میں ایک سینئر سٹیزن ہوں اور اپنے دوسرے ساتھیوں اور
دوستوں کی طرح فارغ سارا دن گھر میں گزارتا ہوں۔ میری اکلوتی بیگم میرے
ساتھ ہوتی ہے۔ مجھ پر بہت مہربان ہے۔ اس کی مہربانی سے مجھے چائے ، فروٹ،
کھانا اور سب کچھ وقت پر ملتا ہے۔یہ وقت بھی اسی کے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ میں
ہلتا جلتا کم ہی ہوں۔ بس ایک کرسی ہے جس پر میں اہل اقتدار کی طرح قابض ہوں
اور انہی کی طرح اسے چھوڑنے کو تیار نہیں۔بڑھاپے میں حکمرانی کی عادت ابھر
کر آتی ہے اور اس عادت اور حکمرانی کی طاقت کا نشانہ بیگمات ہی بنتی
ہیں۔مگر میں ڈرتا ہوں اور خوئے حکمرانی کو سنبھال کر رکھتا ہوں کہ کہیں
الٹی نہ پڑ جائے۔کہتے ہیں کہ اس عمر میں میاں بیوی بغیر وجہ کے کسی نہ کسی
وقت آپس میں لڑتے رہتے ہیں مگر کیوں یہ شاید انہیں خود بھی پتہ نہیں ہوتا۔
میں پہلے بھی ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں کہ ایک دوست کا فون آیا۔ پوچھنے لگا
کہ کیا کر رہے ہو۔میں نے بتایا کہ فارغ ہوں اور کچھ نہیں کر رہا۔ اس نے
پوچھا، بیگم کہاں ہے ۔ جواب دیا کہ قریب ہی ہے۔ مجھے کہنے لگا، احمق آدمی
اس عمر میں فارغ رہنا اپنی عمر کم کرنا ہے۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چائیے۔
خود کو مصروف رکھواور کچھ کام نہیں تو پاس بیٹھی بیگم سے بے وجہ لڑنا شروع
کر دو کہ ’’اک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘‘۔میں نے معذرت کی کہ بھائی
کوئی تجربہ نہیں ، کچھ مثال دو کہ واضع ہو کہ کیسے ہمت کی جاتی ہے۔ہمت کی
بات سن کر ہنسنے لگا ، ہمت کی کونسی بات ہے۔ اب سنوکیسے لڑائی کی ابتدا کی
جاتی ہے۔میری بیگم کی سالگرہ تھی ۔ بولی آج مجھے کوئی مہنگی چیز لے کر دو۔
میں نے کہا چلو۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور سیدھے پٹرول پمپ پر پہنچ گئے۔ میں
نے ایک بوتل نکالی اور پوچھا کتنے لٹر لے دوں۔ اس نے کہا کیا مطلب۔ میں نے
جواب دیا تم نے مہنگی چیز مانگی تھی ۔ یہ پٹرول مہنگائی کی ماں ہے۔ اس سے
بہتر کوئی مہنگی چیز نہیں ہو سکتی۔ بس اسی وقت جھگڑا شروع ہو گیا۔ میں نے
لاکھ سمجھایا کہ حکومت پٹرول کی قیمت میں کبھی بیس، کبھی تیس اور کبھی
چالیس بڑھاتی ہے۔ تمام نقل وحمل چاہے وہ چیزوں کی ہو یا انسانوں کی اسی
پٹرول کی محتاج ہے۔ اس کی قیمت بڑھتی ہے تو سب قیمتیں محو پرواز ہو جاتی
ہیں۔ ہر چیز کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔ پھر حکومت اعلان کرتی ہے کہ عوام کی حالت
مہنگائی نے جو بگاڑی ہے اس پر ترس کھا کر جناب وزیر اعظم نے پٹرول کی قیمت
میں پچاس پیسے کمی کر دی ہے۔ مگر اس کمی سے بس عوام کے حصے میں احسان ہی
آتا ہے مہنگائی وہیں رہتی ہے۔میری بیگم مگر بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں
تھی۔ ہم گھر واپس آ گئے۔ جھگڑا چلتا رہا۔ چار پانچ دن بڑے اچھے کٹ گئے۔
میرا وہ ذہین دوست بتانے لگا کہ میں اور میری بیگم یورپ گئے ہوئے تھے ۔ دس
پندرہ دن کا قیام تھا۔بیگم روز کہیں نہ کہیں جانے کی ضد کرتی۔ مجبوراً مجھے
جانا پڑتا۔ مہنگے ملک،اندھے اخراجات ،مجھے پریشانی کا سامنا تھا۔میں چاہتا
تھا کہ کچھ دنگل ہو جائے تو باقی دن سکون سے گزر جائیں۔ وہ میڈ کاؤ کا
زمانہ تھا۔ یورپ کی کچھ گائیں اور بھینسیں کسی بیماری کے سبب پاگل ہو گئی
تھیں اور لوگ گائے کے گوشت سے ، حکومت کی ضمانت کے باوجود کہ عوام کو صحیح
گوشت دیا جا رہا ہے، بیف سے پرہیز کرتے تھے۔ ہم ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے
تھے۔ میں نے صرف اپنے لئے بیف سٹیک کا آرڈر دیا۔ ویٹر کہنے لگا۔ آپ کے لئے
بیف سٹیک، مگر آپ کا میڈ کاؤ کے بارے کیا خیال ہے ۔ میں نے کہا، میں کچھ
نہیں بتا سکتا، سامنے بیٹھی ہے ، اسے پوچھ لو کیا کھانا چاہتی ہے۔میرا یہ
مذاق اسے ایک آنکھ نہ بھایا اور وہیں لڑائی شروع ہو گئی۔ بقیہ دن بڑی سکون
سے ہلکی پھلکی جھڑپوں کے ساتھ ہم نے گزارے۔ میں بڑے سکون میں رہا اور بچت
بھی خوب رہی۔یہ تو خیر میرے ذہین دوست کی آپ بیتی تھی مگر بڑھاپے میں میاں
بیوی عموماًایک دوسرے سے کچھ نالاں نظر آتے ہیں۔ اس کی وجوہات نفسیات دانوں
کے نزدیک کئی ہیں۔
بڑھاپے میں بیماریاں عام ہوتی ہیں۔ بڑھاپا بذات خود ایک بیماری ہے۔بیماری
کی وجہ سے ذہنی کھچاؤ اور پریشانیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں کو چڑ چڑا
کر دیتی ہیں اور وہ بات بات پر دوسروں سے الجھنے لگتے ہیں۔
پڑھاپے میں میاں فارغ ہوتا ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ
وقت گزارتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کے درمیان کسی نہ کسی بات پر اختلاف
ہونا بڑی فطری بات ہے۔
بڑھاپے میں انسان کو بہت سے پیاروں سے محروم ہونا اور آئے دن کسی عزیز یا
دوست سے بچھڑنے کا غم برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ یہ صدمے بھی انسان کے مزاج کو
کافی بدل دیتے ہیں اور وہ تلخ ہو جاتا ہے۔
انسان کو کام کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن کچھ نہ کچھ اخراجات ضرور منہ کھول کر
کھڑے ہوتے ہیں یہ صورت حال بھی انسان کو پریشان کرتی ہے اور خواہ مخواہ
میاں بیوی میں تلخی کا باعث ہوتی ہے۔
بڑھاپے میں انسان کی یاد داشت کمزور ہو جاتی ہے۔ اس چیزوں کو کہنے ، بتانے
اور واضع کرنے میں مشکل پیش آتی ہے ۔ یہ ایک طرح کی محرومی ہے جس سے انسان
غصے اور پریشانی کا شکار ہوتا ہے اور اس کا نشانہ اس کا ساتھی ہی ہوتا ہے ۔
چنانچہ دونوں ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں۔
اس عمر میں انسان کی سماعت بھی قدرے کمزور ہو جاتی ہے۔ ایک کہتا کچھ ہے اور
دوسرا سنتا کچھ اور ہے۔ ایک دوسرے کی باتوں کو نہ سمجھنے سے تلخی اور غصے
میں اضافہ ہوتا ہے اور نتیجے میں جھڑپ ایک ضروری عمل ہوتا ہے۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ مگر اس کے باوجودبہت سے میاں بیوی میں اچھی ہم
آہنگی ہوتی ہے اور ان کا طرز عمل ایک دوسرے کے احترام پر استوار ہوتا ہے۔
کچھ نفسیاتی الجھنیں ضْرور جنم لیتی ہیں اس کے لئے بہتر ہے کہ کسی اچھے
ماہر نفسیات سے مشورہ کیا جائے۔یاد داشت کی کمزوری بڑھاپے کا ایک سنگین
مسئلہ ہے اس کے لئے کسی ماہر دماغ سے بات کرکے اس کا علاج کیا جائے۔ آج
سائنس کا ہم پر احسان ہے کہ ہر بیماری کا کچھ نہ کچھ علاج موجود ہے۔ بڑھاپے
میں کوشش کریں کہ آپ مصروف رہیں اور کسی بھی مرض کو ابھرنے سے پہلے اس کا
علاج کریں۔ کوشش کریں کہ آپ کو غصہ نہ آئے کیونکہ ماہر لوگ کہتے ہیں کہ غصے
میں آپ جتنا اپنے ہاتھ کو دبا کر چھوٹا کرتے ہیں، آپ کی زندگی بھی اسی کے
حساب سے مختصر ہوتی جاتی ہے۔
تنویر صادق
|