سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختوخواہ ، اوچو سرہ لواندہ ھم سوزی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پہ کلی غلبلہ شوہ دا ڈم او دا نائی خہ شوہ ، یعنی گاﺅں میں کوئی واقعہ ہوا تو اسی گاﺅں کے میراثی اور نائی کے اچھے دن آگئے ، خیبرپختونخواہ کے بیشتر علاقوں میں اب بھی اسی پیشے سے وابستہ لوگوں کی مانی جاتی ہیں ، یہ الگ بات کہ اب وقت کیساتھ ساتھ اس ناموں میں تبدیلی آگئی ، پشتو زبان کے اس محاورے کو ہم کھیلوں کے شعبے میںعملی طور پر دیکھا جاسکتا ہے ، اسلام آباد میں ہونیوالے بین الصوبائی کھیلوںکے مقابلوں میں خیبرپختونخواہ نے دوسری پوزیشن حاصل کی ، جوخوش آئند ہے لیکن ان کھیلوں کی آڑ میں کچھ ایسی باتیں کی گئی جو تاحال عام لوگوں اور کھلاڑیوں کی نظروں سے اوجھل ہیں ، کھیلوں سے وابستہ لوگوں سمیت ہمارے کچھ صحافیوں کی بھی خواہش ہے کہ ہم ان کی نظر سے ان کھیلوں اور اس میں ہونیوالے چیزوں پر نظر رکھیں.
راقم کی نظر کی کمزوری ہے جو کہ مجبوری ہے اس لئے دو کی جگہ چار آنکھیں ہیں اور عینک کیساتھ یعنی چار آنکھوں کے ہوتے ہوئے دوسروں کے نظروں سے دیکھنا بھی راقم سے نہیں ہوتا. خیر اصل بات یہ ہے کہ قائد اعظم گیمز کیلئے فیمیل ٹرائز کیلئے بھی پچاس ہزار روپے رکھے گئے جبکہ میل کھلاڑیوں کیلئے کوئی رقم نہیں رکھی گئی حالانکہ فیمیل کے بیشتر ٹیمیں مختلف کالجز کی بنائی گئی ، جن میں والی بال ، ہاکی ، فٹ بال ،سوئمنگ کی فیمیل شامل ہیں انہی فیمیل کیمپوں کے ابتدائی دنوں میںہاکی کے کیمپ میںشریک کھلاڑیوں کو چھ ہزار روپے دیدئیے گئے ، اور سفید کاغذ پر ان سے دستخط لئے گئے یہ تو شکر ہے کہ وزیر کھیل سید فخر جہاں کو اطلاع ملی اور انہوں نے فیمیل کھلاڑیوں سے اس کی تصدیق کے بعد اس کی ہدایات جاری کی تو پھر یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی کہ ایک دن کی ڈیلی نہیں تھی حالانکہ ڈائریکٹریٹ نے پوری رقم دو عہدیداروں کو دی تھی اور وزیر کھیل کے نوٹس کے بعد سات دنوں کی ڈیلی فیمیل کھلاڑیوں کو دینے کے حوالے سے ممکن ہوئی ، حالانکہ قانون کے مطابق ایک دن کیمپ میں آنے سے قبل اور ایک دن جانے کے بعد ادائیگی ہوتی ہیں اس میں بھی بہت ساری چیزیں آنی ہیں اور بہت ساری ثبوت راقم کے پاس موجود ہے لیکن کچھ لوگوں نے اپنے جعلی فیس بک آئی ڈیز سے ا س بات کو دبانے کی کوشش کی ،اس لئے پشتو زبان کے محاورے کے مطابق پہ کلی غلبلہ شوہ دا ڈم او دا نائی خہ شوہ. والا معاملہ ہر جگہ اب نہیں چل سکتا.
پشتو زبان کا ایک اور محاورہ ہے کہ چرتہ ڈب وی ھلتہ ادب وی، چونکہ سپورٹس کے شعبے میں ڈب یعنی احتساب نہیں اس لئے کسی کو پروا بھی نہیں ، زبانی کلامی بیانات اور سوشل میڈیا پر چلنے والے بیانات اپنی جگہ لیکن حقیقت میں اس شعبے میں ہر کوئی اپنے آپ میں "الگ صوبہ ہے" اس لئے اس ڈیپارٹمنٹ کا ہر ایک صوبہ اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھتا ہے ان کے اس روئیے کا سب سے بڑا نقصان کھلاڑی اور کھیلوں کے میدان کا ہورہا ہے ، اس ڈیپارٹمنٹ میں ایسے اضلاع میں سپورٹس کمپلیکسز ہیںجہاں پرکوچز کی ضرورت ہے لیکن انہیں تعینات نہیں کیا جارہا ، اور بعض ایسے کوچز بھی ہیں جنہوں نے آٹھ سے دس سال گزار دئیے لیکن انہی یہ کہہ کر رگڑے دئیے جاتے ہیں ، کہ بھرتیوں پر پابندی ہے لیکن یہ پابندی صرف ان لوگوں کیلئے ہے جن کی اپروچ نہیں جن کا صرف اللہ کے سوا کوئی سہارا نہیں ، بھرتی کے قانون کے مطابق جو بھی نوکری ہوگی اسے باقاعدہ مشتہر کیا جائیگا لیکن سکواش کے میدان میں کم و بیش چار ماہ قبل ایسی بھرتیاں کی گئی جن کے امیدواروں کو ریکٹ پکڑنا بھی نہیں آتا اور ان چار مہینوں میں انہوں نے متعلقہ ملازمین نے ریکٹ پکڑ کر پریکٹس شروع کردی ،اور لوگوں کو ٹریننگ دینے کے بجائے اپنی ٹریننگ مکمل کی ، کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ ڈیوٹی کے اوقات کار کیا ہے اب تک کتنے کھلاڑیوں کو ٹریننگ دی گئی ہیں لیکن پوچھے گا کون ،
یہا ں پر ایک اور پشتو زبان کا محاورہ ذہن میں آرہا ہے چی اول دے نوک زائی شی بیا دے سوک زائے شی ، یعنی پہلے ناخن کے برابر جگہ ہمیں دو پھر ہم اپنی لئے مزید جگہ بنالیں گے اور تقریبا یہی سلسلہ اس وقت اس وقت "حال ناپرسان" بنے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا بھی ہے کم و بیش چار ماہ قبل بھرتی ہونیوالے سکواش کے کوچز نے قائد اعظم گیمز میں بطور کھلاڑی حصہ بھی لیا ، اور ماشاءاللہ انفرادی اور ٹیم ایونٹ میں میڈل بھی حاصل کرلئے ، اب ہمیںپشتو محاورے یعنی پختانہ پہ لنڈہ لار مڑ ہ دی کے سمجھ آنے لگی ہیں ، اس شارٹ کٹ کے نتیجے میں بھرتی ہونیوالے سکواش کی دو کوچز پشاور میں بغیر ڈیوٹی کے تنخواہیں تو لیتی رہی ہین اور لیتے رہینگی لیکن اگر قائد اعظم گیمز میڈل پر انعام بھی انہیں ملے گا تو پھر "میرٹ "کہاں پر ہوگا اورکون کھیلوں کی جانب آئیگا جس کا بڑا شور و غوغا کیا جاتا ہے. ایک طرف کھلاڑیوں کے نہ آنے کا رونا رویا جاتا ہے لیکن جب کوچ کھلاڑی بن جائیگا اور تنخواہ کے وقت کوچ ہوگا اور انعامات اور باہر جانے کے چکر میں کھلاڑی بن جائیگا اور اپنے دفتر سے رقم بھی لے گا تو پھر سپورٹس کا کیا بنے گا یہ سوچنے والی بات ہے.یعنی جس طرح کی صورتحال بن رہی ہیں اس میں وقت کیساتھ "اوچو سرہ لواندہ بہ ھم سوزی" والا معاملہ بنے گا.
خپل کور کے میگے ھم زور آور وی ، اس بات کا اندازہ قائد اعظم گیمز میں خیبرپختونخواہ کے مختلف کھیلوں کیساتھ جانیوالے آفیشل کی تصاویر دیکھ کر اندازہ ہوا ، اگرخیبرپختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن کے کچھ لوگوں نے اس میں ڈنڈی ماری ہے تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ذمہ داران بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ، تائیکوانڈو ، ٹیبل ٹینس ، سکواش کی تصاویر تو سامنے آئی ہیں لیکن اگر آفیشل کی لسٹیں اور کھلاڑیوں کی فہرستیں سامنے لائی جائے تو اس میں بہت سارے اٹھیں گے لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ کے ذمہ داران سوال اٹھانے کو برا سمجھتے ہیںاو ر اگر سوال پر جواب بھی دیں گے تو ایسے جواب سننے کو ملیں گے جنہیں سن کر سمجھ میں آتی ہے کہ یہ لوگ اپنے افسران کی طرح دوسروں کو بھی "بدھو"سمجھتے ہیں -خیر بلاگ کا اختتام اس پشتو محاورے پر کرنا پڑے گا "چی زان تہ خان وائی خان نہ دے" سمجھنے والوں کیلئے اس میں بہت ساری نشانیاں ہیں. #kikxnow #digitalcreator #sportsnews #mojo #musarratullahjan #kpk #kp #pakistan #sportsnews
|