کہا جاتا ہےکہ کسی بھی انسان کو کامیاب ہونے کے لیے تین
چیزوں کا ہونا بے حد ضروری ہے اور اسے کامیابی کی تکون یعنی Triangle کے
نام سے جانا جاتا ہے؛
١۔ لگن (Dedication)
٢۔ موقع یا مناسب وقت (Opportunity)
٣۔ وسائل (Resources)
آئیے ہم کامیابی کی اس تکون کا مختصر مگر عملی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حال ہی میں میری ملاقات تین مختلف لوگوں سے ہوئی۔ ان تین مختلف کرداروں کے
فرضی نام محمود، احمد اور علی ہیں۔
علی انتہائی غریب انسان ہے جس کے پاس نہ تو وسائل موجود ہیں اور نہ ہی کوئی
موقع تلاش کرنے کی کوئی لگن پائی پائی جاتی ہے۔ لیکن ایک خاص صلاحیت جو
وافر مقدار میں علی کے پاس ہے وہ جنونِ بحث اور جہاں بھر کی معلومات۔ علی
اپنی اس خاص صلاحیت کی وجہ سے انتہائی خراب اور خستہ حال زندگی گزارنے پر
مجبور ہے۔
دوسری طرف احمد ہے، جس کے پاس وسائل بھی موجود ہیں اور مناسب موقع اور بے
انتہا وقت میسر ہے لیکن غربت اور افلاس کی زندگی اس کا مقدر بن چُکی ہے اور
وجہ ہے لگن کی قلت یعنی Lack of Dedication
اب ہم محمود کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں جس کے پاس کوئی خاص وسائل موجود
نہی ہیں لیکن زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کی خواہش کی بدولت وہ ہمہ
تن اپنے لیے نئے مواقع اور وسائل کی تلاش میں بھرپور لگن (Dedication) کے
ساتھ دن رات محنت کرنے میں مگن رہتا ہے۔ جس میں وہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔
اس کے پاس باتیں کرنے کا وقت نہی ہے بلکہ ایک دریا کی طرح سمندر کی آرزو
میں اپنا راستہ خود بناتا ہے، فصلیں سیراب کرتا ہے گاؤں گاؤں قریہ قریہ جا
کر لوگوں میں جینے کی امنگ بھرنے لگتا ہے خوشیوں کے گیت سناتا ہے۔
اگر غور کریں تو ہمارے اردگرد کئی محمود، علی اور احمد نظر آئیں گے۔
کئی لوگ محض باتونی ہوتے ہیں اور سچی جھوٹی، من گھڑت کہانیاں سنانے، سیاست
کی بے وقعت مباحثوں میں اپنا اور سنے والوں دونوں کا قیمتی وقت برباد کرتے
ہیں۔
کئی لوگ اچھا وقت آنے کے جھوٹے گمان میں عمر بسر کر رہے ہیں، اپنی سستی،
کاہلی کا مرض کو قبول کرنے کے بجائے اپنی مجبوریاں، لاچاریاں سنا کر لوگوں
سے ہمدردی حاصل کرتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے ماں
باپ خاندان بلکہ انسانی معاشرے میں اپنا ذمہ دارانا کردار نبھا کر سب کے
لیے رحمت بن جاتے ہیں۔ پر امید، باوقار اور محنتی لوگ نہ صرف اس دنیا میں
کامیاب ہوتے ہیں بلکہ اللہ اور اسکے محبوب نبی محمد مصطفیٰ ﷺ کی بارگاہِ
اقدس میں بھی اپنا مقام بنا لیتے ہیں۔
کیونکہ جب سست اور کاہل انسان اپنا قیمتی وقت غیر موثر سرگرمیوں میں صرف
کرتا ہے جس کا حاصل ناکامی اور نامرادی ہو، تو وہ مایوسی، غربت اور ناشکری
کی زندگی گزارتا ہے۔
اگر قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے تو؛ وقت کا ضیاع گناہ، سستی ، کاہلی نا
امیدی، ناشکری سب گناہ کے کام ہیں۔ اور دنیاوی زندگی میں، مَیں ایسے کئی
لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جن کے بچے اچھا کھانے، اچھا پینے، پہننے کے
لیے ترستے ہیں ان کو بیویاں شب و روز محنت کر کے بچوں کی پرورش کے ساتھ گھر
کا راشن پورے کرنے لیے مصروف رہتی ہیں اور شوہر باہر کسی محفل میں بیٹھ کر
یا سوشل میڈیا پر سیاست کے تجزیوں اور اقوامِ متحدہ کے رویوں پر مباحثے میں
مشغول ہوگا۔
حرفِ آخر؛
اپنی زندگی کو مقصد بنائیے اگر آپ دنیاوی و مادی زندگی سے نفرت کرتے ہیں تو
پھر انسانیت کے لیے یا دینِ خدا کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں۔
دین اسلام سیکھیں اور سکھائیں۔
حدیث: ”تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے"
انسانیت کے کام آئین
کوئی بھی ہنر سیکھیں اور سکھائیں۔
اگر اللہ نے آپ کو کسی خاص صلاحیت سے نوازا ہے تو لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔
اپنی بیوی بچوں کا حلال رزق سے اچھے طریقے سے پیٹ پالیں
کیونکہ اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے
اللہ کا شکر ادا کریں کیونکہ اللہ ناشکری کرے والے کو پسند نہی کرتاتا بلکہ
شکر گزار بندوں سے خوش ہوتا ہے زیادہ نوازتا ہے۔
اللہ کا ذکر کریں کیونکہ ذکر نہ کرنے والے لوگ اللہ کے نزدیک مردہ ہیں۔
انسانیت کے کام آئیں معاشرے کے لیے رحمت بنیں۔
یقین کریں! کسی بھی انسان کی نیک نیت،سوچ اور لگن اس کو اس دنیا میں بھی
خوشحال و کامیابی بنا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اللہ کہ رحمت اور اس کے
محبوب نبی ﷺ کی شفاعت کا حقدار بنا سکتی ہے۔ اس کے برعکس بغیر مقصد کے
زندگی، دنیا میں بھی افسوس کا باعث بن سکتی ہے اور آخرت میں بھی عذاب کا
باعث بن سکتی۔ |