اٹیچڈ باتھ رومز کا ارتقاء: قدیم زمانے سے جدید زندگی تک اور اسلامی صفائی کے اصول"


گھروں میں جڑے ہوئے باتھرومز کا تصور، جیسا کہ ہم آج جانتے ہیں، انیسویں صدی میں خاص طور پر مغربی دنیا میں ارتقاءپذیر ہوا۔ یہاں گھروں میں جڑے ہوئے باتھرومز کی ترقی اور تعارف کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:

1. باتھ رومز کی ابتدائی تاریخ:
قدیم اوقات میں باتھ رومز عموماً رہائشی جگہوں سے الگ ہوتے تھے۔ مثال کے طور پر:
قدیم روم: عوامی غسل خانوں کا رواج تھا، جہاں لوگ سماجی اور حفظان صحت کے مقاصد کے لیے جمع ہوتے تھے۔
قدیم مصر: نجی باتھرومز اشرافیہ کے لیے زیادہ عام تھے، مگر یہ اکثر سونے اور رہنے کے علاقے سے الگ ہوتے تھے۔
وسطی عہد: زیادہ تر گھروں میں بنیادی سہولتیں جیسے خچاک یا بیت الخلاءہوتے تھے، جو عموماً گھر سے باہر واقع ہوتے تھے، اور لوگ رات کے وقت کمرہ کے اندر چیمبر پٹ کا استعمال کرتے تھے۔
2. اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ارتقائ:
اٹھارویں صدی: جدید پلمبنگ کے ابتدائی آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ امیر گھروں میں ابتدائی قسم کے باتھرومز تھے، اور کچھ گھروں میں نہانے کے لیے چلتا پانی نصب کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔
انیسویں صدی کی ابتدائی دہائی: صنعتی انقلاب کے ساتھ، پلمبنگ کے نظام میں بہتری آئی۔ برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں اندرونی پلمبنگ زیادہ عام ہونے لگی، اگرچہ جڑے ہوئے باتھرومز ابھی بھی امیروں کی عیاشی سمجھے جاتے تھے۔
3. انیسویں صدی اور جڑے ہوئے با تھ رومز کا تعارف:
اٹھارہ سو پچاس: فلش ٹوائلٹ کا تعارف اور جدید سیوریج سسٹمز نے باتھرومز کے ڈیزائن کو تبدیل کرنا شروع کیا۔
انیسویں صدی کے اوائل میں: پہلا جدید باتھ روم کا ٹب تیار کیا گیا، اور جدید تعمیراتی طریقوں والے گھروں میں باتھ رومز کو بیڈ رومز یا دیگر حصوں سے جوڑنا شروع کر دیا گیا۔
4. بیسویں صدی اور اس کا وسیع پیمانے پر استعمال:
انیسویں اور بیسویں صدی کے ابتدائی حصے: مغربی ممالک میں وسطی طبقے کے گھروں میں جڑے ہوئے باتھ رومز کا تصور پھیلنا شروع ہوا۔ 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں یورپ اور امریکہ کے مضافاتی گھروں میں جڑے ہوئے باتھ رومز زیادہ عام ہو گئے، خاص طور پر سستے گھروں کی دستیابی اور پلمبنگ ٹیکنالوجی میں بہتری کے ساتھ اس میں مزید بہتری آتی گئی 1950 سے 1970 تک: اندرونی پلمبنگ کا استعمال وسیع پیمانے پر پھیل گیا، اور جڑے ہوئے باتھ رومز گھروں کا ایک معیاری حصہ بن گئے، خاص طور پر نئے تعمیر شدہ مضافاتی گھروں میں۔ باتھ رومز کو modern زندگی کا لازمی حصہ سمجھا جانے لگا۔اسی وجہ سے اب ہر گھرمیںجتنے کمرے ہوتے ہیں اتنے ہی اٹیچڈ باتھ رومز بنائے جاتے ہیں.
5. عالمی پھیلاو¿:
ترقی پذیر ممالک میں جڑے ہوئے باتھ رومز کا رواج بیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوا، خاص طور پر شہری علاقوں میں، جہاں صفائی اور پلمبنگ کے انفراسٹرکچر میں بہتری آئی۔بھارت میں 20ویں صدی کے آخر میں گھروں میں جڑے ہوئے باتھ رومز کا تصور مقبولیت حاصل کرنے لگا، خاص طور پر شہری علاقوں میں، جب جدید رہائشی اور تعمیراتی طریقوں کا آغاز ہوا۔جڑے ہوئے باتھ رومز کا تصور صدیوں کی ترقی کا نتیجہ ہے، جو سادہ بیت الخلاء سے لے کر جدید باتھ رومز تک پہنچ چکا ہے جو اب دنیا بھر کے بیشتر گھروں کا ایک معیاری حصہ بن چکے ہیں۔ جدید پلمبنگ کی ترقی اور انیسویں اور بیسویں صدی میں صفائی پر بڑھتی ہوئی توجہ نے جڑے ہوئے باتھرومز کو گھروں کا عام حصہ بنایا، خاص طور پر مغربی دنیا میں۔ آج کل جڑے ہوئے باتھ رومز گھروں میں ایک لازمی عنصر سمجھے جاتے ہیں۔

اسلامی نقطہ نظر اور باتھروم کا استعمال
اسلام میں صفائی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور بیت الخلاءمیں داخل ہونے سے پہلے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہاں کچھ اہم اسلامی اصول اور آداب درج ہیں:

اللہ کی پناہ کی دعا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جب تم میں سے کوئی شخص بیت الخلاء میں جائے، تو وہ یہ دعا پڑھا کرے: (اے اللہ! میں تیرے ذریعہ سے ناپاک جنات اور شیطان سے پناہ مانگتا ہوں)۔"
— صحیح بخاری

قبلہ کی طرف رخ نہ کرنا: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی شخص بیت الخلاءمیں جائے تو وہ قبلہ کی طرف رخ نہ کرے، نہ ہی پیٹھ کرے، بلکہ وہ دائیں یا بائیں طرف رخ کرے"۔
— صحیح مسلم
پانی کا ضیاع نہ کرنا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر تم دریا کے کنارے بھی ہو، پھر بھی پانی کا ضیاع نہ کرو۔"
— ابن ماجہ

اسلام میں پانی کے ضیاع کو ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے، اور یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہم پانی کا احتیاط سے استعمال کریں۔ آج کل جڑے ہوئے باتھ رومز میں پانی کا استعمال زیادہ ہو رہا ہے، جس کا صحیح استعمال اور بچاو¿ بہت ضروری ہے۔جڑے ہوئے باتھ رومز کا تصور نہ صرف انسانی ترقی کا نتیجہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اس کا استعمال بھی صحیح طریقے سے ہونا چاہیے تاکہ صفائی اور طہارت کے اصولوں کا احترام کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کے ضیاع سے بچنا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے جس کا مسلمان پیروی کرتے ہیں، تاکہ ان کے اعمال اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں اور ماحول کا تحفظ بھی ہو۔


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 653 Articles with 513231 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More