آئی جی ایف سی بلوچستان(ساؤتھ)کاکیچ تھیلیسیمیا سنٹر کا دورہ

آئی جی ایف سی بلوچستان ساؤتھ نے گذشتہ دنوں کیچ تھیلیسیمیا سنٹر کا دورہ کیا جہاں نے انہوں نے عطیہ پیش کیا

جنوبی بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے سے لے کر عوام کی خدمت تک ایف سی بلوچستان (ساؤتھ)کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں۔اگرراقم اس کی تفصیل لکھنے بیٹھ گیا تو عین ممکن ہے کہ صفحات تنگ دامانی کی شکایت کریں۔ایف سی بلوچستان (ساؤتھ)اپنی دفاعی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دیگر معاشی وسماجی محاذوں پر بھی اپنا کلیدی کردار نبھارہی ہے۔ایف سی بلوچستان (ساؤتھ)کا قیام2017ء میں عمل میں لایا گیا جس کا مقصد جنوب مغربی حصے میں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملک کی سرحدوں کی نگرانی اور جنوبی بلوچستان میں امن وامان کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ داخلی اور سرحدی سلامتی کے علاوہ قومی اور عسکری اہمیت کے منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ان سات سال کے قلیل عرصے میں،اس نئی قائم ہونے والی فورس نے نہ صرف خود کو منظم کیابلکہ اپنی افرادی قوت کو پیشہ ورانہ تربیت دی،اپنی تعیناتی کے علاقے میں سرحدی حفاظت اور امن وامان کی بحالی سے لے کر عوامی خدمت تک اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو انتہائی بہترین اور موثر انداز میں نبھایا ہے۔گذشتہ دنوں آئی جی ایف سی بلوچستان(ساؤتھ)میجر جنرل بلال سرفراز خان،جو (ساؤتھ) بلوچستان میں دہشت گرد کے خاتمے، ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے دن رات سرگرم عمل ہیں،نے کیچ تھیلیسیمیاسنٹر کا دورہ کیا۔جہاں انہوں نے اس خطرناک مرض کے شکار بچوں سے اور ان کے والدین سے ملاقات کی،ان کے ساتھ وقت گزارا،اور ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کی جانب سے جدید الیکٹرومیڈیکل آلات کی خریداری کے لیے10لاکھ روپے کا عطیہ پیش کیا جبکہ کورکمانڈر بلوچستان کی طرف سے 28لاکھ روپے کا اضافی عطیہ پیش کیا گیا۔ اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیاکے 40مراکز ہیں،جن میں سے ایک کیچ تھیلیسیمیا مرکز ہے جو 2019ء سے اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہا ہے جس میں اس وقت 450مریض رجسٹرڈ ہیں،سنٹرکے تقریباً 40لاکھ روپے ماہانہ اخراجات ہیں جن سے ضلع کیچ میں تھیلیسیمیاکے مریضوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ان عطیات کی فراہمی پر سنٹر کے سربراہ ارشاد عارف نے آئی جی ایف سی بلوچستان(ساؤتھ)اور کورکمانڈر بلوچستان کا خصوصی شکریہ ادا کیا،جبکہ متاثرہ بچوں کے والدین نے آئی جی ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا انتہائی جذباتی اندازمیں،پرنم آنکھوں کے ساتھ تشکر کا اظہار کیاکہ ان کے عطیات کی وجہ سے خون کی بوند بوند کے طلب گاران کے بچوں میں زندگی کی نئی امید پیدا ہوئی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا ہے۔اللہ تعالیٰ کے قرب کی منزلیں اس کی مخلوق سے محبت اور رحمدلی کے راستوں سے ہی ہوکر گرزتی ہیں۔عبادات اور سخت مجاہدہ بھی بندے کو وہ مقام نہیں دلاسکتے جو تنہا انسانیت کا جذبہ دلا سکتا ہے کیونکہ انسان کو پیدا ہی ایک دوسرے کی خیر خواہی اور درد مندی کے لیے کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کو اپنی بندگی سے زیادہ اپنے بندوں سے انسانیت اور رحم دلی مرغوب ومطلوب ہے۔آئی جی ایف سی بلوچستان(ساؤتھ)اور کورکمانڈر کوئٹہ نے خدمت انسانیت کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔تھیلیسیمیاایک موروثی اور خطرناک مرض ہے۔ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 100ملین افراد تھیلیسیمیاکے لیے موروثی عنصر رکھتے ہیں،اور سالانہ 300,000سے زیادہ نئے پیدا ہونے والے بچے اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں۔پاکستان میں تقریباً 98لاکھ افراد تھیلیسیمیاکا شکار ہیں جبکہ ہر برس نو ہزار بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ خاندانوں میں شادیا ں ہیں۔یہ مہلک مرض والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے اوران خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے جن خاندانوں میں یہ بیماری پہلے سے پائی جاتی ہے اور آپس میں خاندانی شادیوں کا رواج زیادہ ہوتا ہے۔ اس بیماری میں انسانی جسم خون کے سرخ خلیوں کے لیے ناکافی ہیموگلوبن بنانے لگتا ہے۔اس طرح جسم میں سرخ خلیوں کی تعداد کم ہونے لگتی ہے اور مریض کو ہر ماہ ایک یا دوبار مرتبہ خون لگوانا ضروری ہوتا ہے۔اس بیماری کی دو بڑی اقسام ایلفا اور بیٹا تھیلیسیمیاہیں۔پاکستان میں زیادہ تر کیسز بیٹا تھیلیسیمیاکے ہیں جسے میجر اور مائنز کی سب کیٹیگری میں تقسیم کیا گیا ہے۔مائنز تھیلیسمییامیں والدین میں سے کوئی ایک اس مرض کا شکار ہو تو پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیامائنز کا شکار ہوگا۔یہ قسم زیادہ خطرناک نہیں ہوتی۔میجر تھیلیسمییا میں والدین آپس میں قریبی رشتہ دار اور اس مرض کا شکار ہوں تو ان کے بچے میجر تھیلیسیمیاکا شکار ہوں گے جن میں متاثرہ بچوں کو ہرماہ ایک سے دومرتبہ خون لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔پاکستان میں ایسے بچوں کی اوسط عمر 10سے12سال ہے۔2022ء میں پری میرج تھیلیسیمییا ٹیسٹ کا قانون منظور کروانے کے لیے کوشش کی گئی۔2021ء میں نیچر سائنس جرنل میں شائع ہونے والے مقالے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں عام افراد تھیلیسیمیاٹیسٹ سے خاندان والوں کی مخالفت کی وجہ سے کتراتے ہیں،جنہیں قائل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔اس حوالے سے طبی ماہرین کے مطابق سعودی عرب،ایران اور متحدہ عرب امارات کی مثالیں موجود ہیں،جہاں شادی سے پہلے تھیلیسیمیاٹیسٹ کو لازمی قرار دے کر اس مرض پر قابوکیا گیا ہے۔2016ء میں پاکستان سینیٹ میں خاندانی قوانین میں ترمیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا،جس کے مطابق ایڈز،تھیلیسیمیا،ہیپاٹائٹس اور خون سے متعلقہ دیگر موروثی /جینیاتی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے شادی سے قبل خون کی سکریننگ لازمی قرار دینا تھا۔اس سلسلہ میں ایک ماہر قانون کا کہناہے کہ اگر یہ قانون نافذ کربھی دیا جائے تو بعض علاقوں میں اس پر عمل درآمد بہت مشکل ہوگا کیونکہ بعض قبائل خاندان سے باہر شادیاں کرتے ہی نہیں ہیں۔نہ ہی یہاں شادی شدہ کیرئیر جوڑوں کو مزید بچوں کی پیدائش سے روکنا ممکن ہے۔ایک تحقیق کے مطابق بعض خاندانوں میں 75فیصدکزن میرج ہوتی ہیں،جن کے باعث 71فیصدخاندانوں میں کوئی ایک فرد تھیلیسیمیا کا شکارہوتا ہے جبکہ ایک قابل ذکر تعداد غیر سکرین شدہ خون کی منتقلی کے باعث تھیلیسیمیاکے ساتھ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار بھی ہوچکی ہے۔ تھیلیسیمیاکے خلاف جنگ میں آگاہی پھیلانا ہی واحد طریقہ ہے،جس کے ذریعے پاکستان میں اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ہمیں لوگوں کو آگاہ کرنا ہوگا کہ صحت مند بچے خاندانی رسم ورواج سے زیادہ اہم ہیں۔لہذا شادی سے پہلے ٹیسٹ ضرور کروائیں اور کیرئیر والدین مزید بچوں کی پیدائش کا رسک نہ لیں۔واضح رہے کہ ملک کی سلامتی ہویادہشت گردی کے سائے ہوں یا پھر کسی بھی قسم کی قدرتی آفات،ایف سی بلوچستان(ساؤتھ)کے جوانوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔
 

نسیم الحق زاہدی
About the Author: نسیم الحق زاہدی Read More Articles by نسیم الحق زاہدی: 195 Articles with 166420 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.