر ڈال دے گی۔ وہ دن بے ساختہ مہمات سے بھرے ہوئے تھے، جہاں
ایک سادہ سا باغ ایک بادشاہت میں بدل جاتا تھا، اور معمولی لمحے امکانات سے
جگمگاتے تھے۔
ایک نرم سی آہ بھرتے ہوئے، ایما کی انگلیاں لکڑی کی دہلیز پر پھسلنے لگیں،
عمر اور وقت کے نشانوں کو چھوتے ہوئے۔ مہینے گزر گئے تھے جب اس نے زندگی کا
وہ جوش محسوس کیا تھا۔ زندگی ایک معمول میں ڈھل چکی تھی—کام، روزمرہ کے
کاموں، اور خاموش لمحوں کا ایک محتاط توازن، جو اکثر بے رنگ محسوس ہوتے
تھے۔ لیکن وہاں، کھڑکی کے کنارے پر، اس کے اندر ایک بھولا ہوا خواب جاگ
اٹھا: جینے کی خواہش، زندگی کو دوبارہ محسوس کرنے کی تڑپ۔
جیسے اس کے خیالات کا اندازہ لگا کر، باہر کی دنیا بدلنے لگی۔ گلی کے روشن
رنگ شدت اختیار کر گئے، اسے اپنی طرف بلاتے ہوئے۔ ہنسی کی آواز بلند ہو
گئی، اور قریبی پارک میں موسیقاروں کے سازوں کی تیاری کی آواز اسے سادہ سی
دعوت دے رہی تھی: "ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ۔" ایما نے ایک لمحے کے لیے اپنی
آنکھیں بند کیں اور گہری سانس لی۔ اس نے تصور کیا کہ وہ اس رونق میں قدم
رکھ رہی ہے، اپنے کمرے کی حدود کو دنیا کی بے پایاں وسعتوں کے لیے چھوڑ رہی
ہے۔
سورج نیچے کی طرف اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے لمبے سایے ڈال رہا تھا اور
آسمان کو نارنجی اور گلابی رنگوں میں رنگ رہا تھا۔ ایما آگے جھکی، اس کا دل
تیز دھڑکنے لگا۔ ایک عزم کی چمک اس کے سینے میں چمکی، اور اس نے خود سے
آہستہ سے کہا، "یہ وقت ہے۔"
آہستگی سے، اس نے کھڑکی کی دہلیز سے اٹھ کر کھڑے ہو کر باہر دیکھا۔ اب صرف
ایک مشاہدہ کرنے والی نہیں، اس نے اپنے بال پیچھے کیے، اپنے کپڑے ٹھیک کیے،
اور کھڑکی سے ہٹ کر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ کمرہ زندگی کی نئی توانائی سے
بھر گیا، اور ایک عرصے بعد، اس کے جسم میں جوش کی لہر دوڑ گئی۔
آخری بار اپنے پناہ گاہ پر ایک نظر ڈال کر، اس نے دروازہ کھولا اور باہر
قدم رکھا۔ ہوا نے ایک پرانے دوست کی طرح اس کا استقبال کیا، اور اس نے
زندگی کے جوش کو اپنے اندر محسوس کیا۔ ابھی بہت سی مہمات باقی تھیں، خوشیاں
دریافت ہونے کے انتظار میں تھیں، اور اس کے کھڑکی کے باہر ایک دنیا زندہ
وعدوں سے بھری ہوئی تھی۔
اور جب وہ مانوس گلی سے گزری، تو باہر کی دنیا کی گونج ان امکانات سے
بھرپور تھی جو اب اس کے لیے تھے۔
|