14 جون 2009ء کو ضلع ننکانہ کے گاؤں اٹانوالی میں ایک
مسیحی عورت آسیہ نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی شان میں بدترین گستاخی کی اور
مسلمانوں نے قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے اس عورت کو گرفتار کروایا۔
تحقیقات مکمل ہونے کے بعد عدالت نے آسیہ ملعونہ کو 8 نومبر 2010ء کو سزائے
موت اور ایک لاکھ جرمانہ کا حکم سنایا۔
20 نومبر 2010ء کو گورنرِ پنجاب سلمان تاثیر نے اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش
کرتے ہوئے شیخوپورہ جیل میں آسیہ ملعونہ سے ملاقات کی اور اُسے یقین دلایا
کہ میری تمام تر ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں اور میں تمہیں صدر پاکستان سے
معافی دلواؤں گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر نے کہا؛ آسیہ کو (گستاخی
کی وجہ سے) جو سزا سنائی گئی وہ انسانیت کے خلاف اور بڑی ظالمانہ سزا
تھی۔مزید بکواس کرتے ہوئے سلمان تاثیر نے قرآن و سنت کی روشنی میں بننے
والے قانون تحفظ ناموسِ رسالت 295C کو کالا قانون کہا اور ٹوئٹر پر اپنے
آخری پیغام میں لکھا؛ مجھ پر توہینِ رسالت قانون کے سلسلے میں دائیں بازو
کی قوتوں کے سامنے جھکنے کے لیے شدید دباؤ ہے، تا ہم اگر میں اس مؤقف پر
آخری شخص بھی رہ گیا تب بھی ایسا نہیں کروں گا ، میں ایسے لوگوں (علماء) کو
جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔سلمان تاثیر کو قادیانیوں سے سے بھی بے حد ہمدردی
تھی، اس کی بیٹی شہربانو نے بیان دیا؛ میرے والد قادیانیوں کو غیر مسلم
قرار دینے کے سخت مخالف تھے۔
امیر المجاہدین علامہ حافظ خادم حسین رضوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمایا کرتے
تھے؛ ہم گناہ گار ضرور ہیں مگر غدار نہیں۔ مسلمان چاہے جتنا بھی گناہ گار
ہو، لیکن جب بات رسول اللّٰہ ﷺ کی آئے تو وہ اپنے رسولِ کریم ﷺ کی گستاخی
برداشت نہیں کرسکتا۔ سلمان تاثیر کے حد سے تجاوز کرنے کے بعد ملک بھر میں
غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ احتجاجی مظاہروں، ملک گیر ہڑتال اورتحریر و بیان
کے ذریعے ایمانی جذبات کا اظہار کیا گیا۔ 500 مفتیانِ کرام کی جانب سے
فتاویٰ جاری کیے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ صدرِ مملکت گورنر کو لگام
ڈالتے، چیف جسٹس سوموٹو ایکشن لیتے، یہ دور کی بات جب گورنر کے خلاف قانونی
کارروائی کیلئے ایف آئی آر (FIR) کاٹنے کی درخواست جمع کروائی گئی تو جواب
ملا؛ گورنر کے خلاف کاروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اسے قانونی استثنا حاصل
ہے۔
پنجاب پولیس کے کمانڈو یونٹ ایلیٹ فورس کے سپاہی غازی ملک ممتاز حسین شہید
رحمۃ اللّٰہ علیہ ان تمام معاملات کو دیکھ کر بہت پریشان رہتے، آپ کے بھائی
ملک دلپذیر اعوان کا کہنا ہے کہ جب آپ سے وجہ پوچھی تو آپ کا کہنا تھا؛بہت
بڑے عہدے پر فائز ایک شخص توہینِ رسالت کر رہا ہے، علماء فتویٰ دے رہے ہیں،
احتجاج ہو رہے ہیں، میں سخت تکلیف میں ہوں، مجھ سے کھایا پیا نہیں جا رہا
اور میرا دوستوں میں دل نہیں لگتا۔
جب حکومت و عدالت اپنی ذمہ داری نبھانے کو تیار نہ ہوئی تو 4 جنوری 2011ء
وہ تاریخی دن ہے جب شہیدِ ناموس رسالت غازی ملک ممتاز حسین قادری رحمۃ
اللّٰہ علیہ نے ملعون گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد کوہسار مارکیٹ کے
باہر27 گولیاں مار کر واصلِ جہنم کردیا۔ سلمان تاثیر کے واصلِ جہنم ہوتے ہی
295C میں ترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ میں جمع کروائی گئی قرارداد سمیت
ناموسِ رسالت ﷺ کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازیں تھم گئیں۔
|