سرگزرِ عدم کی سرحد پر

ایک صوفی کا سفر، جو وجود کی ظاہری قید سے آزاد ہوکر فنا و بقا کے درمیان معنی کی تلاش میں ہے، اس لمحے کی تصویر کشی کرتا ہے جہاں انسان مادیت کے جمود سے نکل کر حقیقتِ ازلی کے دروازے پر پہنچتا ہے۔

کسی اجاڑ بستی کی سنسان گلی میں، جہاں وقت کی چاپ بھی دبے قدموں چلتی ہے، ایک مردِ تنہا، جو بظاہر عام ہے مگر اس کی چال میں وہ سکون چھپا ہے جو ظاہر اور باطن کے فاصلے کو مٹا دیتا ہے۔ اس کا لباس سادہ، مگر اس کے اندر کی دنیا بےحد وسیع۔ وہ قدم بہ قدم، گزرے ہوئے اور آنے والے لمحوں کے درمیان ایک ناپید پل کی طرح، چلتا جا رہا ہے۔

اس کے سامنے ایک عجیب دروازہ ہے، روشن اور مہیب، جو نہ صرف فزیکل دنیا کا حصہ معلوم ہوتا ہے بلکہ کسی ازلی و ابدی حقیقت کا مظہر بھی ہے۔ وہ دروازہ کوئی مادی ساخت نہیں رکھتا، بلکہ ایک علامت ہے، فنا کے اس موڑ کی جہاں سے بقا کی راہیں شروع ہوتی ہیں۔
"فنا کی منزلیں آسان نہ تھیں،
قدم رکھے تو دل لرزا، مگر پرواز بھی ملی۔" (شاکرہؔ نندنی)

یہ دروازہ اس کی زندگی کے فلسفے کی نمائندگی کرتا ہے، جہاں انسان مادی بستیوں کو پیچھے چھوڑ کر اس حقیقت کی تلاش میں نکلتا ہے، جو اس کے وجود کو حقیقی معنی عطا کرے۔ بستی کے دونوں جانب جھونپڑیاں، جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ایک خواب کی باقیات ہیں، زندگی کی محدودیت کا مظہر ہیں۔
دروازے کے قریب پہنچ کر صوفی نے اپنے اندر کی آواز کو سنا۔ یہ آواز اس کی اپنی تھی، مگر کسی اور جہت سے گونج رہی تھی:
"کیا تُو وہی ہے جو بستی میں کھو گیا تھا؟
کیا تُو وہی ہے جس نے حقیقت کو خواب جانا؟" (شاکرہؔ نندنی)

اس لمحے، صوفی نے خود کو مکمل طور پر ہوا کے سپرد کر دیا۔ ہوا، جو نہ دیکھائی دیتی ہے نہ پکڑی جا سکتی ہے، مگر زندگی کی بنیاد ہے۔ یہی ہوا اس کے جسم اور روح کے درمیان پل بن گئی۔
"کہیں ہوا کے جھونکے میں راز چھپا ہے،
کہیں سکوت کی گہرائی میں، خودی کی صدا ہے۔" (شاکرہؔ نندنی)

یہ دروازہ انسان کی زندگی کے ہر اس موڑ کی نمائندگی کرتا ہے، جہاں فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے: رہنا یا آگے بڑھنا۔ صوفی نے بستی کی محدودیت کو پیچھے چھوڑ دیا اور اس دروازے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ دروازے کے اس پار کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے اسے اپنی ذات کو مکمل فنا کرنا تھا۔
"ازل کے دروازے پر جو جا پہنچے،
وہ خودی کو چھوڑ، ہمہ ہو گئے۔" (شاکرہؔ نندنی)

صوفی نے اپنی تمام تر خواہشات، ماضی کی یادیں اور مستقبل کے خواب، سب کو فنا کی نذر کر دیا۔ دروازہ کھلا، اور روشنی کا ایک جھونکا اس کی روح کے اندر داخل ہو گیا۔ اس نے جان لیا کہ حقیقت کوئی مادی چیز نہیں، بلکہ ایک ایسی کیفیت ہے جو صرف وہی پا سکتا ہے جو اپنی ذات کے حصار کو توڑ دے۔

یہ تصویر، وہ علامت ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کی حقیقت صرف ظاہری دنیا تک محدود نہیں۔ یہ ایک سفر ہے، جو ہمیں فنا سے بقا کی طرف لے جاتا ہے۔ ہر شخص کی بستی مختلف ہے، ہر دروازہ منفرد ہے، مگر مقصد ایک ہی ہے: حقیقت کی تلاش۔
"سرحدوں کے اس پار جو کچھ ہے،
وہی اصل منزل، وہی اصل راز ہے۔" (شاکرہؔ نندنی)
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 342 Articles with 255038 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More