قائد اعظم گیمز سے سیکھ کر نیشنل گیمز کیلئے تیاری کرنے کی ضرورت



اسلام آباد میں پاکستان سپورٹس بورڈ کے زیر انتظام ہونیوالے قائد اعظم گیمز کے اختتام پر خیبرپختونخواہ کی مختلف کھیلوں میں کارکردگی قابل تحسین ہے بلوچستان سپورٹس کے معاملے میں کسی حد تک ٹھیک ہی ہے لیکن سندھ کے ٹیموں کوہرانا بڑی بات ہے کیونکہ محاورہ ہے کہ بڑے شہر کا چاند بھی بڑا ہوتا ہے سندھ جیسے بڑے صوبے جہاں پر سہولیات اور فنڈز بھی خیبرپختونخواہ کے مقابلے زیادہ ہے ان سے زیادہ میڈل مختلف کھیلوں میں لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ خیبرپختونخوا ہ میں ٹیلنٹ ہے لیکن انہیںسہولیات او ر مواقع دینے کی ضرورت ہے.اسی طرح اگلے سال کے دوسرے مہینے میںکراچی میں ہونیوالے نیشنل گیمز کیلئے ابھی سے خیبرپختونخواہ کی مختلف کھیلوں کی تنظیمیں اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ اگر تیاری کرلیں تو یقینا ہم نیشنل گیمز میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں.لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ کھیلوں سے وابستہ ہرفرد اپنی ذمہ داری پہچانے اور بلالحاظ ، بلاتحصیص اور بغیر کسی مفاد کے کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشش کریں جس کیلئے اس وقت ضروری ہے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ مختلف کھیلوں میںجانیوالے کوچز و مینجرز سمیت تمام کھلاڑیوں سے تحریری طور پر اسلام آباد میں پیش آنیوالے واقعات ، ان کی مشکلات سمیت وہاں کی خامیوں خوبیوں کی نشاندہی سمیت اپنے متعلقہ کھیلوں کے حوالے سے تجاویز لیں جس پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور خیبرپختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن مشترکہ طور پر لائحہ عمل ترتیب دے اور آنیوالے نیشنل گیمز کیلئے ابھی سے بہتر طور پر تیاری کرسکیں.

وفاقی حکومت میں ہونیوالے تینتیس کروڑ روپے کی لاگت سے ہونیوالے ان مقابلوں میں جہاں کھلاڑیوں کی بہت ساری تحفظات سامنے آئی ہیں ان میں بڑا مسئلہ مختلف کھیلوں کے حوالے سے ٹرائلز میں شفافیت کی کمی سمیت آفیشل میں پسند ناپسند کی شکایات عام ہیں ، اسی طرح وہا ں پر اتھلیٹکس کے مقابلوں میںصرف ایک ہی جیولن سے مقابلے کے انعقاد نے پی ایس بی کی خامیوں کو اجاگر کیا ہے جس کی نشاندہی خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے آفیشل نے بھی کی ،آفیشل اور کھلاڑیوں کو دئیے جانیوالے رہائشی ہوٹل میں سہولیات کی کمی سمیت بعض جگہوں پر خواتین کھلاڑیوں کیساتھ بدتمیزی کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پی ایس بی نے تھرڈ پارٹی کے ذریعے انتظامات تو کئے تھے لیکن ان کی مانیٹرنگ کا کوئی بندوبست نہیںتھا اسی طرح آفیشل کیلئے ایکریڈیشن کارڈ میں غلط کھیل لکھے گئے چیف ڈی مشن اور ڈائریکٹر آپریشن کیلئے ٹیکنیکل آفیشل کے کارڈ بنائے گئے تھے اسی طرح ہاکی کے کوچ کے کارڈ پر کوچ کے بجائے کچھ اور لکھاگیاتھا ، ٹیبل ٹینس کے کوچ کے کارڈ مختلف کھیلوں میں بنائے گئے تھے -کھلاڑیوں کوجو شوز دئیے گئے تھے بین الصوبائی سطح کے مقابلوں کے بالکل نہیں تھے ان سے اچھے تو خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ اپنے پچھلے ہونیوالے مقابلوں میں کھلاڑیوں کو دیتی رہی ہیں حالانکہ وفاق اور صوبے کے کھیلوں کے فنڈز میں زمین و آسمان کا فرق ہے.

خیبرپختونخواہ کے 374 کھلاڑیوں پر مشتمل دستے نے ان کھیلوں میں حصہ لیا تھا ، جس میں 211 مرد کھلاڑی جبکہ 163 خواتین کھلاڑی شامل تھی-ان کھلاڑیوں کے حوالے سے ایک اہم بات جس کی تصدیق صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ذمہ داران نے بھی کی کہ بعض کھیلوں کے کھلاڑیوں کے فارم ب ، شناختی کارڈ کا بڑا مسئلہ تھا ، ایف آر سی کے حوالے سے کھلاڑیوں کو تحفظات تھے کہ ان کے گھر کے دیگر افراد کی تصاویر سامنے آتی ہیں جو انہیں قبول نہیں لیکن یہ بھی ریکارڈ پر ہیں کہ ایسے کھلاڑی بھی خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے کھیلوں میں حصہ لینے کیلئے گئی ہیں جن کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ، یہ کس طرح ممکن ہوا اس بارے میں اگر تحقیقات کی جائے تو پھر بہت سارے لوگوں کے چہرے بے نقاب ہوجائیں گے .خیبر یہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا معاملہ ہے کہ اسے سامنے لاتے ہیںیا دباتے ہیں لیکن یہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ذمہ داران سمیت ایسوسی ایشن سے وابستہ افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے کھلاڑیوں کا ڈیٹا ، اپنے ساتھ کمپیوٹرائزڈ رکھ لیا کریں اسی طرح انہیں کھیل کے دوران کاغذات کی تیاری کے حوالے سے پہلے بھی آگاہ کریں تاک وہ بنیادی چیزیں پہلے سے تیار رکھیں اور انہیں مستقبل میں مسائل کا سامنانہ کرنا پڑے ، کیونکہ ان کھلاڑیوں کو صرف کھیلوں کیلئے نہیں بلکہ انہیں مستقبل کی ذمہ داریوں سے نمٹنے کیلئے تیار کرنا بھی کوچ کی ذمہ داری ہے .

خیبرپختونخواہ کے مختلف کھیلوں کیلئے ٹیموں کی تیاری میں جہاں کوچز کا کردار قابل تحسین ہے وہیں پر بعض جگہوں پر قابل افسوس بھی ہے ، اگر اتھلیٹکس میں دو کھلاڑی ٹیموں کے انتخاب سے دلبرداشتہ ہو کر کھیل ہی چھوڑ رہے ہیںتو پھر ا س واقعہ سے وابستہ تمام ذمہ داران کو "اگر مگر ، لیکن ویکن ، چونکہ چنانچہ سمیت چرب زبانی " چھوڑ کراپنے گریبان میں خود جھانکنا چاہئیے اور اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہئیے کہ جس طرح کا رویہ انہوں نے ان کھلاڑیوں سے روا رکھا اگر ان کے اپنے بچوں کیساتھ ہو تو پھر وہ کیسا محسوس کرینگے .کیونکہ یہاں پروقت بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی ، اسی طرح ٹیبل ٹینس کی خیبرپختونخواہ کی ٹیم کے ذمہ داران سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے جو نام پہلے بھیجے تھے وہ وہاں پہنچنے کے بعد ریپلسمنٹ کیوں مانگنے لگ گئے تھے .کیونکہ فٹ بال ، ہاکی میں کھلاڑیوں کے گر کر زخمی ہونے کے واقعات تو ہوتے ہیں لیکن ٹیبل ٹینس میں ایسا نہیں ہوتا ، پھر ریپلسمنٹ کیوں مانگی گئی اور جو توقع اس کھیل سے صوبے کے ذمہ داران کوتھی کیوں وہ رزلٹ نہیں آسکا.

صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کچھ ذمہ داران نے اپنی طرف سے کچھ کھیلوں کے کھلاڑیوں کے نام پہلے سے پی ایس بی کو بھیجے تھے جس کی تفصیلات آہستہ آہستہ آرہی ہیں جن میں بعض کھلاڑی ان مقابلوں کیلئے نہیں پہنچے اب یہاںسوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا انہو ں نے صوبائی ٹرائلز میںحصہ لیا یا پھر کیمپ میں بھی حصہ نہیں لیا تو پھر ان کے نام کیسے آئے ، ان میںسوئمنگ بھی شامل ہیں جس کی جانب کسی نے توجہ ہی نہیںدی حالانکہ پنجاب نے صرف پچیس میڈل سوئمنگ میںجبکہ ریسلنگ میں آٹھ میڈل لئے حالانکہ ان کھیلوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے. سابق ڈی جی سپورٹس خالدمحمود نے سال 2019 کے بعد پہلی مرتبہ سال 2023 میں پشاور سمیت چارسدہ کے مختلف سوئمنگ پول میںگرم پانی کی فراہمی کے منصوبوں کی منظوری دی تھی جس پر تاحال کام شروع نہیں ہوسکا حالانکہ گرمی میں 96لاکھ سے اوپر کی آمدنی ہوتی ہے تو گرمی میں یہ کمائی کروڑ روپے سے زائد ہوسکتی ہیں ، سابق ڈی جی سپورٹس خالد محمودکا واحد یہ اقدام جس پر اسے سراہاجاناچاہئے -

آخرمیں کھیلوں کی وزارت کے صوبائی ذمہ داران کو شفافیت کیلئے قائد اعظم گیمز کے دوران ٹرائلز کیلئے دی جانیوالی رقوم کو سامنالاناچاہئیے کیونکہ بہت ساری چہ میگوئیاں اس وقت کی جارہی ہیںجس میں وقت کیساتھ ساتھ اضافہ ہورہا ہے ٹرائلز کیلئے اگر فیمیل کھلاڑیوں کیلئے پچا س ہزار روپے جاری ہوئے تھے تو مردوں کے ٹرائلز کیلئے بھی جاری ہوئے تھے ،اسی طرح سامان کی خریداری کیلئے پانچ لاکھ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن والی بال کے کھلاڑیوں کو پانچ بال دئیے گئے ، ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں کو ٹریننگ کیلئے تین سو کے بجائے ایک سو بال دئیے گئے ، جبکہ بیڈمنٹن ٹریننگ کیلئے ملنے والے شٹل کاک کیلئے انتظامیہ رقم دینے کی بات کرتی رہی جبکہ کوچز سامان مل گیا ہے کے نعرے لگاتے رہی ، اسی طرح ہاکی کے خواتین کھلاڑیوں کیلئے بھی سامان کامسئلہ رہا ، اسی طرح ڈائریکٹریٹ کے ذمہ داران کو متفرق اشیاءکی خریداری کیلئے دئیے جانیوالے پانچ لاکھ روپے سمیت کھلاڑیوں کی واپسی کیلئے ساڑھے تین ہزار روپے فی کس کی بات کی بھی وضاحت کرنی چاہئیے کیونکہ سوئمنگ کے کھلاڑیوں کو ایک ہزار دیکر ٹرخایا گیا ہاکی کے کھلاڑیوں کو پندرہ سو روپے دیکرپشاور بھیجا گیا ، اس معاملے میں وضاحت کیلئے ڈائریکٹر آپریشن سے متعدد رابطے بھی کئے گئے مگر انہوں نے اس رابطے کو اہمیت نہیں دی خیر یہ ان کا معاملہ ہے لیکن اگر ان چیزوں کی وضاحت نہیں کی گئی تو پھر یہ چہ میگوئیاں خبروں میں تبدیل ہو جائینگی جو ڈائریکٹریٹ کیلئے یقینا مسائل پیدا کرنے کا باعث بنے گی .
#kikxnow #digitalcreator #sportnews #mojo #mojosports #kpsportsnews #quaidazam #directorate #kpk #kp #musarratullahjan

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 648 Articles with 507042 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More