غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے خواہش مند مسلم ممالک
میں پاکستان، افغانستان، ایران، صومالیہ اور یمن کے شہری بھی اس طرح کے
کاموں میں شامل ہوگئے۔
افسوس اور شرم کا مقام یہ ہے کہ یہ تمام ممالک مسلم دنیا کا حصّہ ہیں۔ان
ممالک میں گورنینس اور معاشی حالات انتہائی دگر گوں ہیں۔ ان ممالک میں جس
طرح سے حکمرانوں نے مورثی سیاست کی وجہ سے میرٹ کو دفن کردیا اور اپنے
اقتدار کو طول دینے کے لیے ان ملک میں مذہبیت، فرقہ واریت، لسانیت، تشدد
پسندانہ سیاست و فاشسٹ ازم کا روز بروز مضبوط ہونے سے ایل نوجوانوں کے کیے
اچھے روزگار کا ناپید ہونا اور اچھی کوالٹی والی زندگی کے مواقع ناپید ہوتے
جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ، خاص طور پر نئی نسل کے نوجوان اپنے
مستقبل سے مایوس ہوکر جان کی بازی تک لگا کر خطرناک سفر پر نکل پڑتے ہیں۔
پہلے یہ اکیلے جاتے تھے اور اب پورے پورے خاندان ساتھ لے جانے لگے ہیں۔
ایسے بہت سے خاندانوں کو جو یورپ کے چکر میں سفر کرکے تُرکی جا چُکے ہیں
اور شاید کسی دن یورپ بھی پہنچ جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ وہ حالیہ واقعے سے
کچھ سبق سیکھ لیں، جس کی امید کم ہی ہے، کیوں کہ پاکستانیوں کی حد تک تو
یہی تجربہ ہے کہ اُنہیں قانون کی بات کم ہی سمجھ آتی ہے۔ پاکستان کے بڑے
صوبہ پنجاب کے اکثر نوجوان ان غیرقانونی یورپ کے سفر میں جب بھی کوئی حادثہ
ہوتا ہے اس میں میں تقریبا %85 نوجوان پنجاب کے ہوتے ہیں. جبکہ مسلم لیگ ن
کئی دہائیوں سے اس صوبہ میں اقتدار میں براجمان رہی مگر کبھی بھی ان
حُکمرانوں نے صوبہ کے دیگر علاقوں میں ان نوجوانوں کے کیے کوئی روزگار یا
ٹیکنیکل تعلیم پر کبھی توجہ بھی برائے نام دی وہ بھی صرف کاغذوں میں اس
صوبہ میں نوجوان کی تعداد دوسرے پاکستانی صوبوں سے زیادہ ہے ان میں اکثریت
بے روزگار نوجوان ہوٹلوں ، تھلے ، فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر اپنے مستقبل سے
مایوس ہوگئی ہے جب وہ کسی بھی اپنے علاقہ نوجوان کو جو مغرب سے اہنی شادی
کرنے پاکستان آتا ہے اور وہ اور اس کے رشتہ دار جس طرح پیسے ، ڈالر،
موبائیل شادیوں کی تقریبات میں لُٹاتے ہیں اور ہیسہ کی جس طرح بے توقیری
کرتے ہیں تو یہی مایوس بیروزگار نوجوان اور ان کے گھر والے یہی سوچ ان کے
دماغ میں اپنا مسکن بنالیتی ہے کہ یورپ جانے سے ہی ہمارے بچے اور ہمارے گھر
کے حالت بدل سکتے ہیں وہ والدین پھر ہر جائز و ناجائز طریقہ سے اپنی زمین
بیچ کر قرضہ سود پر لیکر ہر جائز و ناجائز طریقے سے آنکھ بند کرکے اپنے بچے
ان بے رحم ایجنٹوں کے حوالے کردیتے ہیں. پنجاب حکومت کو اب بھی آگے بڑھ کر
مغرب سے آنے والے و پاکستان میں نئے دولتیے کو پابند کیا جائے کہ شادی یا
کوئی اور رسومات پر پیسہ کی نمائش پر فی الفور پابندی لگائے اس کے لیے سخت
قانون بنائے نہیں تو یہ نوجوان اور ان کے والدین اس ہی طرح ایجنٹوں کے
ہاتھوں ان بے رحم سمندری موجوں کے نظر ہوتے رہینگے اور حکومت اپنا دو تین
دن کا اخباری بیان جاری کرتی رہیگی.
آج کل بحرِ روم کے ساحل، افریقی ممالک، تُرکی اور یونان انسانی اسمگلرز کی
آماج گاہ بن گئےہیں۔ اقوام متحدہ اور سُپر پاورز ملکوں کو فورا اس پر ان
ممالک کو زور دیکر ان اسمگلروں کی آماجگاہوں پر فورا ایکشن لینا چاہیے
کیونکہ اگر دیکھا جائے تو یہ بھی دہشت گردی کی ایک قسم ہے۔ان کا طریقۂ
واردات یہ ہے کہ یورپ جانے کے خواہش مند افراد سے فی کس پانچ، سات ہزار
ڈالرز کرایہ وصول کر کے اُنھیں ٹرالرز یا لوڈر کشتیوں میں بَھر دیا جاتا
ہے۔ لیبیا جیسے ساحلوں سے، جو اِن دنوں مختلف قبائل کی راج دھانی بنا ہوا
ہے اور انتشار کا شکار ہے، یورپی ساحل بمشکل بیس، پچیس میل کے فاصلے پر
ہیں۔ لوگوں کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ اُنھیں یورپی ممالک میں انسانی حقوق
کے نام پر پناہ مل جائے گی اور پھر مزے ہی مزے ہوں گے۔
ان خبروں کو شہ سرخیوں میں لگوایا جاتا ہے کہ یورپ میں بوڑھوں کی تعداد بڑھ
رہی ہے، اِس لیے اُنھیں کام کرنے والے جوانوں کی اشد ضرورت ہے۔جب کشتی
یورپی ساحل کے قریب پہنچتی ہے، تو اس میں سوراخ کر کے یا کسی چٹان سے ٹکرا
کے ڈیمیج کر دیا جاتا ہے، پھر کوسٹ گارڈز کو جان بچانے کے پیغامات دیے جاتے
ہیں، جب تک وہ بچاؤ کے لیے وہاں پہنچتے ہیں، تارکینِ وطن کی خاصی بڑی تعداد
ڈوب چُکی ہوتی ہے، جو بچ جاتے ہیں، اُنہیں پناہ مل جاتی ہے۔لیکن اس کے بعد
اُنھیں اُن ممالک میں آباد ہونے کے لیے جس قسم کی اذیّت اور ذلت جھیلنی
پڑتی ہے، وہ وہی جانتے ہیں۔
اب صُورتِ حال اِس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ بچّوں اور عورتوں کو اِس لیے
ساتھ بھیجا جا رہا ہے کہ یورپی ممالک کے رحم کے جذبات کو ابھارا جاسکے۔اُن
انسانی درندوں کے خلاف، جو اس غلیظ کاروبار میں مصرف ہیں، کارروائیاں کی تو
جاتی ہیں،لیکن لالچ اور اچھی زندگی کے پُرفریب خواب پھر بھی بہت سوں پر
غالب آجاتے ہیں، اِسی لیے یہ کاروبار آج بھی پَھل پُھول رہا ہے اور
انسانی جانوں کو نگل رہا ہے۔بحرِ ہند کے راستے جانے والے مہاجرین میں
روہنگیا مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے اس کے بعد پاکستان اور دوسرے اسلامی
ملکوں کے نام آتے ہیں جنھیں ایک تو ہزاروں میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور
پھر بھی منزل اور پناہ کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ایک بار کشتی میں سوار ہونے
کے بعد یہ مسافر سمندر کی لہروں اور اپنی تقدیر کے حوالے ہوجاتے ہیں کہ ان
بے وطن افراد کا کوئی والی وارث نہیں رہتا۔
اس معاملے کے تین اہم پہلو ہیں اور تین ہی فریق ہیں۔ایک تو متاثرین اور
انسانی اسمگلر ہیں۔ پھر وہ ممالک ہیں، جو تارکینِ وطن کی منزل ہیں، ان میں
یورپ سرِ فہرست ہے، اس کے بعد امریکا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک
ہیں۔تیسرے فریق وہ ممالک ہیں، جہاں سے یہ تارکینِ وطن تعلق رکھتے ہیں۔
اِسی دوڑ میں دیگر مسلم ممالک کے افراد بھی شامل ہوگئے، جو اچھے مستقبل کے
لیے یورپ جانے کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں
کرتے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔ لیکن اب یورپ اور امریکا میں قوم
پرستی نے اُنہیں ناقابلِ قبول بلکہ نفرت کا نشانہ بنا دیا ہے۔وہاں وہ
جماعتیں اقتدار میں آرہی ہیں، جن کے منشور میں تارکینِ وطن کی مخالفت سرِ
فہرست ہے۔ پھر یہ کہ ان کے مذہب اور روایات کو بھی وہ قبول کرنے کو تیار
نہیں۔
بہت سے مسلم ممالک کی معیشتیں انتہائی کم زور ہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل
ہے. پاکستان تو اس وقت اپنے سیاسی و معاشی مسائل میں اس طرح گھرا ہوا ہے کہ
مایوسی کی کیفیت عوام کو ایک ایسے مقام پر لے آئی ہے کہ اُنہیں انسانی
اسمگلرز کے شکنجے میں پھنسنے پر مجبور ہونا پڑ رہاہے۔ اُنہیں اپنے مُلک میں
اپنا اور اپنے خاندانوں کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا اور نہ ہی یہاں کے
حُکمرانوں کو اس کی فکر ہے.
دُکھ کی بات یہ بھی ہے کہ جنہیں اہلِ علم اور اہلِ دانش کہا جاتا ہے، وہ
گمبھیر صُورتِ حال کو سمجھنے کی بجائے وہ اپنے ٹھنڈے کمروں میں اس ہی کو
اپنی جنت سمجھ بیٹھےاپنے اقتدار کی رسہ کشی میں ہر چوکھٹ ہر سجدہ ریز ہیں
کہ بس اقتدار کی کُرسی کو کچھ نہ ہو. لگتا ہے کہ وہ چلتے پِھرتے روبوٹ ہیں،
جن میں کسی نے کوئی خاص پروگرام انسٹال کردیا ہے اور اُن کا لکھنا، بولنا،
سب اسی پروگرامنگ کے مطابق ہے۔ بہرکف ہر سال اس طرح کے حادثات کی تعداد
بھڑتی جارہی ہے.
پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا یا سوشل میڈیا ہر سال اس ہی طرح کا نوحہ
دو تین دن پڑھ کے اپنی دوکان بھیڑ چلیں گے اور کوئی نئی سانحہ کا انتظار
کرینگے.
|