مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ اور ان کی خوبصورت باتیں

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آج کی تحریر اور آج کا یہ مضمون اپنے حساب سے ایک منفرد اور خاص مضمون ہے ہم حضرت مولانا جلال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اقوال اکثر و بیشتر سنتے رہتے ہیں اور ان سے مستفید بھی ہوتے ہیں کیونکہ " مثنوی رومی " آپ علیہ الرحمہ کا وہ شاہکار ہے جو ہمارے اور ہماری نسلوں کے لیئے ایک خزانے کی مانند ہے آج کے اس مضمون میں میں نے کوشش کی ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کی اس مثنوی سے کچھ خوبصورت باتوں کا ذکر کیا جائے اور ان میں پوشیدہ راز یعنی ان کا خلاصہ کرکے اس کو سمجھنے کی کوشش کرکے اس پر ہم سب عمل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کی باتوں کا ہماری زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے اور اگر انہیں پڑھ کر ، سمجھ کر اپنی زندگی میں ان کو اپنانے کی کوشش کریں تو ہماری زندگی یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق گزرے گی ان شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ نے اپنے اقوال اور اپنی خوبصورت اور بامعنی تحریروں سے لوگوں کی اصلاح کی ہے اور ان کی معروف تصنیف " مثنوی رومی " میں یہ ہی خزانہ موجود ہے آپ علیہ الرحمہ کی سب سے پہلی اور خوبصورت بات جو میں یہاں تحریر کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں جو آپ علیہ الرحمہ نے مثنوی میں لکھی ہے وہ یہ ہے کہ " ایک دفعہ ایک استاد نے کمرے میں موجود ایک شاگرد کو وہ بوتل اٹھاکر لانے کو کہا جو سامنے پڑی ہوئی تھی وہ شاگرد بھینگا تھا یعنی اسے ایک کی جگہ دو نظر آتے تھے لہذہ اسے وہاں دو بوتلیں نظر آئیں تو اس نے کہا کہ استاد صاحب یہاں تو دو بوتلیں پڑی ہوئی ہیں کونسی بوتل لیکر آئؤں تو استاد نے ڈانٹتے ہوئے کہا اپنے بھینگے پن سے نکلو اور زیادہ دیکھنے کی عادت نکال دے تو اس نے کہا کہ استاد صاحب آپ تو طنز پر اتر آئے تو استاد نے کہا کہ اچھا دو میں سے ایک بوتل کو توڑ دے جو بچ جائے وہ لے آ تو اس نے جیسے ہی بوتل توڑی تو اس کے سامنے سے دونوں بوتلیں غائب ہوگئیں "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ نے اس واقعہ سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان محبت اور غصہ کے جذبات میں آکر اکثر اپنے آپ کو بھینگا کر لیتا ہے کیونکہ غصہ اور شہوت انسانی انسان کو بھینگا بنادیتی ہے غصہ کو اسی لیئے حرام کیا گیا ہے کہ انسان غصہ کی حالت میں اپنے آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور کچھ بھی صاف دکھائی نہیں دیتا اور یہ ہی حالت انسان کی دنیا کی محبت میں ہوجاتی ہے لہذہ انسان اپنے سیدھے اور سچے راستے سے بھٹک جاتا ہے اور اسے صحیح و غلط کی پہچان نہیں رہتی اگر اپنے اس بھینگے پن کو ختم کرنا ہے اپنے اندر پیدا ہوجانے والے دوغلے پن کا خاتمہ کرنا ہے تو صرف ایک اور صحیح راستے کا انتخاب کرلیں جو ہمیں سیدھا اللہ تعالیٰ کی طرف لیکر جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کا ایک بہت ہی خوبصورت قول میری نظروں سے گزرا جو مجھے بہت اچھا لگا اور اپنے اندر ہمارے لیئے بہت بڑی سیکھ پوشیدہ کیئے ہوئے تھا میں اس خوبصورت اور بامعنی قول کو اپنی اس تحریر کا حصہ بنانے کی سعادت حاصل کرنا چاہوں گا آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
" اپنے کمال کو دوسروں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا بھی اپنے اندر ایک کمال ہے لیکن اپنی نگاہوں میں اپنے کمالات اگر کمال نہ ہوں تو یہ بھی ایک کمال ہے " ۔
اس خوبصورت اور بامعنی قول میں مولانا رومی علیہ الرحمہ نے ہم لوگوں کو ایک بہت بڑی اور گہری بات سمجھانے اور بتانے کی کوشش کی ہے اور ان خوبصورت الفاظوں کے پیچھے زندگی کے صحیح راستوں کے تعین کا بھی ہمیں پتہ چلتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دراصل جب ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر زندگی کے صحیح راستوں پر چلنے لگتے ہیں تو ہمیں اپنی عبادات اور اپنے نیک اعمال پر کبھی تکبر نہیں کرنا چاہئے ہمیں اپنی عبادات اور نیک اعمال کو جتنا ہوسکے وہ لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کریں صرف آپ کو معلوم ہو اور آپ کے رب تعالیٰ کو علم ہو اب دیکھیں زندگی کے معمولات میں ہم جو عبادت کرتے ہیں وہ اپنی جگہ اجر و ثواب کا باعث ہیں لیکن قرآن اور حدیث میں جو فضائل ہمیں " تہجد " کی نماز کے ملتے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ خود پہلے آسمان پر آکر اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا تو میں عطا کروں اور اس وقت صرف اللہ کی ذات ہوتی ہے اور مانگنے والا ان دونوں کے درمیان تیسرا کوئی نہیں تو دعا کی قبولیت اور مانگنے پر عطا میں کوئی شک نہیں بالکل اسے طرح حکم ہے کہ اپنی عبادتوں اور نیک اعمالوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کی ذات اور آپ کے علاوہ کوئی نہ ہو مولانا رومی علیہ الرحمہ نے اپنے ان خوبصورت الفاظوں کے ذریعے ہمیں یہ ہی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم اپنی عبادتوں اور نیک اعمال کو دوسروں سے پوشیدہ رکھیں تو یہ ایک کمال ہے اور ان نیک اعمال پر تکبر نہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو نیکوکار اور پرہیزگار نہ سمجھے اور نہ اس پر غرور کریں تو یہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک کمال ہے اپنے اندر عاجزی پیدا کریں اور اپنے گناہوں اور خطاؤں کے بدولت ہر وقت زبان ہر توبہ و استغفار جاری رکھیں اب چاہے ہم کتنے ہی نمازی اور پرہیزگار کیوں نہ ہوں ہماری عبادات اور نیک اعمال کا علم صرف ہمیں اور ہمارے رب تعالی کو ہی ہو کیونکہ ہم یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیئے کرتے ہیں اور وہ ہی اس کا صلہ دے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مولانا رومی علیہ الرحمہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
" اگر کوئی بادشاہ تمہیں کسی مخصوص کام کے لیئے کسی دوسرے ملک بھیجے اور تم اس کا فایدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تم اس کام کی بجائے سو کام دوسرے سرانجام دے دو تو یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے تم نے کچھ بھی نہیں کیا اسی طرح اس دنیا میں ہر انسان کو ایک مخصوص کام کے لیئے بھیجا گیا ہے جو اس کا مقصد حیات ہے اگر وہ یہ کام نہ کرے تو جیسے اس نے کوئی کام نہیں کیا " ان خوبصورت الفاظوں کی پیچھے مولانا رومی علیہ الرحمہ نے ہمیں یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کا جو مقصد ہے وہ کیا ہے اور ہم یہاں زندگی کن کاموں میں گزار رہے ہیں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے ہم انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے جن مقاصد کے لیئے اس دنیا میں بھیجا ہے اگر ہم وہ کام سر انجام دینے کی بجائے اپنے نفس کی خواہشات کے پیچھے زندگی کو گزارتے ہیں تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم نے اپنی زندگی میں بغیر کچھ کیئے واپس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق کے بعد اس دنیا میں انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا جن کا مقصد اس کے احکامات کی پیروی کرنا اور اس کے حبیب کریمﷺ کی باتوں پر عمل کرنا تھا لہذہ اس عارضی دنیا میں جس کو جتنا وقت ملا اس نے اپنی زندگی کو اگر اس باری تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق گزارا تو وہ یہاں بھی کامیاب رہا اور ہمیشہ قائم رہنے والی اخرت کی زندگی میں بھی کامیاب ہوگا گویا اس نے وہ کام کیا جس کے لیئے اسے دنیا میں بھیجا گیا اور جس نے اپنے مقررہ وقت میں اپنی زندگی اس رب تعالیٰ کے حکم عدولی میں گزاردی اور اپنے نفسانی خواہشات اور شیطان کی باتوں پر عمل پیرا رہا تو اس عارضی دنیا میں جیسے اس نے کچھ بھی نہیں اور اپنا مقررہ وقت تباہ و برباد کردیا جبکہ آخرت کی زندگی میں بھی اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کی ان خوبصورت باتوں کا یہ خلاصہ تھا جسے پڑھ کر سمجھ کر ہمیں عمل کرنا چاہیئے اور اپنی آخرت سنوارنی چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ مثنوی رومی میں ایک خوبصورت بات لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
" مرشد کامل کی صحبت کے لیئے در بدر پھر کوچہ بکوچہ جا تلاش کر تلاش کر تلاش ۔"
اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ
" اے شخص تو خود سرداری سے باز آجا اور کوئی سردار تلاش کر خود سرداری کا طالب نہ بن نصیحت مان اور کسی کامل کے دامن سے وابستہ ہوجا " ۔ان دونوں ارشادات میں کہنے ، بتانے اور سمجھانے کے مقاصد تقریباً ایک جیسے ہیں حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ نے ان باتوں میں جو سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں ہم میں سے لوگوں کی کثیر تعداد گناہوں میں مبتلا ہے اور ہمارا چھٹکارا بروز قیامت بڑا مشکل نظر آتا ہے لہذہ اس دنیا میں زندگی گزارنے کے مقررہ وقت میں سے جتنا وقت باقی رہ گیا ہے کسی اللہ تعالیٰ کے مقرب اور محبوب بندے کی صحبت اختیار کرکے ان سے اپنی نسبت قائم کرکے اپنے لیئے ان کے وسیلے سے نجات کا راستہ اختیار کرلیں اور اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے اپنی آخرت سنوارنی ہے تو ایسے مرشد کامل کی تلاش کرنا ہوگی اب چاہے اس کے لیئے ہمیں کتانا ہی سفر کرنا پڑے ہمارے بزرگان دین نے بھی مرشد کامل کی تلاش میں اپنی عمریں بتادی پھر کہیں انہیں اللہ کے کسی مقرب اور محبوب بندے کی شکل میں مرشد کامل نصیب ہوئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کسی مرشد کی کوئی حاجت نہیں ہمیں کسی ایسے بندے کی صحبت درکار نہیں ہمیں کسی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیکر اس سے بیعت نہیں کرنی چاہیئے تو یہ ہماری سب سے بڑی بھول ہے کیونکہ حدیث مبارکہ کے تحت" جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے"اچھے لوگوں کی صحبت سے انسان کے اندر اچھائی جنم لیتی ہے جبکہ برے لوگوں سے برائی یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ پھولوں کی صحبت سے ہمیشہ خوشبو پیدا ہوتی ہے جبکہ بزرگوں کی صحبت سے بزرگی انسان جب بھی کسی کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس کے ہر عمل سے اس کے اندر اس کا اثر دکھائی دیتا ہے اسی لیئے یہ کہا گیا کہ اگر ہمیں اپنی اخرت سنوارنی ہے تو کسی نہ کسی مرشد کامل کا دامن تھامنا ہوگا ہمارے فقہاء نے لکھا ہے کہ مرشد کامل ہمیں بروز محشر اپنی چھائوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم تک لیکر جائیں گے اور ان کے وسیلے سے ہمیں حضور ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی تب کہیں جاکر اللہ تعالیٰ کے یہاں ہمارے گناہوں کی بخشش ہوگی کیونکہ ویسے بھی اوپر چڑھنے کے لیئے ہمیں سیڑھیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے ایک ایک زینہ چڑھ کر ہم اوپر تک پہنچتے ہیں بالکل ویسے ہی جب ہم کسی مرشد کامل کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتے ہیں تو وہ سب سے پہلے ہماری صفائی کرتے ہیں ہمارے اندر موجود غلاظت کو صاف کرتے ہیں ہمارے اندر کینہ ، حسد ، غیبت ، چغلی ، ریاکاری ، اور دکھاوے وغیرہ جیسے امراض کا خاتمہ کرکے ہمارے اندر کو صاف و شفاف کرکے ہمارے دل میں ایک صاف جگہ بنادیتے ہیں اور پھر اس حالت میں وہ ہمارے اندر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور قرب الٰہی کا نچوڑ پیدا کرتے ہیں اور جب دل اللہ کی محبت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے سرشار ہوجاتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم تک پہنچ کر اللہ تعالیٰ تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے اور یہ ہی ہے ایک مرشد کامل کے دامن کو مظبوطی کے ساتھ تھام لینے کا فائدہ اس لیئے کہا گیا کہ جب کامل مرشد مل جائے تو اس احکامات کی پیروی دل و جان سے کرو اس کی ہر سخت اور کڑوی بات پر عمل کرو کہ اس میں آپ کی بھلائی ہے جبکہ اگر ہم اللہ کے کسی محبوب اور مقرب بندے یعنی ولی کامل کے دامن سے وابستہ نہیں ہوتے تو شیطان ہمارا مرشد بن کر ہمیں اپنے راستوں پر چلاتا رہتا ہے جو سوائے تباہی و بربادی یعنی جہنم کے علاوہ کہیں نہیں جاتا کیونکہ وہ ہماری اس عارضی دنیاوی زندگی پر اثر انداز ہوکر ہماری آخرت کی زندگی تباہ کردیتا ہے اور یہ اس کے لیئے خوشی کی بات ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے یہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد " بیعت " سے ناواقف ہے اصل میں بیعت کرنا صحبت اختیار کرنا اور نسبت قائم کرنا عام طور پر ایک ہی معنوں میں آتے ہیں ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس دنیا میں جو کرنا ہے خود کرنا ہے ہمیں کسی کی کوئی ضرورت نہیں ایسے لوگ اصل میں بیعت کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں یا مذہبی اعتبار سے اگر ہم ایسے لوگوں کو جاہل کہیں تو غلط نہ ہوگا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم براہ راست اللہ تک رسائی حاصل کرلیں گے یعنی اگر اوپر جانا ہے تو ہمیں سیڑھیوں کی ضرورت نہیں بلکہ آنکھ بند کریں گے اور اوپر کی منزل پر پہنچ جائیں گے جبکہ یہ ناممکن بھی ہے اور ایسی زندگی کا کوئی مقصد بھی نہیں ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ اپنے ان الفاظوں کے ذریعے ہمیں باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ ہم میں سے ہر وہ شخص جو عام انسان میں شمار ہوتا ہے یعنی ہم گناہگار بھی ہیں اور دنیاوی خواہشوں اور اس کی لذتوں کے شیدائی بھی لہذہ بروز محشر ہمیں بڑی تکالیف کا سامنا کرنا ہوگا جبکہ دنیا میں رہکر ہمارا کسی مرشد کامل کے دامن کو تھام لینے سے ان کی صحبت اختیار کر لینے سے ان سے اپنے مرید کے رشتے پر مظبوطی سے قائم ہونے سے وہ ہمارے لیئے باعث نجات کا ذریعہ بن جائیں گے یہ ایک سچی حقیقت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ اس رب تعالی نے ہمیں اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا ہمیں حضور اکرم ﷺ کی زندگی سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگی سے اور اس سلسلے سے چلتے ہوئے اولیاء کرام اور بزرگان دین کی زندگیوں کو ہمارے لیئے مشعل راہ بنا دیا اللہ تعالیٰ کے ہر ولی نے اپنے حساب سے لوگوں کی اصلاح کے طریقے اپنائے ہمارے لیئے ہمارے فقہاء اور اکابرین نے اپنی تحریروں کے ذریعے ہمارے لیئے بیش بہا خزانے چھوڑ رکھے ہیں حضرت مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمہ کی شخصیت بھی ان اکابرین میں سے ایک ہیں آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تدریس اور اقوال کے ذریعے اُمّت کی راہنمائی فرمائی نیز کئی کُتُب بھی تصنیف فرمائیں جن میں ”مَثْنَوی شریف“ کو عالَم گیر شہرت حاصل ہے اس عظیمُ الشّان کتاب سے اِسْتِفادَہ انسان کو بااَخلاق بننے، نیکیاں کرنے اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچنے میں بے حد معاوِن و مددگار ثابت ہوئے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یاد رکھیئے ہمیشہ کوشش کرکے اپنی صحبت اچھے لوگوں کے ساتھ رکھیں اپنی نسبت ایسے لوگوں کے ساتھ قائم کریں جو بروز قیامت آپ کی نجات کا ذریعہ بنیں اور اللہ تعالی کے کسی مقرب مرشد کامل کا دامن تھام لیں تاکہ بروز محشر ان کے وسیلے سے اپنے گناہوں سے نجات مل سکے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہمیشہ اچھے لوگوں کی صحبت سے وابستہ رکھے مرشد کامل کا دامن تھامنے اور ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور بروز قیامت ان کی زیر سایہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی شفاعت عطا فرمائے اور ان کے صدقے رب تعالی ہمیں بے حساب بخشش و مغفرت عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 171 Articles with 138174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.