موجودہ دور میں یہ بات بڑی عجیب
لگتی ہے کہ اردو والوں کو افسانے، غزلیں، ناول ڈرامہ، تنقید، تنقید برائے
تنقید، جدیدیت، ما بعدجدیدیت، قبل ازجدیدیت وغیرہ اصناف لکھنے پڑھنے مباحثہ
مکالمہ اور شائع کرنے سے دلچسپی ہے لیکن کمپیوٹر تکنیک سے کوئی خاص رغبت
نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر تکنیکی معلومات پر مبنی کوئی مضمون، مقالہ یا کتاب
”اردو بازار“ میںآجائے تو اُس پر تبصرہ و تنقید کرنے کی صلاحیت بھی نہیں
رکھتے، یا کرنا نہیں چاہتے۔ بیشتر مدیروں کو مضمون شائع کرنے کے لئے بھی
مضمون نگار کے سوانحی خاکہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ جبکہ مضمون و مقالہ کی اشاعت
کی بنیاد اس کا معیار ہونا چاہئے نہ کہ صاحب مضمون۔ جب تک مضمون کی اشاعت
کی باری آتی ہے تب تک حالات و واقعات میں کافی تبدیلی آجاتی ہے۔
کتاب میلہ:
کتاب میلوں میں سیکڑوں پبلشر اور بک سیلر شریک ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اس بار
بھی ماہ فروری کے عالمی کتاب میلے میں شریک ہوئے۔ افراد کی گہما گہمی بہت
اچھی لگتی ہے۔ سجے ہوئے اسٹال بھی بہت اچھے لگتے ہیں۔ لوگوں کا اپنے خاندان
و رشتہ داروں کے ساتھ گھومتے ہوئے ٹیلی ویزن پر دیکھنا بھی بہت اچھا لگتا
ہے۔ کتابوں کی فروخت بھی پہلے کے مقابلہ میں زیادہ ہوئی ہے۔ کیوں نہ ہوں
ہندوستان کی شرح تعلیم میں اضافہ ہوا ہے۔ خواہ وہ کسی زبان میں کتابوں کی
فراوانی ہے اور باذوق افراد بھی پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن ان سب میں کمی محسوس
ہوئی تو کتابوں کے معیار میں۔ جو اشاعتی ادارہ پڑھے لکھے افرادپر مشتمل
ہوتا ہے، وہاں کی کتابوں کا معیار تو بہتر ہے لیکن اب کئی ایسے بھی اشاعتی
ادارے وجود میں آچکے ہیں جنہیں صرف کتابیں چھاپنے میں تو دلچسپی ہے لیکن
معیار کا قطعی خیال نہیں رکھا جاتا۔ نہ تو عنوان کے لحاظ سے کتابوں کا لے
آﺅٹ اور گٹ اَپ ہوتا ہے اور نہ ہی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے۔
پرائیویٹ اشاعتی ادارہ:
اس باربھی ہم نے کئی مطلوبہ کتابیں خریدی۔ کچھ کو چھوڑنی بھی پڑی۔ ایک بہت
ہی اچھے کاغذ پر چھپی کتاب غلطیوں کی بھرمار کی وجہ سے چھوڑ دینی پڑی۔ ایک
اپنے مطلب کی کتاب خرید لی۔ کیوں کہ کتاب بالکل عالمی معیار کی تیار شدہ
تھی۔ لیکن غلطیوں کی بھرمار ہونے میں انڈین اردو پبلشرز کو بھی پیچھے چھوڑ
دیا۔ ظاہر ہے اشاعتی ادارہ کے نام سے نہیں بلکہ کام کرنے والے فرد کی غلطی
اور کوتاہی کے نتیجہ میں وجود میں آئی۔ معاف کیجئے گا دہلی جیسے شہر میں
معیاری طور پر چند ہی اشاعتی ادارے ہیں، بقیہ سب کے سب عکسی اشاعتی ادارے
ہیں۔ نہ روزناموں میں خبروں کا معیار رہ گیا ہے اور نہ ہی پروف ریڈنگ کا
خیال رکھا جاتا ہے۔ جب سے کمپیوٹر میں اردو آیا ہے تب سے تو پورے ہندوستان
میں بری حالت ہوگئی ہے۔ خوش نویسی تھی تو اس میں بھی کام کرنے والے کے لئے
معیاری صلاحیت کا متحمل ہونا ضروری ہوتا تھا لیکن کمپیوٹر میں کمپوزیٹر کے
لئے شاید ایسی کوئی صلاحیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ بس یہ دیکھ لیا
جاتا ہے کہ کمپوزنگ کے معاملے میں کس شخص کا ہاتھ کس رفتار میں چل رہا ہے۔
سرکاری اشاعتی ادارہ:
سرکاری سطح پر جو تدریسی وغیر تدریسی معاون کتابیں تیار کرائی جاتی ہیں اُن
کے املا اور جملہ کا معیار غیر مرتب ہوتا ہے۔ یہاں بھی ایسا لگتا ہے کہ جب
سے اردو زبان کمپیوٹر میں شامل ہوا ہے تب سے اس کا معیار روز بروز گرتا
جارہا ہے۔ الفاظ کی بناوٹ اور پروف ریڈنگ کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ۔
چند ایک کو چھوڑ کر عام اخبار و رسائل کو اٹھاکر دیکھیں.... ایک لفظ دو سطر
میں، قومہ، وقفہ بے ترتیب، الفاظ کے حصے غیر ترتیب ڈھنگ سے جدا یا کبھی ایک
ساتھ۔ اُسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ خوشنویسی جو کسی وقت کتابوں اور اخباروں
کو زینت بخشتے تھے، لکھنے والوں کی بھی اچھی معلومات ہوتی تھی، اب وہ صرف
چند افراد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ برسوں سے خوشنویسی کے مراکز جو ترقی
اردو بورڈ کے تحت قائم تھے، بہت ہی ہوشیاری سے اسے بند کر دیا گیا۔ اب ایسا
لگتا ہے کہ بہت جلد ہماری طرزِ تحریر بھی آثارِ قدیمہ کی فہرست میں شامل ہو
جائے گی۔
قابل مصنّفین:
”اردو بازار“ میں جو کارآمد اور مدلل مضامین آتے ہیں اس کے مصنف کا کوئی
خاندانی معیار نہیں ہوتا۔ ایسے مصنفوں نے اپنی زندگی صرف اردو کی خدمت کے
لئے وقف کر دی ہے۔ وہ مادّی یا معاشی اعتبار سے بھی اتنے خود کفیل نہیں
ہوتے کہ دو وقت کی روزی انہیں آسانی سے میسرہو۔ ایسے مصنّفین اور بہی خواہِ
اردو کے بارے میں جب ”اردو پرنٹ میڈیا “ میں خبریں آتی ہے یا ان کے حالات
عوام کو معلوم ہوتے ہیں تو وہ دانتوں تلے انگلیاں دبا لینے پر مجبور ہو
جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض افراد کی زندگی کا آخری حصہ ایسا گزرتا ہے کہ اگر
کوئی خوددار اسے محسوس کرلے تو وہ چوبیس گھنٹوں میں کم از کم پانچ بار اس
زندگی سے پناہ مانگے۔
ایوارڈ کا معیار:
اگر کسی طرح کتاب کا معیار ایسا کہ اس کو انعام و اکرام سے بھی نوازا جا
سکے تو اس کے لئے بھی مصنف کے بارے میں پشتینی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت
پڑتی ہے۔ کتاب کو پڑھنے کی قطعی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی نہ اُس کے معیار
و مواد پر غور کرنے کی۔ اگر ضرورت پڑتی ہے توصاحب کتاب کے چاپلوسی کی۔ جی
حضوری کی۔ جبکہ اردو زبان کے لئے جس طرح افسانہ، غزلیں، ناول، تنقید، ڈرامہ
وغیرہ، ضروری اصناف ہیں اُسی طرح دورِ جدید میں تکنیکی معلومات کی بھی ازحد
ضرورت ہے لہٰذا اس سے واقف کرانا اور ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جس کی ذمہ
داری اردو اداروں کو ہی اٹھانی ہوگی۔ خواہ وہ اکیڈمیاں ہوں، ادارے ہوں یا
تنظیمیں۔ تعلیم کا معیار پچاس سال پہلے ایسا تھا کہ اپنا نام لکھ لینے والا
شخص بھی تعلیم یافتہ شمار کیا جاتا تھا۔ جبکہ آج تعلیم یافتہ کہلانے کے لیے
کم از کم دسویں کلاس تک کا علم رکھنے والا ہونا چاہئے۔ گریجویٹ سے کم میں
کوئی معقول ملازمت تک نہیں ملتی۔ لیکن جلد ہی تعلیم یافتہ کا معیار یہ قرار
پاجائے گا کہ اُسے تکنیک کا علم بہت ضروری ہوگا۔ اگر وہ کمپیوٹر کا استعمال
نہیں کر سکتا تو وہ موجودہ دور کا غیر معیاری شخص گردانا جائے گا۔
کمپیوٹر یا اسٹیٹس سمبل:
اردو کے ڈاکٹر، لیکچرر، پروفیسرز وغیرہ نے کمپیوٹر کو اپنی میز پر رکھ کر
اسٹیٹس سمبل تو بنا لیا لیکن بیشتر کو کمپیوٹر کی بنیادی معلومات بھی نہیں
ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ شعر و شاعری، غزل و افسانے کی کمپوزنگ تک محدود ہے۔
نہ تو نثر کو نثر کے طریقے سے پرنٹ کرنے یا بنانے کی اہلیت ہے اور نہ ہی
نظم کو نظم کے فورمیٹ میں کرنے کی صلاحیت۔ اُن کی اولادیں انگریزی پڑھ کے
غیر ممالک میں اپنی صلاحیتیں کھپا رہے ہیں اور والد بزرگوار کو تحفتاً لیپ
ٹاپ دے دیا کیونکہ اولاد کو اتنا تو معلوم ہے کہ اُن کے والد اُردو کے بہت
بڑے لکھاڑی ہیں۔ اگر کچھ کمپیوٹر کی معلومات میں اضافہ ہوا اور دلچسپی بڑھی
تو اوریجنل اردو پروگرام کمپیوٹر میں ڈالنے کی خواہش کی۔ کیونکہ اردو کا
نقلی پروگرام یا ونڈوز ایکس پی کے ساتھ اردو شامل رہتا ہے۔ اگر اصلی اردو
کا پروگرام یعنی سافٹ ویئر خریدنے کا سوچا یا فیصلہ کر لیا تو گویا انہوں
نے اردو کا سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی پر بہت بڑا احسان کر دیا۔ اگر کسی
نے اتنی قربانی دے دی کہ سافٹ ویئر خرید لیا تو اُن کا برتاﺅ ایسا ہو جاتا
ہے جیسا کہ انہوں نے کمپنی ہی خرید لیا ہو اور کمپنی کے ملازم گویا اُن کے
غلام ہو گئے۔ اسی طرح کی سوچ و فکر رکھنے والے اردو کے خود ساختہ دانشور،
ڈاکٹر، لکچرر، پروفیسرز کی وجہ سے اردو زبان کی یہ درگت بن گئی ہے کہ گزشتہ
تیس سالوں سے اردو بولنے والوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن پڑھنے
لکھنے والوں کا حلقہ محدود ہوا ہے۔ بیشتر رسالوں کا ایک خاص حلقہ ہے۔ وہی
جماعت لکھتی بھی ہے اور پڑھتی بھی ہے۔ جب جلسے بھی منعقد کرتے ہیں تو وہی
آپس میں صدارت، نظامت وغیرہ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ کبھی کسی شہر میں
کبھی کسی شہر میں جلسہ منعقد کیا اور ایواڈ تقسیم کر لئے۔ ایک ہی فرد کو
کبھی صحافت کا تو کبھی شاعری کا تو کبھی تنقید کا تو کبھی کچھ کا تو کبھی
کچھ کا ایواڈ مل چکا ہوتا ہے۔ جبکہ کوئی ایسا شخص جو خون پسینہ ایک کر کے
دن رات محنت کرکے اردو کے ایک خاص صنف پر محنت کرتا ہے اور اسے باقی رکھنے
کے لئے جی جان سے محنت کرتا ہے یہاں تک کہ وہ فن کو باقی رکھنے کے لئے اپنی
زندگی کا اثاثہ دولت کے علاوہ اپنی صحت بھی داﺅ پر لگا دیتا ہے ، اُس کی
کوئی خبر نہیں لیتا۔ دہلی میں بھی ایسے کئی فنکار موجود ہیں جنہیں اپنے فن
میں مہارت حاصل ہے لیکن ایسے فرد کو اردو کے کسی ادارے نے بھی ہمت افزائی
کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ اگر ایسا کوئی فرد یا افراد اس حلقے میں شامل ہونا
چاہے تو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ بالکل ہمارے ملک کے اُس دلت کی طرح جو
اپنے گاﺅں کے لوگوں کے غلط برتاﺅ کی وجہ سے مذہب تبدیل کرتا ہے تو بھی وہ
دوسرے مذہب میں جاکر دلت ہی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسالوں کی تعداد اشاعت
بھی محدود ہوتی چلی جارہی ہے۔ نئی نسل کو اردو سکھانے کے لئے وہ طریقے نہیں
اپنائے جارہے ہیں جس سے رسالوں اور اخباروں کی اشاعت بڑھے۔ اردو صرف اس حد
تک پڑھی یا پڑھائی جارہی ہے کہ اردو کے نام پرچلنے والی صوبائی
اکیڈمیاںحرکت میں رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اکیڈمیوں کی حرکت میں کمی آجائے
یا بے حس ہو جائیں۔ کیونکہ بے حس ہونے یا کم حرکت ہونے کی صورت میں اُس کے
گرانٹ میں کمی آجائے یا حکومت اُسے بند کرنے کا فیصلہ کر لے۔ غیر اردو داں
افسران اور افراد تو خیر اِن اداروں سے فائدہ اٹھا ہی رہے ہیں۔ کل ملا کا
اردو کی حالت ہمارے خودساختہ دانشوروں نے ایسی کر دی ہے کہ
تو مجھے سنا میں تجھے سناﺅں اپنی پریم کہانی
کون ہے وہ کیسی ہے وہ تیرے سپنوں کی رانی
اردو بمقابلہ ہندی:
اردو کے اشاعتی میدان میں کام کرنے والے اکثر کارکنان کا خیال یا اندازہ
رہتا ہے کہ ہندی والے زیادہ بہتر کام کرتے ہیں اور زیادہ بہتر معاوضہ پیش
کرتے ہیں۔ اس بات کی حقیقت کو جاننے کے لئے اس بار خاص طور سے میں نے تین
روز تک کتاب میلے میں وقت خرچ کیا اور زیادہ سے زیادہ اسٹالوں کو دیکھنے کی
کوشش کی۔ جہاں تک معیار کی بات ہے تو تھوڑا بہتر کہا جاسکتا ہے۔ لیکن
کتابوں کو دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ ہندی اشاعتی ادارے بھی عکسی ہیں۔ ہندی
زبان میں بھی ہر صنف کی کتابیں موجود ہیں لیکن معیاری طور پہ اردو ہی کی
طرح۔ قیمت کی بات کریں تو یہاں بھی وہی معیار ہے۔ کیونکہ یہاں بھی اشاعتی
اداروں کے رابطے سرکاری سطح پر مالی تعاون فراہم کرنے والی لائبریریوں سے
ہوتی ہے اس لئے قیمت عام اندازہ سے زیادہ ہوتی ہے خواہ وہ کسی صنف کی کتاب
ہو۔ اس طرح کے اشاعتی اداروں کو تھوڑا مالی فائدہ تو حاصل ہوجاتا ہے لیکن
کتاب کا معیار بہتر نہ ہونے کی وجہ سے عام ضرورت کو پوری کرنے کے قابل نہیں
ہوتی۔ جس کے نتیجہ میں روز بروز کتابوں اور اخبارات کی بھر مار ہوتی جارہی
ہیں۔
معاشرتی توازن :
زندگی کی ضرورتوں میں ایک اہم جز کتابیں ہیں لیکن معیاری اور غیرمعیاری کا
فرق و توازن برقرار نہ رہنے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہتری کے بجائے
بدتری دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ویسے تو عام معاشرتی زندگی میں ٹیلی ویژن نے
اپنا اچھا خاصااثر قائم کر رکھا ہے۔ جب بجلی چلی جاتی ہے تو ٹیلی ویژن کے
شائقین کو کتابیں یا اخبار و رسائل کے بارے میں خیال آنے لگتا ہے کہ وقت
کیسے گزارا جائے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح ٹیلی ویژن پر معیاری و
غیر معیاری مواد کو عام افراد دیکھتے ہیں اسی طرح اخبار و رسائل اور کتابوں
کے بارے میں بھی نظریہ رکھتے ہیں۔ ہم سے ملنے والے کئی بزرگ افراد آتے ہیں
اور کتابوں کی فرمائش کرتے ہیں: جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کس موضوع پر
کتاب پڑھنا آپ پسند کرتے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے: ”کوئی سی بھی
دے دیجئے اچھی سی“۔ مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ میں اس معیار
کو سمجھ نہیں پایا۔ اب رہی بات خریداری کی تو اس میں بھی ہندی کا حلقہ اتنا
بہتر نہیں ہے۔ ہم جس بلڈنگ میں رہتے ہیں یہاں کل سات افرادِ خاندان رہتے
ہیں، جس میں دو فیملی اردو والے ہیں اور باقی پانچ ہندی والے۔ اخبار کے نام
پر صرف ایک اردو اخبار میں منگاتا ہوں۔ ہندی والوں میں کوئی اخبار نہیں
خریدتا جبکہ ہر بالغ فرد کی تعلیم دسویں سے اُوپر ہے۔ پھر خریداری کے
معاملے میں اردو والے پیچھے اور ہندی والے آگے کیسےہو گئے؟ انگریزی اخبار
صرف دکھاوا ہے۔ بطور قاری تعداد بہت کم ہے۔ انگریزی کا ایک اخبار ایسا بھی
ہے پورے مہینہ میں جتنے روپے میں خریدا جاتا ہے ردّی کی شکل میں اس کی قیمت
سوایہ ہو جاتی ہے اس لئے بھی کچھ لوگ اس انگریزی اخبار کو خریدتے ہیں۔ کہتے
ہیں: اسٹیٹس بنا ہی رہتا ہے ردّی بیچنے پر بھی زیادہ ہی مل جاتا ہے۔
ممکن ہے کہ کچھ لوگ میرے اِن خیالات اور تجربات سے غیر متفق ہوں لیکن حقیقت
سے کافی قریب ہے۔ عام معاشرے میں شعوری فقدان تو ہے ہی گلوبلائزیشن نے اتنی
تیزی سے ہمارے معاشرے پر اثر ڈالا ہوا کہ ابھی ہمارا ملک خود اِن حالات سے
نبردآزما ہونے میں نااہل ہے۔ جس کے اثرات معاشرے کے دیگر شعبے کے ساتھ ساتھ
اشاعتی اداروں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اس وقت ہمارا معاشرہ صرف مادّیت پرست بنا
ہے۔ شہروں میں تو خاص طور سے یہ اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر سنجیدگی سے
مذکورہ امور پر توجہ نہ دی گئی تو آئندہ کے حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ |