دسمبر کی آخری رات، ہوا میں سردی کا شدید احساس اور گلیوں
میں دھند کی تہہ۔ شہر کی روشنیاں ایک دھندلے خواب کی مانند لگ رہی تھیں۔
رمشا اپنے کمرے کی کھڑکی کے قریب بیٹھی تھی۔ نیند کا کوئی ارادہ نہیں تھا،
مگر ذہن میں بے چینی کی لہریں بار بار اٹھ رہی تھیں۔
آج وہ سال کا اختتام ایک معمولی رات کی طرح گزارنا چاہتی تھی۔ مگر یہ رات
معمولی نہ رہی۔ ٹیبل پر رکھے ایک پرانے ڈبے نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ
لی۔ یہ ڈبہ اس کی ماں کا تھا، جو برسوں پہلے اسے دے گئی تھی۔ اس ڈبے کو
کبھی کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ مگر آج کچھ عجیب سا جذبہ اسے مجبور کر رہا
تھا۔
ڈبہ کھولتے ہی ایک خط اور چند پرانی تصاویر نظر آئیں۔ خط پر اس کے والد کا
نام درج تھا، جنہیں وہ کبھی نہیں ملی تھی۔ لرزتے ہاتھوں سے خط کھولا، اور
پڑھنا شروع کیا۔ خط میں ایک سچائی چھپی تھی جو اس کی زندگی بدل دینے والی
تھی:
"رمشا، تم میری بیٹی ہو، لیکن میں وہ نہیں جو تمہاری ماں نے تمہیں بتایا۔
تمہاری ماں نے تم سے سچ چھپایا، کیونکہ وہ تمہیں دکھ سے بچانا چاہتی تھی۔
تمہارے حقیقی والد میں نہیں، کوئی اور تھا۔"
یہ الفاظ پڑھ کر رمشا کی دنیا جیسے رک گئی۔ اس کی پوری زندگی جو محبت اور
یقین پر قائم تھی، اچانک جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی نظر آنے لگی۔ اس نے وہ
تصویریں دیکھیں۔ ان میں ایک اجنبی شخص تھا، جس کے ساتھ اس کی ماں خوش نظر آ
رہی تھی۔
دل میں سوالوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا:
"اگر یہ سچ تھا، تو مجھے کیوں جھوٹ میں رکھا گیا؟"
"کیا محبت کا یہ مطلب ہے کہ ہم حقیقت چھپائیں؟"
دسمبر کی رات میں سردی اور بھی بڑھ گئی، مگر رمشا کے دل میں ایک نئی گرمی
جاگ اٹھی۔ یہ گرمی کسی انتقام کی نہیں، بلکہ سچ کو قبول کرنے کی تھی۔
اس نے خط کو واپس ڈبے میں رکھا اور ایک گہری سانس لی۔
"شاید یہ رات میرے لئے ایک نئے سال کی شروعات ہے، جہاں میں اپنی زندگی خود
لکھوں گی، سچائی کے ساتھ۔"
کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے رمشا نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں۔ دھند کے
پیچھے ایک ہلکی سی روشنی نظر آئی، جیسے کہنے آئی ہو:
"اندھیری رات کے بعد ہی نیا سویرا آتا ہے۔"
|